مغرب میں فلسطینی بیداری
امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر پولیس کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں
تاریخ فلسطین میں سات اکتوبر 2023 ایک اہم دن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یہ وہ دن ہے کہ جس نے فلسطین کی تاریخ میں فلسطین کے مستقبل پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس دن کی بدولت ہی فلسطین کا مسئلہ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے، جبکہ سات اکتوبر سے قبل کی دنیا میں صرف اور صرف فلسطین کے خلاف سازشیں تھیں اور ان سازشوں کا مرکز مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنا تھا۔ آج کی دنیا سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ فلسطین دنیا کے ہر انسان کے لیے مرکز اور محور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
عالمی سیاست کا مرکز و محور بھی فلسطین ہے۔ مغربی دنیا میں گزشتہ سات ماہ میں بڑے بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی ہیں اور ان سب کا بنیادی مقصد غزہ پر امریکی و اسرائیلی جارحیت کو بند کروانا تھا، لیکن حال ہی میں فلسطین کی بیداری نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے اور یونیورسٹیوں میں انقلاب کی کیفیت پیدا کردی ہے۔
کولمبیا کی یونیورسٹی سے فلسطین کی حمایت میں شروع ہونے والا احتجاج پورے امریکا میں اور یورپ کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ امریکی حکومت اپنے ہی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، طالب علموں کو یونیورسٹیوں سے نکالا جا رہا ہے۔ من گھڑت اور جھوٹے مقدمات بنا کر طلباء کو گرفتار کر کے سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔
یہ سب امریکی حکومت اس لیے کر رہی ہے کیونکہ احتجاج کرنے والوں کا امریکی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ غزہ پر جارحیت بند کرو۔ امریکی عوام اور خاص طور پر طلبا برادری کی اس بیداری نے نہ صرف امریکا کی دیگر ریاستوں میں بیداری کی لہر کو پیدا کیا ہے بلکہ یورپ سمیت افریقا اور لاطینی امریکا کے ممالک سمیت ایشیائی ممالک میں بھی امریکی طلباء کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔
امریکی یونیورسٹیوں کے طلبا کا دفاع کرنے اب ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔ امریکا کی سڑکوں پر اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، گرفتار کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بیداری تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
ایک ریاست سے دوسری ریاست اور تیسری ریاست سے نکلتے ہوئے یہ فلسطین کی حمایت کے مظاہرے تمام ریاستوں میں موجود یونیورسٹیوں میں پہنچ چکے ہیں۔ امریکی حکومت پریشانی کے عالم میں ہے کہ اس مرتبہ امریکی شہریوں کو یہ علم ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی کرنے والی امریکی حکومت ہی دراصل غزہ میں نسل کشی کی ذمے دار ہے۔
امریکی جامعات کے طلبا امریکی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ پر جارحیت بندکی جائے ، اسرائیل کو امریکا کی جانب سے اربوں ڈالر کا سالانہ اسلحہ دینا بند کیا جائے اور اسی طرح اکیڈمک فورم پر تمام یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے ساتھ کیے گئے، اکیڈمک معاہدوں اور سائنس کی فیلڈ میں ترقیاتی منصوبوں کو روک دیا جائے اور اسرائیل جیسی دہشت گرد اور قاتل ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہ کیا جائے۔
حقیقی طور پر امریکی شہریوں اور طلبا سمیت اساتذہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ انسان ہیں اور انسانیت کے ساتھ ہیں۔ امریکی طلباء کے احتجاج نے امریکا کے لبرل ازم اور آزادی اظہار کے کھوکھلے دعوئوں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ امریکی حکومت انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے اور پوری دنیا کے سامنے امریکی گھنائونا چہرہ بھی آشکار ہو رہا ہے۔ امریکی طلبا نے اپنے انسان دوست ہونے کا حق ادا کیا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو کام مسلمان ممالک کی جامعات سے ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک کی جامعات میں ایسی خاموشی طاری ہے کہ جیسے غزہ میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ کچھ مقامات پر طلبا نے اپنے تئیں کچھ کوشش کی ہے لیکن ان کوششوں کو مزید پختگی کے ساتھ جامع بنانے کی ضرورت ہے۔
آج امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر پولیس کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کی جامعات کے اساتذہ اس پوری بیداری کی تحریک میں کسی مقام پر بھی کھڑے نظر نہیں آ رہے۔ طلبا اور اساتذہ کو چاہیے کے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھیں اور فلسطین کی خاطر متحد ہو جائیں اور پاکستان کی نظریاتی روح کے ساتھ یہ ثابت کریں کہ پاکستان کے طلبا اور اساتذہ بھی فلسطینی عوام کی حمایت سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔
اس دن کی بدولت ہی فلسطین کا مسئلہ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے، جبکہ سات اکتوبر سے قبل کی دنیا میں صرف اور صرف فلسطین کے خلاف سازشیں تھیں اور ان سازشوں کا مرکز مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنا تھا۔ آج کی دنیا سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ فلسطین دنیا کے ہر انسان کے لیے مرکز اور محور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
عالمی سیاست کا مرکز و محور بھی فلسطین ہے۔ مغربی دنیا میں گزشتہ سات ماہ میں بڑے بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی ہیں اور ان سب کا بنیادی مقصد غزہ پر امریکی و اسرائیلی جارحیت کو بند کروانا تھا، لیکن حال ہی میں فلسطین کی بیداری نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے اور یونیورسٹیوں میں انقلاب کی کیفیت پیدا کردی ہے۔
کولمبیا کی یونیورسٹی سے فلسطین کی حمایت میں شروع ہونے والا احتجاج پورے امریکا میں اور یورپ کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ امریکی حکومت اپنے ہی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، طالب علموں کو یونیورسٹیوں سے نکالا جا رہا ہے۔ من گھڑت اور جھوٹے مقدمات بنا کر طلباء کو گرفتار کر کے سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔
یہ سب امریکی حکومت اس لیے کر رہی ہے کیونکہ احتجاج کرنے والوں کا امریکی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ غزہ پر جارحیت بند کرو۔ امریکی عوام اور خاص طور پر طلبا برادری کی اس بیداری نے نہ صرف امریکا کی دیگر ریاستوں میں بیداری کی لہر کو پیدا کیا ہے بلکہ یورپ سمیت افریقا اور لاطینی امریکا کے ممالک سمیت ایشیائی ممالک میں بھی امریکی طلباء کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔
امریکی یونیورسٹیوں کے طلبا کا دفاع کرنے اب ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔ امریکا کی سڑکوں پر اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، گرفتار کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بیداری تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
ایک ریاست سے دوسری ریاست اور تیسری ریاست سے نکلتے ہوئے یہ فلسطین کی حمایت کے مظاہرے تمام ریاستوں میں موجود یونیورسٹیوں میں پہنچ چکے ہیں۔ امریکی حکومت پریشانی کے عالم میں ہے کہ اس مرتبہ امریکی شہریوں کو یہ علم ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی کرنے والی امریکی حکومت ہی دراصل غزہ میں نسل کشی کی ذمے دار ہے۔
امریکی جامعات کے طلبا امریکی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ پر جارحیت بندکی جائے ، اسرائیل کو امریکا کی جانب سے اربوں ڈالر کا سالانہ اسلحہ دینا بند کیا جائے اور اسی طرح اکیڈمک فورم پر تمام یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے ساتھ کیے گئے، اکیڈمک معاہدوں اور سائنس کی فیلڈ میں ترقیاتی منصوبوں کو روک دیا جائے اور اسرائیل جیسی دہشت گرد اور قاتل ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہ کیا جائے۔
حقیقی طور پر امریکی شہریوں اور طلبا سمیت اساتذہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ انسان ہیں اور انسانیت کے ساتھ ہیں۔ امریکی طلباء کے احتجاج نے امریکا کے لبرل ازم اور آزادی اظہار کے کھوکھلے دعوئوں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ امریکی حکومت انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے اور پوری دنیا کے سامنے امریکی گھنائونا چہرہ بھی آشکار ہو رہا ہے۔ امریکی طلبا نے اپنے انسان دوست ہونے کا حق ادا کیا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو کام مسلمان ممالک کی جامعات سے ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک کی جامعات میں ایسی خاموشی طاری ہے کہ جیسے غزہ میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ کچھ مقامات پر طلبا نے اپنے تئیں کچھ کوشش کی ہے لیکن ان کوششوں کو مزید پختگی کے ساتھ جامع بنانے کی ضرورت ہے۔
آج امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر پولیس کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کی جامعات کے اساتذہ اس پوری بیداری کی تحریک میں کسی مقام پر بھی کھڑے نظر نہیں آ رہے۔ طلبا اور اساتذہ کو چاہیے کے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھیں اور فلسطین کی خاطر متحد ہو جائیں اور پاکستان کی نظریاتی روح کے ساتھ یہ ثابت کریں کہ پاکستان کے طلبا اور اساتذہ بھی فلسطینی عوام کی حمایت سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔