زباں فہمی نمبر206 ’ نُوراللغات کی سیر‘ حصہ دُوَم
نُوراللغات کی اوّلین جِلد میں حرف الف کا باب اس لحاظ سے جدید لغات سے مختلف ہے
نُوراللغات کی اوّلین جِلد میں حرف الف کا باب اس لحاظ سے جدید لغات سے مختلف ہے کہ اس میں حرف کے عربی اور فارسی میں استعمالات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جناب اُردو میں اِس کی کیا ضرورت ہے; مگر نہیں، ایسا نہیں ہے۔
لغت سے استفادہ کرنے والے تمام قارئین کی ضرورت، لیاقت اور علمی استعداد برابر۔یا۔یکساں نہیں ہوتی۔اسکول کے طالب علم کا ایک عالمِ دین یا سائنس داں یا کسی بھی شعبے کے ماہرسے ہرگز کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔محض امتثالِ امر کے لیے کچھ اقتباس پیش کرتاہوں:
"الف
مذکر۔عربی،فارسی،اردو کی الف بے کا پہلا حرف۔عِلم ِحساب میں اکائی کے پہلے ہندسے کی صورت ہے۔ابجد میں اس کا ایک عدد قراردیاگیا ہے۔یہ الف مختلف مقامات پر مختلف کام دیتاہے"۔
راقم سہیل کا بیان: آگے بڑھنے سے پہلے انتہائی اہم نکتہ بیان کردوں: عربی گنتی میں ابجد ہَوّز وغیرہ کے قاعدے میں ایک سے دس، پھر بیس تیس سے ہوتے ہوتے سَو اور پھر دوسَو تین سَو سے لے کر ہزار تک اعداد طے کیے گئے ہیں جن کا علم ہمارے ہر اُردو داں کو ہونا چاہیے۔ خاکسار کے پاس نظرِ ثانی کے لیے اشتہارات آتے ہیں تو یہ خرابی بہت عام نظر آتی ہے کہ انگریزی اشتہار کے ترجمے یا اُس کے مقابل اُردومیں اشتہار کا متن لکھنے والے انگریزی کے اعداد ہی لکھ دیتے ہیں جیسے 1,2,3,4/a, b, c, یا رومن گنتی I,II, III۔ یا اُنھیں ابجد ہَوّز کا علم نہیں ہوتا، اس لیے یو ں لکھتے ہیں: الف، ب، پ، ش، گ وغیرہ۔(صحیح یوں ہے: اب ج دہ و ز ح ط ی ک ل م ن س ع ف ص ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ غ)۔
یہ پڑھیں : زباں فہمی نمبر205؛ ' نُوراللغات کی سیر' (حصہ اوّل)
جب اصلاح کی جائے تو بعض ایسے سرپھِروں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو اَپنے سابق متن کے برقراررَکھنے ہی پر اِصرارکرتے ہیں۔یہ صورت حال انگریزی میں بھی ہے۔ایک بہت معتبر ومستحکم اِدارے کا ایک اشتہار (اکثر بہت طویل) سالانہ اجلاس ِ عام [Annual General Meeting]کے انعقادکی اطلاع اور اِس سے متعلق اُمور کے پرچارکے لیے سال میں دویا تین بار شایع ہونے کے لیے ہمارے پاس آتا ہے۔اُس میں Year endingکی بجائے Year endedلکھا جاتاہے، جبکہ اِ س کی تصحیح پر بہت لے دے بھی ہوچکی ہے۔'صاحب' نے کوئی پچاس سال پرانی فائل سے نقل کیا تھا تو اَب وہی رہے گاتاقیامت۔اُنھیں اس اشتہارکی خاطر اپنی انگریزی دانی کی "مرمّت" کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔خیر جانے دیجے، بندہ اگر پاکستانی انگریزوں کی انگریز ی دانی پر لکھنے لگا تو زباں فہمی بزبانِ انگریزی یا بزبانِ 'برگرز' ہوجائے گی۔
آئیے اب دوبارہ زیرِ مطالعہ لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔عربی میں الف کے استعمالات کے ضمن میں آخری اور نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ: "بعض عربی اَسماء میں کبھی بشکل ِ واؤ اور کبھی بشکل 'یا' (حرف 'ی': س ا ص) لکھا جاتاہے، مگر اَلِف پڑھاجاتا ہے، جیسے مصطفی، زکوٰۃ اور بعض جگہ فتحے (زبر: س ا ص) کے اشباع سے پڑھاجاتا ہے اورنصف الف بطور ِ اشارہ کتابت میں آتا ہے جیسے اللہ، اسمٰعیل، رحمٰن، لہٰذا"۔(اشباع سے مرادہے کہ کسی حرف کی حرکت کو اتنا لمبا کر کے پڑھاجائے کہ زبر سے الف، زیر سے'ی' اور پیش سے 'واؤ' کی آواز پیدا ہو جائے: س ا ص)۔خاکسار کا خیال ہے کہ اگر یہ نکتہ ہمارے جدت طراز بقراطوں کو صحیح سے سمجھ میں آجائے تو وہ ایسے تمام الفاظ کی ہئیت تبدیل کرکے اذہان کو گمراہ کرنے کی سعی ِ نامشکور نہ فرمائیں۔
نُوراللغات میں الف کے فارسی میں استعمالات یوں بیان کیے گئے ہیں:
"(ا)۔ انحصار اور استیعاب کے لیے آتا ہے جیسے سراپا، لبالب، سراسر (یہ لفظ 'اختصار' ہوگا جسے کاتب کے سہو نے 'انحصار' بنادیا: س ا ص)
(یعنی مختصر وجامع کرنے کے لیے۔سراپا بجائے سرتاپایعنی سرسے پیر تک، لبالب بھی ہوسکتا ہے کہ لب تا لب ہو، سراسر بجائے سر تا سرہوسکتا ہے، ویسے کہیں کہیں کسی کی تحریریاکلام میں 'سرتاسر' کی ترکیب بھی دیکھی تھی: س اص)
(ب)۔ نِدا کے لیے آتا ہے جیسے ناصحا، ساقیا، خداوندا۔بعض فُصَحاء نے دِلا کو تَرک کردیاہے اور بَجُز خاص خاص الفاظ کے، عموماً اِس کا استعمال ناجائز سمجھتے ہیں جیسے نِگارا، صَنَما نہیں کہتے ;'مسیحا' میں بعض الفِ نِدا کہتے ہیں اور بعض الفِ لقب اور اِ س پر حرفِ نِدا لگانا صحیح سمجھتے ہیں:
؎ اے مسیحا! تِرا بیمار ہوں میں +قابلِ شربتِ دیدار ہوں مَیں"
بیانِ سہیل: مولوی نیرؔ صاحب نے تو ایک شعر مثال کے طور پرپیش کردیا، اب جو ہم نے تلاش کیا تو جدید دورکے شاعر جناب کوثر ؔ نیازی کا یہ شعر بھی نظرآگیا جس میں 'مسیحا' کے ساتھ 'اے' یعنی حرفِ نِدا کا استعمال اُسے ماضی کے مستند شعراء کے کلام سے جُدا کررہاہے:
اے مسیحا کبھی تُو بھی تو اسے دیکھنے آ
تیرے بیمار کو سُنتے ہیں کہ آرام نہیں
شعرکی ساخت وکیفیت پرکوئی تبصرہ کیے بغیر خاکسار عرض کرناچاہتاہے کہ اگر موصوف فقط شاعر وعالِم ہی بن کر عزت وشہرت کماتے تو بہترتھا۔
ہمارے یہاں اردو زبان وادب کی تعلیم ناقص ہونے کے سبب، بہت سے سنگین لطائف جنم لیتے رہتے ہیں۔ حرفِ نِداکی وضاحت بھی ایسے ناواقفین کے لیے ضروری ہے جو عدم واقفیت کے سبب شعرمیں حرفِ نِدا کا استعمال صحیح نہیں کرسکتے۔ناصحایعنی اے ناصح، ساقیا یعنی اے ساقی، خُداوَندا یعنی اے خُداوَند۔
ساقیاکے استعمال کی مشہور ترین مثال اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں:
؎ ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ +جب تلک بس چل سکے، ساغر چلے
(خواجہ میر دردؔ)
خُداوَنداکا استعمال اس مشہور شعر میں دیکھیے:
؎ خُداوَندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں +کہ دَرویشی بھی عےّاری ہے، سلطانی بھی عےّاری
(علامہ اقبال)
مؤلف موصوف کے دورمیں توشاید ایسا نہ ہوتا ہو، مگر اِن دنوں یہ غلطی عام ہے کہ عام آدمی کیا شاعر کیا، ' خُدایا' (یعنی اے خُدا)کے ساتھ بھی 'اَے' کا اضافی استعمال کرجاتے ہیں۔لڑکپن میں ایک صاحب سے ایک حمد سیکھی جس کے اشعار گزشتہ کچھ سال میں بہت مقبول ہوئے; چاندتاروں میں تُو، مَرغزاروں میں تُو اَے خُدایا، کس نے تیری حقیقت کو پایا۔یہاں بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی کہ محض 'خُدایا' پر اِکتفا نہ کیا اور 'اَے' بھی بڑھادیا۔عام گفتگومیں بھی لوگ کہہ جاتے ہیں کہ "اَے خدایا! کیا کروں؟"۔یا۔"یا خُدایا! مجھ پر رَحم کر!"۔
علاو ہ اَزیں خاکسار کو کچھ اور مثالیں بھی یاد آرہی ہیں جن میں 'الف' بطور حرفِ نِدا استعمال ہوا ہے،جیسے اس مشہور شعرمیں:
؎ نسیما! جانبِ بطحا گُزرکُن+زِاِحوالَم محمد (ﷺ) را خبر کُن (مولانا جامیؔ)
یعنی اے بادِ نسیم! جب تیرا گزرا بطحا یعنی مکّہ مکرّمہ کی طرف ہو تو میرا حال حضور نبی کریم (ﷺ) سے کہہ دینا (س اص)۔بظاہر یہی خیال کسی شاعر نے اردومیں یوں نظم کیا ہے:
بادِ صبا! تیرا گزر، گرہوکبھی سُوئے حرم+پہنچا سلامِ شوق تُو، پیش ِ نبی محترم (ﷺ)
تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں یہ شعر اور مابعد کلام، اصل میں مشہور عربی نعت کی ترجمانی ہے جو حضرت علی (رحمۃ اللہ علیہ)بن حسین ابن علی (رضی اللہ عنہما: صحابی ابن صحابی کے لیے یہ کلمہ بولاجاتاہے: س ا ص) المعروف امام زین العابدین سے منسوب ہے:
اِنْ نَلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰی اَرْضِ الحَرم
بَلِّغْ سَلاَمِیْ رَوْضَۃً فِیْہَا النَّبِیُّ المُحْتَرَم
اے بادِ صبا، اگر تیرا گزر سرزمینِ حرم تک ہو
تو میرا سلام اس روضے کو پہنچانا جس میں نبیِ محترم(ﷺ) تشریف فرما ہیں
یہاں ایک ضمنی مگر نہایت اہم نکتہ یہ بھی دریافت ہوا کہ مقطع میں "زین العابدینؔ" بطور تخلص استعمال ہوا ہے جو تابعی موصوف ہرگز اپنے لیے استعمال نہیں فرماتے تھے۔(تخلص کا استعمال یوں بھی اُس دورمیں عام نہ تھا)۔یہ تو اُن کی وفات کے صدیوں بعد اُنھیں کہاجانے لگا۔گویا شاعر کوئی اور ہے جس نے عقیدت میں نعت کہہ کر اُن سے منسوب کردی۔اس طرح کی مثالیں کئی ایک ہیں۔
صاحبِ لغت نے فرمایا کہ "بعض فُصَحاء نے دِلا کو تَرک کردیاہے" یعنی اب اے دل کی جگہ دِلا کہنے کا رِواج نہیں رہا۔محض اتفاق ہے کہ گانے کے بول ذہن میں آرہے ہیں جن میں 'دِلا' موجودہے، مگر یہ پنجابی میں ہے:
؎ دِلا! ٹھہر جا یار دَا نظارہ لین دے+کوئی پیار والی سجنا ں نُوں گل کہن دے
(نغمہ نگار: وارثؔ لدھیانوی، منظر کے کردار صبیحہ خانم اور سنتوش، آواز: زبیدہ خانم، فلم 'مُکھڑا'، مُوسِیقار رشیدعَطرے۔سن: 1958)
مولوی نیرؔ صاحب نے یہ بہت عمدہ نکتہ بیان فرمایا کہ ";'مسیحا' میں بعض الفِ نِدا کہتے ہیں اور بعض الفِ لقب اور اِ س پر حرفِ نِدا لگانا صحیح سمجھتے ہیں"۔یہ وہ بات ہے جس کا علم اردو شاعر کو ہونا لازم ہے۔اس طرح کی معلومات آج کل کے بزرگ کم کم ہی فراہم کرسکتے ہیں۔
(ج)۔زیرِ نظر لغات میں "الف کااستعمال،فارسی میں" کے باب میں آگے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ حرف الف، افراط یعنی کسی چیز کے معانی بڑھانے، ان میں وسعت پیداکرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے خوش میں الف بڑھا کر خوشا اور بس سے بَسا۔(د)۔"کبھی فتحے کے اشباع سے پیداہوتاہے اور معنیٰ میں اس کو کچھ دَخل نہیں ہوتا(یعنی زبر سے آواز اس قدر بڑھائی جائے کہ الف بن جائے: س اص)، جیسے پیرہن سے پیراہن، ستم گر سے ستم گار، دامن سے دامان"۔ (ہ)۔"الف(بطور) لقب(بھی استعمال ہوتا ہے)، جیسے جلال سے جلالا ع انجام ہوبخیر قیامت کا آتشا..ؔ... اب اردومیں متروک ہے"۔(یعنی آتشؔ کا مصرع ہے جسے میں حسبِ ضرورت،الف کا اضافہ کیا گیا: س اص)۔ (و)۔"کبھی کلِمے کی ابتداء میں زائد آتا ہے،جیسے شُتر سے اُشتر، گر سے اَگر;اردومیں اگرہی فصیح ہے"۔(یہاں وضاحت ضروری ہے کہ ایک عربی اسم معرفہ "اَشتَر" بھی ہے جو اِس سے الگ ہے: س اص)۔(ز)"حسرت وافسوس کی جگہ آتا ہے،جیسے دَردا، دَریغا، وَا حسرتا، واویلا ;وہ الف جو فارسی میں مَن (یعنی مَیں: س ا ص) کے معنیٰ دیتا ہے، جیسے ملاذا۔اردو میں اس کے معنیٰ 'من' کے نہیں لیے جاتے،بلکہ الفِ نِدا سمجھاجاتا ہے"۔(ح)جب صیغہ اَمر کے آخر میں آتا ہے تو اُس کو فاعل بنادیتا ہے جیسے دان سے دانا، توان (تواں: س ا ص) سے توانا، بِین سے بِینا"۔(ط)"کبھی صیغہ اَمر میں آتا ہے تو اُس کو مفعول بنادیتا ہے جیسے گوارا، پزیرا"۔(ی)الفِ لیاقت جیسے خوانا (خواں سے: س ا ص)"۔(ک)"دوکلموں کے بیچ میں آکر اِتِصال کے معنیٰ دیتاہے جیسے شباشب، گوناگوں"۔
یہاں تک پہنچ کر قاری سانس لیتا ہے تو اَگلی منزل مزید دل کش معلوم ہوتی ہے۔مولوی نورالحسن نیرؔ نے حرف الف کے اردومیں استعمالات کا باب بھی بہت چابک دستی سے باندھا ہے۔یہ عام ادبی قاری سے زیادہ کسی شاعر کے لیے پڑھنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فطری بہاؤ میں کوئی ایسی غلطی نہ کرجائے جس سے شعر کا لغوی ڈھانچہ متأثر ہو۔
(ا)۔"ک ثرت، مُبالغہ ظاہرکرنے کے لیے، جیسے بھاگابھاگ (اب بھاگم بھا گ مستعمل ہے: س ا ص)، مارامار(ماراماری مستعمل ہے: س ا ص)، دھما دھم (دھنا دھن بھی ہے: س اص)۔(ب)۔ہندی الفاظ کے صیغہ اَمر کے آخر میں مفعول کے معنیٰ پیدا کرتا ہے جیسے دیکھا، سُنا،لکھا;بعض کہتے ہیں کہ الف نے اَمر کو ماضی کردیا ہے اور وہی ماضی بمعنی مفعول مستعمل ہوا ہے"۔(ج)۔"صیغہ اَمر کے آخر میں لانے سے ماضی کے معنیٰ پیدا کرتا ہے،جیسے اُٹھ سے اُٹھا، دیکھ سے دیکھا"۔(د)۔"کبھی حاصلِ مصدر کے معنیٰ پیدا کرتا ہے جھگڑ سے جھگڑا، رگڑ سے رگڑا"۔(ہ)۔"کبھی کلمے کے اوّل (شروع: س اص) میں لانے سے نفی کے معنیٰ پیداکرتا ہے اور یہ الف ہمیشہ مفتوح (یعنی زبر کے ساتھ) ہوتا ہے جیسے اَلَگ، اَٹَل"۔(و)۔"کبھی تصغیر (یعنی کسی لفظ کو چھوٹا کرنا یا گھٹانا: س اص)کے واسطے اسم کے آخر میں آتا ہے اور یہ تصغیر کبھی مفید تحقیر (یعنی تحقیر کی غرض سے: س اص)اور کبھی پیار کے طورپرآتی ہے، جیسے کَلوَا (کَلُّو سے)، بِٹیا (بیٹی سے)"۔(ز)"کبھی تعےّن مراتب ِ اعداد کے لیے آتا ہے جیسے پہلا، دوسرا"۔(ح)۔بعض اسماء کے آخر میں بڑے پن کے معنیٰ دیتا ہے،جیسے ٹوپا (ٹوپی سے: س ا ص)، ٹہنا (ٹہنی سے: س ا ص)"۔(ط)۔"کبھی دوکلموں کے بیچ میں نسبت کے واسطے آتا ہے،جیسے موسلا دھار، بھیڑیا چال (ہمارے یہاں تو بھیڑ چال مستعمل ہے: س اص) اور کبھی آخر میں یہ فائدہ دیتا ہے،جیسے اِکہرا، دُہرا"۔(ی)۔بعض اسماء میں الف،نسبت کے قبل بھی لاتے ہیں،اگرچہ اصل اسم میں نہیں ہوتی،جیسے دودھیا، مونگیا"۔(ک)۔ہندی مادّوں کے آخر میں آکر صفت مشبہ کے معنیٰ پیدا کرتا ہے جیسے میلا، بھوکا،راجا"۔(ل)۔فعل ِلازم میں مختلف مقامات پر آکر اُس کو متعدّی کردیتا ہے جیسے اَٹَکنا سے اَٹکانا، برسنا سے برسانا اور جن مصادرمیں دوسرا حرف، حرفِ علّت ہوتا ہے، حذف ہوجاتا ہے،جیسے بھاگنا سے بھگانا، کودنا سے کُدانا، ٹلنا سے ٹالنا، بگڑنا سے بگاڑنا"۔اس کے بعد صاحبِ لغات نے 'آ' کا باب باندھا ہے جسے جدید دورمیں الگ حرف شمارکیاجانے لگا ہے،حالانکہ وہ الف پرایک اضافے کے ساتھ بنتا ہے،بذاتہ کوئی چیز نہیں!
(جاری)
لغت سے استفادہ کرنے والے تمام قارئین کی ضرورت، لیاقت اور علمی استعداد برابر۔یا۔یکساں نہیں ہوتی۔اسکول کے طالب علم کا ایک عالمِ دین یا سائنس داں یا کسی بھی شعبے کے ماہرسے ہرگز کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔محض امتثالِ امر کے لیے کچھ اقتباس پیش کرتاہوں:
"الف
مذکر۔عربی،فارسی،اردو کی الف بے کا پہلا حرف۔عِلم ِحساب میں اکائی کے پہلے ہندسے کی صورت ہے۔ابجد میں اس کا ایک عدد قراردیاگیا ہے۔یہ الف مختلف مقامات پر مختلف کام دیتاہے"۔
راقم سہیل کا بیان: آگے بڑھنے سے پہلے انتہائی اہم نکتہ بیان کردوں: عربی گنتی میں ابجد ہَوّز وغیرہ کے قاعدے میں ایک سے دس، پھر بیس تیس سے ہوتے ہوتے سَو اور پھر دوسَو تین سَو سے لے کر ہزار تک اعداد طے کیے گئے ہیں جن کا علم ہمارے ہر اُردو داں کو ہونا چاہیے۔ خاکسار کے پاس نظرِ ثانی کے لیے اشتہارات آتے ہیں تو یہ خرابی بہت عام نظر آتی ہے کہ انگریزی اشتہار کے ترجمے یا اُس کے مقابل اُردومیں اشتہار کا متن لکھنے والے انگریزی کے اعداد ہی لکھ دیتے ہیں جیسے 1,2,3,4/a, b, c, یا رومن گنتی I,II, III۔ یا اُنھیں ابجد ہَوّز کا علم نہیں ہوتا، اس لیے یو ں لکھتے ہیں: الف، ب، پ، ش، گ وغیرہ۔(صحیح یوں ہے: اب ج دہ و ز ح ط ی ک ل م ن س ع ف ص ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ غ)۔
یہ پڑھیں : زباں فہمی نمبر205؛ ' نُوراللغات کی سیر' (حصہ اوّل)
جب اصلاح کی جائے تو بعض ایسے سرپھِروں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو اَپنے سابق متن کے برقراررَکھنے ہی پر اِصرارکرتے ہیں۔یہ صورت حال انگریزی میں بھی ہے۔ایک بہت معتبر ومستحکم اِدارے کا ایک اشتہار (اکثر بہت طویل) سالانہ اجلاس ِ عام [Annual General Meeting]کے انعقادکی اطلاع اور اِس سے متعلق اُمور کے پرچارکے لیے سال میں دویا تین بار شایع ہونے کے لیے ہمارے پاس آتا ہے۔اُس میں Year endingکی بجائے Year endedلکھا جاتاہے، جبکہ اِ س کی تصحیح پر بہت لے دے بھی ہوچکی ہے۔'صاحب' نے کوئی پچاس سال پرانی فائل سے نقل کیا تھا تو اَب وہی رہے گاتاقیامت۔اُنھیں اس اشتہارکی خاطر اپنی انگریزی دانی کی "مرمّت" کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔خیر جانے دیجے، بندہ اگر پاکستانی انگریزوں کی انگریز ی دانی پر لکھنے لگا تو زباں فہمی بزبانِ انگریزی یا بزبانِ 'برگرز' ہوجائے گی۔
آئیے اب دوبارہ زیرِ مطالعہ لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔عربی میں الف کے استعمالات کے ضمن میں آخری اور نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ: "بعض عربی اَسماء میں کبھی بشکل ِ واؤ اور کبھی بشکل 'یا' (حرف 'ی': س ا ص) لکھا جاتاہے، مگر اَلِف پڑھاجاتا ہے، جیسے مصطفی، زکوٰۃ اور بعض جگہ فتحے (زبر: س ا ص) کے اشباع سے پڑھاجاتا ہے اورنصف الف بطور ِ اشارہ کتابت میں آتا ہے جیسے اللہ، اسمٰعیل، رحمٰن، لہٰذا"۔(اشباع سے مرادہے کہ کسی حرف کی حرکت کو اتنا لمبا کر کے پڑھاجائے کہ زبر سے الف، زیر سے'ی' اور پیش سے 'واؤ' کی آواز پیدا ہو جائے: س ا ص)۔خاکسار کا خیال ہے کہ اگر یہ نکتہ ہمارے جدت طراز بقراطوں کو صحیح سے سمجھ میں آجائے تو وہ ایسے تمام الفاظ کی ہئیت تبدیل کرکے اذہان کو گمراہ کرنے کی سعی ِ نامشکور نہ فرمائیں۔
نُوراللغات میں الف کے فارسی میں استعمالات یوں بیان کیے گئے ہیں:
"(ا)۔ انحصار اور استیعاب کے لیے آتا ہے جیسے سراپا، لبالب، سراسر (یہ لفظ 'اختصار' ہوگا جسے کاتب کے سہو نے 'انحصار' بنادیا: س ا ص)
(یعنی مختصر وجامع کرنے کے لیے۔سراپا بجائے سرتاپایعنی سرسے پیر تک، لبالب بھی ہوسکتا ہے کہ لب تا لب ہو، سراسر بجائے سر تا سرہوسکتا ہے، ویسے کہیں کہیں کسی کی تحریریاکلام میں 'سرتاسر' کی ترکیب بھی دیکھی تھی: س اص)
(ب)۔ نِدا کے لیے آتا ہے جیسے ناصحا، ساقیا، خداوندا۔بعض فُصَحاء نے دِلا کو تَرک کردیاہے اور بَجُز خاص خاص الفاظ کے، عموماً اِس کا استعمال ناجائز سمجھتے ہیں جیسے نِگارا، صَنَما نہیں کہتے ;'مسیحا' میں بعض الفِ نِدا کہتے ہیں اور بعض الفِ لقب اور اِ س پر حرفِ نِدا لگانا صحیح سمجھتے ہیں:
؎ اے مسیحا! تِرا بیمار ہوں میں +قابلِ شربتِ دیدار ہوں مَیں"
بیانِ سہیل: مولوی نیرؔ صاحب نے تو ایک شعر مثال کے طور پرپیش کردیا، اب جو ہم نے تلاش کیا تو جدید دورکے شاعر جناب کوثر ؔ نیازی کا یہ شعر بھی نظرآگیا جس میں 'مسیحا' کے ساتھ 'اے' یعنی حرفِ نِدا کا استعمال اُسے ماضی کے مستند شعراء کے کلام سے جُدا کررہاہے:
اے مسیحا کبھی تُو بھی تو اسے دیکھنے آ
تیرے بیمار کو سُنتے ہیں کہ آرام نہیں
شعرکی ساخت وکیفیت پرکوئی تبصرہ کیے بغیر خاکسار عرض کرناچاہتاہے کہ اگر موصوف فقط شاعر وعالِم ہی بن کر عزت وشہرت کماتے تو بہترتھا۔
ہمارے یہاں اردو زبان وادب کی تعلیم ناقص ہونے کے سبب، بہت سے سنگین لطائف جنم لیتے رہتے ہیں۔ حرفِ نِداکی وضاحت بھی ایسے ناواقفین کے لیے ضروری ہے جو عدم واقفیت کے سبب شعرمیں حرفِ نِدا کا استعمال صحیح نہیں کرسکتے۔ناصحایعنی اے ناصح، ساقیا یعنی اے ساقی، خُداوَندا یعنی اے خُداوَند۔
ساقیاکے استعمال کی مشہور ترین مثال اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں:
؎ ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ +جب تلک بس چل سکے، ساغر چلے
(خواجہ میر دردؔ)
خُداوَنداکا استعمال اس مشہور شعر میں دیکھیے:
؎ خُداوَندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں +کہ دَرویشی بھی عےّاری ہے، سلطانی بھی عےّاری
(علامہ اقبال)
مؤلف موصوف کے دورمیں توشاید ایسا نہ ہوتا ہو، مگر اِن دنوں یہ غلطی عام ہے کہ عام آدمی کیا شاعر کیا، ' خُدایا' (یعنی اے خُدا)کے ساتھ بھی 'اَے' کا اضافی استعمال کرجاتے ہیں۔لڑکپن میں ایک صاحب سے ایک حمد سیکھی جس کے اشعار گزشتہ کچھ سال میں بہت مقبول ہوئے; چاندتاروں میں تُو، مَرغزاروں میں تُو اَے خُدایا، کس نے تیری حقیقت کو پایا۔یہاں بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی کہ محض 'خُدایا' پر اِکتفا نہ کیا اور 'اَے' بھی بڑھادیا۔عام گفتگومیں بھی لوگ کہہ جاتے ہیں کہ "اَے خدایا! کیا کروں؟"۔یا۔"یا خُدایا! مجھ پر رَحم کر!"۔
علاو ہ اَزیں خاکسار کو کچھ اور مثالیں بھی یاد آرہی ہیں جن میں 'الف' بطور حرفِ نِدا استعمال ہوا ہے،جیسے اس مشہور شعرمیں:
؎ نسیما! جانبِ بطحا گُزرکُن+زِاِحوالَم محمد (ﷺ) را خبر کُن (مولانا جامیؔ)
یعنی اے بادِ نسیم! جب تیرا گزرا بطحا یعنی مکّہ مکرّمہ کی طرف ہو تو میرا حال حضور نبی کریم (ﷺ) سے کہہ دینا (س اص)۔بظاہر یہی خیال کسی شاعر نے اردومیں یوں نظم کیا ہے:
بادِ صبا! تیرا گزر، گرہوکبھی سُوئے حرم+پہنچا سلامِ شوق تُو، پیش ِ نبی محترم (ﷺ)
تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں یہ شعر اور مابعد کلام، اصل میں مشہور عربی نعت کی ترجمانی ہے جو حضرت علی (رحمۃ اللہ علیہ)بن حسین ابن علی (رضی اللہ عنہما: صحابی ابن صحابی کے لیے یہ کلمہ بولاجاتاہے: س ا ص) المعروف امام زین العابدین سے منسوب ہے:
اِنْ نَلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰی اَرْضِ الحَرم
بَلِّغْ سَلاَمِیْ رَوْضَۃً فِیْہَا النَّبِیُّ المُحْتَرَم
اے بادِ صبا، اگر تیرا گزر سرزمینِ حرم تک ہو
تو میرا سلام اس روضے کو پہنچانا جس میں نبیِ محترم(ﷺ) تشریف فرما ہیں
یہاں ایک ضمنی مگر نہایت اہم نکتہ یہ بھی دریافت ہوا کہ مقطع میں "زین العابدینؔ" بطور تخلص استعمال ہوا ہے جو تابعی موصوف ہرگز اپنے لیے استعمال نہیں فرماتے تھے۔(تخلص کا استعمال یوں بھی اُس دورمیں عام نہ تھا)۔یہ تو اُن کی وفات کے صدیوں بعد اُنھیں کہاجانے لگا۔گویا شاعر کوئی اور ہے جس نے عقیدت میں نعت کہہ کر اُن سے منسوب کردی۔اس طرح کی مثالیں کئی ایک ہیں۔
صاحبِ لغت نے فرمایا کہ "بعض فُصَحاء نے دِلا کو تَرک کردیاہے" یعنی اب اے دل کی جگہ دِلا کہنے کا رِواج نہیں رہا۔محض اتفاق ہے کہ گانے کے بول ذہن میں آرہے ہیں جن میں 'دِلا' موجودہے، مگر یہ پنجابی میں ہے:
؎ دِلا! ٹھہر جا یار دَا نظارہ لین دے+کوئی پیار والی سجنا ں نُوں گل کہن دے
(نغمہ نگار: وارثؔ لدھیانوی، منظر کے کردار صبیحہ خانم اور سنتوش، آواز: زبیدہ خانم، فلم 'مُکھڑا'، مُوسِیقار رشیدعَطرے۔سن: 1958)
مولوی نیرؔ صاحب نے یہ بہت عمدہ نکتہ بیان فرمایا کہ ";'مسیحا' میں بعض الفِ نِدا کہتے ہیں اور بعض الفِ لقب اور اِ س پر حرفِ نِدا لگانا صحیح سمجھتے ہیں"۔یہ وہ بات ہے جس کا علم اردو شاعر کو ہونا لازم ہے۔اس طرح کی معلومات آج کل کے بزرگ کم کم ہی فراہم کرسکتے ہیں۔
(ج)۔زیرِ نظر لغات میں "الف کااستعمال،فارسی میں" کے باب میں آگے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ حرف الف، افراط یعنی کسی چیز کے معانی بڑھانے، ان میں وسعت پیداکرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے خوش میں الف بڑھا کر خوشا اور بس سے بَسا۔(د)۔"کبھی فتحے کے اشباع سے پیداہوتاہے اور معنیٰ میں اس کو کچھ دَخل نہیں ہوتا(یعنی زبر سے آواز اس قدر بڑھائی جائے کہ الف بن جائے: س اص)، جیسے پیرہن سے پیراہن، ستم گر سے ستم گار، دامن سے دامان"۔ (ہ)۔"الف(بطور) لقب(بھی استعمال ہوتا ہے)، جیسے جلال سے جلالا ع انجام ہوبخیر قیامت کا آتشا..ؔ... اب اردومیں متروک ہے"۔(یعنی آتشؔ کا مصرع ہے جسے میں حسبِ ضرورت،الف کا اضافہ کیا گیا: س اص)۔ (و)۔"کبھی کلِمے کی ابتداء میں زائد آتا ہے،جیسے شُتر سے اُشتر، گر سے اَگر;اردومیں اگرہی فصیح ہے"۔(یہاں وضاحت ضروری ہے کہ ایک عربی اسم معرفہ "اَشتَر" بھی ہے جو اِس سے الگ ہے: س اص)۔(ز)"حسرت وافسوس کی جگہ آتا ہے،جیسے دَردا، دَریغا، وَا حسرتا، واویلا ;وہ الف جو فارسی میں مَن (یعنی مَیں: س ا ص) کے معنیٰ دیتا ہے، جیسے ملاذا۔اردو میں اس کے معنیٰ 'من' کے نہیں لیے جاتے،بلکہ الفِ نِدا سمجھاجاتا ہے"۔(ح)جب صیغہ اَمر کے آخر میں آتا ہے تو اُس کو فاعل بنادیتا ہے جیسے دان سے دانا، توان (تواں: س ا ص) سے توانا، بِین سے بِینا"۔(ط)"کبھی صیغہ اَمر میں آتا ہے تو اُس کو مفعول بنادیتا ہے جیسے گوارا، پزیرا"۔(ی)الفِ لیاقت جیسے خوانا (خواں سے: س ا ص)"۔(ک)"دوکلموں کے بیچ میں آکر اِتِصال کے معنیٰ دیتاہے جیسے شباشب، گوناگوں"۔
یہاں تک پہنچ کر قاری سانس لیتا ہے تو اَگلی منزل مزید دل کش معلوم ہوتی ہے۔مولوی نورالحسن نیرؔ نے حرف الف کے اردومیں استعمالات کا باب بھی بہت چابک دستی سے باندھا ہے۔یہ عام ادبی قاری سے زیادہ کسی شاعر کے لیے پڑھنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فطری بہاؤ میں کوئی ایسی غلطی نہ کرجائے جس سے شعر کا لغوی ڈھانچہ متأثر ہو۔
(ا)۔"ک ثرت، مُبالغہ ظاہرکرنے کے لیے، جیسے بھاگابھاگ (اب بھاگم بھا گ مستعمل ہے: س ا ص)، مارامار(ماراماری مستعمل ہے: س ا ص)، دھما دھم (دھنا دھن بھی ہے: س اص)۔(ب)۔ہندی الفاظ کے صیغہ اَمر کے آخر میں مفعول کے معنیٰ پیدا کرتا ہے جیسے دیکھا، سُنا،لکھا;بعض کہتے ہیں کہ الف نے اَمر کو ماضی کردیا ہے اور وہی ماضی بمعنی مفعول مستعمل ہوا ہے"۔(ج)۔"صیغہ اَمر کے آخر میں لانے سے ماضی کے معنیٰ پیدا کرتا ہے،جیسے اُٹھ سے اُٹھا، دیکھ سے دیکھا"۔(د)۔"کبھی حاصلِ مصدر کے معنیٰ پیدا کرتا ہے جھگڑ سے جھگڑا، رگڑ سے رگڑا"۔(ہ)۔"کبھی کلمے کے اوّل (شروع: س اص) میں لانے سے نفی کے معنیٰ پیداکرتا ہے اور یہ الف ہمیشہ مفتوح (یعنی زبر کے ساتھ) ہوتا ہے جیسے اَلَگ، اَٹَل"۔(و)۔"کبھی تصغیر (یعنی کسی لفظ کو چھوٹا کرنا یا گھٹانا: س اص)کے واسطے اسم کے آخر میں آتا ہے اور یہ تصغیر کبھی مفید تحقیر (یعنی تحقیر کی غرض سے: س اص)اور کبھی پیار کے طورپرآتی ہے، جیسے کَلوَا (کَلُّو سے)، بِٹیا (بیٹی سے)"۔(ز)"کبھی تعےّن مراتب ِ اعداد کے لیے آتا ہے جیسے پہلا، دوسرا"۔(ح)۔بعض اسماء کے آخر میں بڑے پن کے معنیٰ دیتا ہے،جیسے ٹوپا (ٹوپی سے: س ا ص)، ٹہنا (ٹہنی سے: س ا ص)"۔(ط)۔"کبھی دوکلموں کے بیچ میں نسبت کے واسطے آتا ہے،جیسے موسلا دھار، بھیڑیا چال (ہمارے یہاں تو بھیڑ چال مستعمل ہے: س اص) اور کبھی آخر میں یہ فائدہ دیتا ہے،جیسے اِکہرا، دُہرا"۔(ی)۔بعض اسماء میں الف،نسبت کے قبل بھی لاتے ہیں،اگرچہ اصل اسم میں نہیں ہوتی،جیسے دودھیا، مونگیا"۔(ک)۔ہندی مادّوں کے آخر میں آکر صفت مشبہ کے معنیٰ پیدا کرتا ہے جیسے میلا، بھوکا،راجا"۔(ل)۔فعل ِلازم میں مختلف مقامات پر آکر اُس کو متعدّی کردیتا ہے جیسے اَٹَکنا سے اَٹکانا، برسنا سے برسانا اور جن مصادرمیں دوسرا حرف، حرفِ علّت ہوتا ہے، حذف ہوجاتا ہے،جیسے بھاگنا سے بھگانا، کودنا سے کُدانا، ٹلنا سے ٹالنا، بگڑنا سے بگاڑنا"۔اس کے بعد صاحبِ لغات نے 'آ' کا باب باندھا ہے جسے جدید دورمیں الگ حرف شمارکیاجانے لگا ہے،حالانکہ وہ الف پرایک اضافے کے ساتھ بنتا ہے،بذاتہ کوئی چیز نہیں!
(جاری)