بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی استحکام
بلاشبہ ملکی زر مبادلہ میں اضافے اور مستحکم معیشت کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے جی ڈی پی میں اضافے کے لیے مقامی پیداوار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے برآمدات کو بڑھانے کے لیے مضبوط عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔
وزیر اعظم سے سعودی عرب کے معروف کاروباری گروپ اور دی سینٹورس کے چیئرمین نے ملاقات کی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہمیں ٹیکس نظام کے ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت ہے، معاشی استحکام کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔
بلاشبہ ملکی زر مبادلہ میں اضافے اور مستحکم معیشت کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے، ہمیں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ایکسپورٹ کی شرح کو ہر حال میں بڑھانا ہوگا، جس کے لیے نجی شعبے کو نئے سے نئے مواقعے تلاش کرنے چاہئیں۔ بالخصوص پاک سعودی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ میں اضافے کے حوالے سے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس امر کے لیے ہمارے اداروں کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کیا جاسکے اور سرمایہ کاری کے ذریعے بے روزگاری میں بھی کمی ہو۔
اس وقت زراعت، ٹیکسٹائل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فارماسوٹیکل، موبائلز، کھیلوں کے سامان، منرل و معدنیات اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری جانب اگر مقامی صنعت برآمد کرنے کے قابل ہوگئی ہے تو اُسے وہ مراعات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ اپنی پیداوار کو برآمد کرسکے۔ ان طریقہ کار کے ذریعے مقامی صنعت کی پیداواری صلاحیت اجاگر ہوگی۔ سرمایہ کاری بڑھے گی پیداوار اور برآمد کے ذریعے روزگار کے مواقعے نکلیں گے اور حکومت کو محصولات ملیں گے جس کی ان کو اشد ضرورت ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لیے سیاسی استحکام اور معاشرتی و معاشی مضبوطی ضروری ہے۔ سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے قوانین کی موجودگی اور مقامی منڈی میں مقابلے کی صحیح فضا سرمایہ کاری کے لیے کشش پیدا کرتی ہے۔ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے اور کوئی وجہ نہیں ہوتی، اگر معیشت مکمل آزاد ہو، بیرونی سرمایہ کار اس منڈی کو پسند کرے گا جہاں مستحکم حکومت ہو، ملک میں امن ہو، قانون کی حکومت ہو اور معاشرتی و معاشی ہم آہنگی ہو۔
جتنی اہم مستحکم حکومت اور معاشی و معاشرتی ہم آہنگی ہونا چاہیے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ معیشت کو افزائش کی طرف لے جایا جائے جو اس طرح ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی اور قدر افرودہ (value added) صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوں۔ مزید ہمیں ورلڈ بینک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے تصورات کو مقامی حالات کے مطابق اور معیشت کی افزودگی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنانا ہے، ہمیں بین الاقوامی سوچ وفکر کو مقامی عزم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔
ملائیشیا جیسے ملک کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ اس وقت تک جب ملک میں ذرایع اور زرمبادلہ کے مناسب ذخائر ہوں صنعتی پالیسی ایسی وضع کی جاسکتی ہے جو بیک وقت ان صنعتوں کو تحفظ اور فروغ دے جو برآمد کرتی ہیں، جو درآمد کے متبادل ہوں اور کلیدی صنعتیں ہوں۔ گاڑیوں کی صنعت کو مثال کے طور پر پروان چڑھایا جاسکتا ہے اور وہ بین الاقوامی مسابقتی معیار پر آسکتی ہے۔ ہندوستان میں گاڑیوں کی صنعت، مثال کے طور پر ٹیکس اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
اس انڈسٹری نے یہ مقام پرزوں کی تیاری اور قدر افزودگی (value addition) پر کوشش مرکوز کر کے حاصل کی۔ محض پرزوں کو جوڑ کر گاڑیاں تیار کر کے نہیں۔ ملکی وسائل نے جس میں بہترین افرادی قوت اور فعال کاروباری طبقہ شامل ہے 4 فیصد جملہ قومی پیداوار میں افزودگی کو اس وقت ممکن بنایا جب کہ معاشرتی اور معاشی مشکلات حائل تھیں۔ قومی پیداوار میں افزودگی اس وقت ممکن ہوئی جب کہ مختلف وجوہ کے باعث غیر یقینی صورت حال تھی، لیکن حکومت کی حکمت عملی واضح تھی اگرچہ یہ نامکمل اور غیر متوازن تھی۔ بہتر رہنمائی، تجربہ، مہارت اور دور اندیشی کے ساتھ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ یہ قومی مسائل حل کر لیے جائیں گے۔
دوسری جانب یہ اطلاعات خوش آیند ہیں کہ اگلے پانچ سال میں پاکستان نے سات دوست ممالک کے ساتھ تین سیکٹر میں 249 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا پلان تیار کر لیا ہے، ایس آئی ایف سی نے اپنی دس ماہ کی پیش رفت رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کردی۔ پاکستان زراعت میں بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات بڑھانے کے لیے 102 ارب ڈالرزکی اگلے5 سال میں سرمایہ کاری کرے گا، سعودی عرب، فرانس، بحرین، یو اے ای اور چین کے ساتھ تین لاکھ ایکڑ زمین پہ ایم او یو پر دستخط ہوچکے ہیں۔
زراعت میں اگلے 5 سالوں کے دوران پاکستان بیرونی سرمایہ کاری سے 20 سے 30 ارب ڈالرزکا منافع کما سکتا ہے اور 42 ارب ڈالرز کا ممکنہ منافع برآمدات کے متبادل میں ہوسکتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں تین لاکھ نئی نوکریوں پیدا ہونگی۔ معدنیات میں پاکستان اگلے پانچ سال میں بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات بڑھانے سے 51 ارب ڈالرز کے ریونیو کی توقع کر رہا ہے، معدنیات میں پاکستان اپنے دو دوست ممالک سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے25 ارب ڈالرز کی ڈیل کرنے جارہا ہے، معدنیات میں 14 ارب ڈالرز کا منافع برآمدات کے متبادل میں ہوسکتا ہے۔
معدنیات میں برآمدات بڑھانے سے 16 ارب ڈالرز کا منافع ہوسکتا ہے، جب کہ معدنیات کے شعبے میں 2 لاکھ نوکریاں ملیں گی۔ اس کے علاوہ پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات کے متبادل بڑھانے سے 51 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی توقع کررہا ہے، آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے 20 ارب ڈالرز کا منافع کما سکتا ہے۔
آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اِدارے دیے گئے قرض کی وصولی کے حوالے سے نہ صرف مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں کبھی توانائی کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی ہدایات دیتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے آئی ایم ایف اور ایف بی آر میں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمران مالیاتی اِداروں کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ضروریات اور مجبوریاں بھی بتائیں اور ٹیکس نیٹ بڑھاتے ہوئے عام آدمی کی مشکلات پیشِ نظر رکھیں۔
توانائی کی قیمتیں تو پہلے ہی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں اگر آئی ایم ایف کی ہدایات پر مزید اضافہ کیا جاتا ہے تو پیداواری لاگت بڑھنے سے پاکستانی مال مہنگا ہو جائے گا اور عالمی منڈی میں مقابلے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایات پر چلتے رہے تو پاکستان بیرونی مال کی منڈی بن سکتا ہے جب تک اربابِ اختیار فرائض کی ادائیگی سے زیادہ عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایات پر من و عن عمل کرتے رہیں گے ملکی برآمدی مفاد کا تحفظ نہیں کیا جاتا تب تک قرضوں کے بوجھ میں کمی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان میں بچت کی شرح خطے میں سب سے کم ہے ہر برس مفت تیل، مفت بجلی و رہائش وغیرہ کی مد میں اشرافیہ کی نذر سترہ ارب ڈالر کردیے جاتے ہیں پاکستان میں کچھ بڑے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات کی تنخواہیں انتہائی امیر اور ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہیں جن میں مناسب حد تک کمی سے کثیر رقم بچائی جاسکتی ہے۔ ملک کی پتلی معاشی حالت کے پیشِ نظر منظورِ نظر شخصیات کو غیر ملکی رقم میں تنخواہ و پنشن کی ادائیگی کا بھی کوئی جواز نہیں مزید یہ کہ جو ملازمت کا عرصہ پوراکرتا ہے تو اُسے صرف اُس وقت تک ہی پنشن دی جائے جب تک ملک میں رہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک رہائش پذیر ہوجائے اُس کی پنشن ختم کرنے سے بڑی بچت ہو سکتی ہے ۔
پاکستانی ٹیکس جمع کرا کر ملک کو مضبوط کریں اور اپنے کاروبار کو بھی ترقی دیں، ٹیکس چوری کر کے کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا، علاقائی تجارت برآمدات میں اضافے کے لیے بہت ضروری ہے، اس کے لیے علاقائی تجارت کو بڑھانا ہوگا، ملکی سرمایہ کاروں کے لیے شرح سود کو کم کرنا ہوگا کیونکہ سرمایہ لگانے کے لیے فنانس اور فنڈنگ بہت مہنگی ہے، 22 فیصد پر کون انڈسٹری لگانے کا چیلنج قبول کرے گا، ملکی معیشت کی بہتری کے لیے برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا، حکومت کو اپنے خرچے کم کرنا ہوں گے، آمدن کو بڑھانا ہوگا، علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔
ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر کے تجارت بہتر کی جاسکتی ہے، افغانستان بہت اہم ہے کیونکہ یہاں سے وسط ایشیا تک رسائی ہے، ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرسکتے ہیں، ایران کو چاول، گندم، فوڈ، میڈیکل او سرجیکل آلات برآمد کرسکتے ہیں، چین اور بھارت نے سرحدی تنازعات ہونے کے باوجود تجارتی تعلقات ختم نہیں کیے، بھارت کے ساتھ ہماری تجارت چلتی رہنی چاہیے، بھارت سے تجارت سے جو فائدہ ہوسکتا ہے، اس سے ہم محروم ہیں، ایف بی آر برآمدکنندگان کے ٹیکس ریفنڈز بروقت ادائیگی کویقینی بنائے، ریفنڈز ادا ہونگے تو برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
وزیر اعظم سے سعودی عرب کے معروف کاروباری گروپ اور دی سینٹورس کے چیئرمین نے ملاقات کی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہمیں ٹیکس نظام کے ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت ہے، معاشی استحکام کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔
بلاشبہ ملکی زر مبادلہ میں اضافے اور مستحکم معیشت کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے، ہمیں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ایکسپورٹ کی شرح کو ہر حال میں بڑھانا ہوگا، جس کے لیے نجی شعبے کو نئے سے نئے مواقعے تلاش کرنے چاہئیں۔ بالخصوص پاک سعودی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ میں اضافے کے حوالے سے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس امر کے لیے ہمارے اداروں کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کیا جاسکے اور سرمایہ کاری کے ذریعے بے روزگاری میں بھی کمی ہو۔
اس وقت زراعت، ٹیکسٹائل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فارماسوٹیکل، موبائلز، کھیلوں کے سامان، منرل و معدنیات اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری جانب اگر مقامی صنعت برآمد کرنے کے قابل ہوگئی ہے تو اُسے وہ مراعات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ اپنی پیداوار کو برآمد کرسکے۔ ان طریقہ کار کے ذریعے مقامی صنعت کی پیداواری صلاحیت اجاگر ہوگی۔ سرمایہ کاری بڑھے گی پیداوار اور برآمد کے ذریعے روزگار کے مواقعے نکلیں گے اور حکومت کو محصولات ملیں گے جس کی ان کو اشد ضرورت ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لیے سیاسی استحکام اور معاشرتی و معاشی مضبوطی ضروری ہے۔ سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے قوانین کی موجودگی اور مقامی منڈی میں مقابلے کی صحیح فضا سرمایہ کاری کے لیے کشش پیدا کرتی ہے۔ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے اور کوئی وجہ نہیں ہوتی، اگر معیشت مکمل آزاد ہو، بیرونی سرمایہ کار اس منڈی کو پسند کرے گا جہاں مستحکم حکومت ہو، ملک میں امن ہو، قانون کی حکومت ہو اور معاشرتی و معاشی ہم آہنگی ہو۔
جتنی اہم مستحکم حکومت اور معاشی و معاشرتی ہم آہنگی ہونا چاہیے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ معیشت کو افزائش کی طرف لے جایا جائے جو اس طرح ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی اور قدر افرودہ (value added) صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوں۔ مزید ہمیں ورلڈ بینک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے تصورات کو مقامی حالات کے مطابق اور معیشت کی افزودگی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنانا ہے، ہمیں بین الاقوامی سوچ وفکر کو مقامی عزم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔
ملائیشیا جیسے ملک کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ اس وقت تک جب ملک میں ذرایع اور زرمبادلہ کے مناسب ذخائر ہوں صنعتی پالیسی ایسی وضع کی جاسکتی ہے جو بیک وقت ان صنعتوں کو تحفظ اور فروغ دے جو برآمد کرتی ہیں، جو درآمد کے متبادل ہوں اور کلیدی صنعتیں ہوں۔ گاڑیوں کی صنعت کو مثال کے طور پر پروان چڑھایا جاسکتا ہے اور وہ بین الاقوامی مسابقتی معیار پر آسکتی ہے۔ ہندوستان میں گاڑیوں کی صنعت، مثال کے طور پر ٹیکس اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
اس انڈسٹری نے یہ مقام پرزوں کی تیاری اور قدر افزودگی (value addition) پر کوشش مرکوز کر کے حاصل کی۔ محض پرزوں کو جوڑ کر گاڑیاں تیار کر کے نہیں۔ ملکی وسائل نے جس میں بہترین افرادی قوت اور فعال کاروباری طبقہ شامل ہے 4 فیصد جملہ قومی پیداوار میں افزودگی کو اس وقت ممکن بنایا جب کہ معاشرتی اور معاشی مشکلات حائل تھیں۔ قومی پیداوار میں افزودگی اس وقت ممکن ہوئی جب کہ مختلف وجوہ کے باعث غیر یقینی صورت حال تھی، لیکن حکومت کی حکمت عملی واضح تھی اگرچہ یہ نامکمل اور غیر متوازن تھی۔ بہتر رہنمائی، تجربہ، مہارت اور دور اندیشی کے ساتھ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ یہ قومی مسائل حل کر لیے جائیں گے۔
دوسری جانب یہ اطلاعات خوش آیند ہیں کہ اگلے پانچ سال میں پاکستان نے سات دوست ممالک کے ساتھ تین سیکٹر میں 249 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا پلان تیار کر لیا ہے، ایس آئی ایف سی نے اپنی دس ماہ کی پیش رفت رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کردی۔ پاکستان زراعت میں بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات بڑھانے کے لیے 102 ارب ڈالرزکی اگلے5 سال میں سرمایہ کاری کرے گا، سعودی عرب، فرانس، بحرین، یو اے ای اور چین کے ساتھ تین لاکھ ایکڑ زمین پہ ایم او یو پر دستخط ہوچکے ہیں۔
زراعت میں اگلے 5 سالوں کے دوران پاکستان بیرونی سرمایہ کاری سے 20 سے 30 ارب ڈالرزکا منافع کما سکتا ہے اور 42 ارب ڈالرز کا ممکنہ منافع برآمدات کے متبادل میں ہوسکتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں تین لاکھ نئی نوکریوں پیدا ہونگی۔ معدنیات میں پاکستان اگلے پانچ سال میں بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات بڑھانے سے 51 ارب ڈالرز کے ریونیو کی توقع کر رہا ہے، معدنیات میں پاکستان اپنے دو دوست ممالک سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے25 ارب ڈالرز کی ڈیل کرنے جارہا ہے، معدنیات میں 14 ارب ڈالرز کا منافع برآمدات کے متبادل میں ہوسکتا ہے۔
معدنیات میں برآمدات بڑھانے سے 16 ارب ڈالرز کا منافع ہوسکتا ہے، جب کہ معدنیات کے شعبے میں 2 لاکھ نوکریاں ملیں گی۔ اس کے علاوہ پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات کے متبادل بڑھانے سے 51 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی توقع کررہا ہے، آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے 20 ارب ڈالرز کا منافع کما سکتا ہے۔
آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اِدارے دیے گئے قرض کی وصولی کے حوالے سے نہ صرف مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں کبھی توانائی کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی ہدایات دیتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے آئی ایم ایف اور ایف بی آر میں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمران مالیاتی اِداروں کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ضروریات اور مجبوریاں بھی بتائیں اور ٹیکس نیٹ بڑھاتے ہوئے عام آدمی کی مشکلات پیشِ نظر رکھیں۔
توانائی کی قیمتیں تو پہلے ہی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں اگر آئی ایم ایف کی ہدایات پر مزید اضافہ کیا جاتا ہے تو پیداواری لاگت بڑھنے سے پاکستانی مال مہنگا ہو جائے گا اور عالمی منڈی میں مقابلے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایات پر چلتے رہے تو پاکستان بیرونی مال کی منڈی بن سکتا ہے جب تک اربابِ اختیار فرائض کی ادائیگی سے زیادہ عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایات پر من و عن عمل کرتے رہیں گے ملکی برآمدی مفاد کا تحفظ نہیں کیا جاتا تب تک قرضوں کے بوجھ میں کمی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان میں بچت کی شرح خطے میں سب سے کم ہے ہر برس مفت تیل، مفت بجلی و رہائش وغیرہ کی مد میں اشرافیہ کی نذر سترہ ارب ڈالر کردیے جاتے ہیں پاکستان میں کچھ بڑے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات کی تنخواہیں انتہائی امیر اور ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہیں جن میں مناسب حد تک کمی سے کثیر رقم بچائی جاسکتی ہے۔ ملک کی پتلی معاشی حالت کے پیشِ نظر منظورِ نظر شخصیات کو غیر ملکی رقم میں تنخواہ و پنشن کی ادائیگی کا بھی کوئی جواز نہیں مزید یہ کہ جو ملازمت کا عرصہ پوراکرتا ہے تو اُسے صرف اُس وقت تک ہی پنشن دی جائے جب تک ملک میں رہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک رہائش پذیر ہوجائے اُس کی پنشن ختم کرنے سے بڑی بچت ہو سکتی ہے ۔
پاکستانی ٹیکس جمع کرا کر ملک کو مضبوط کریں اور اپنے کاروبار کو بھی ترقی دیں، ٹیکس چوری کر کے کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا، علاقائی تجارت برآمدات میں اضافے کے لیے بہت ضروری ہے، اس کے لیے علاقائی تجارت کو بڑھانا ہوگا، ملکی سرمایہ کاروں کے لیے شرح سود کو کم کرنا ہوگا کیونکہ سرمایہ لگانے کے لیے فنانس اور فنڈنگ بہت مہنگی ہے، 22 فیصد پر کون انڈسٹری لگانے کا چیلنج قبول کرے گا، ملکی معیشت کی بہتری کے لیے برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا، حکومت کو اپنے خرچے کم کرنا ہوں گے، آمدن کو بڑھانا ہوگا، علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔
ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر کے تجارت بہتر کی جاسکتی ہے، افغانستان بہت اہم ہے کیونکہ یہاں سے وسط ایشیا تک رسائی ہے، ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرسکتے ہیں، ایران کو چاول، گندم، فوڈ، میڈیکل او سرجیکل آلات برآمد کرسکتے ہیں، چین اور بھارت نے سرحدی تنازعات ہونے کے باوجود تجارتی تعلقات ختم نہیں کیے، بھارت کے ساتھ ہماری تجارت چلتی رہنی چاہیے، بھارت سے تجارت سے جو فائدہ ہوسکتا ہے، اس سے ہم محروم ہیں، ایف بی آر برآمدکنندگان کے ٹیکس ریفنڈز بروقت ادائیگی کویقینی بنائے، ریفنڈز ادا ہونگے تو برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔