پاکستان ایک نظر میں امتحان اور بھی ہیں
پاک فوج ' ضرب عضب' کے نام سے شمالی وزیرستان میں ایک اہم اور فیصلہ کن آپریشن شروع کر چکی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے چکے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں تحفظات کے باوجود اس آپریشن کی حمایتی ہیں جو اک خوشگوار آمر ہے ۔
پاکستان میں لگ بھگ ایک دہائی سے مذہب کے نام پر جاری دہشتگردی نے جہاں معیشت ، قومی وقار اور ریاستی ساکھ کو متاثر کیا وہیں سیاحت ، تعلیم ، کھیل ، میڈیا غرض زندگی کے تمام شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ بیرونی سازشیں ، غیرملکی فنڈنگ اور تربیت جہاں ان عسکریت پسندوں کی مضبوط پشت پناہ ہے وہیں ہماری اپنی صفوں میں چھپے مفاد پرست ان کے دست راست بھی بن گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے آگ اور خون کا نہ ختم ہونے والا وہ سلسلہ شروع ہوگیا جس سے آج تک اس ملک کے باسی انجان تھے۔
تمام چھوٹے بڑے شہر ان عسکریت پسندوں کا نشانہ بنتے رہے ۔ کتنے ہی بےگناہ معصوم لوگ ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ایندھن بنے لیکن سلام ہے اس قوم پر جو اتنے جنازے اٹھنے کے باوجود ان عناصر کے نظریات کودھتکارتی آرہی ہے۔ اس تمام تر پروپیگنڈا کے باوجود قوم سیکورٹی اداروں کی اس راہ میں دی جانے والی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔
اب جبکہ فوج ان عسکریت پسندوں پر کاری ضرب لگا رہی ہے تو ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فوج کا کام لڑنا ہے اور وہ کامیابی سے اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔ لیکن اس آپریشن کے دوران اور بعد میں ہماری حکومت پر آئی ڈی پیز کی منتقلی کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری حکومتوں کی تاریخ انتظام سنبھالنے میں کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ جہاں بھی حکومت کو آگے بڑھ کر نظم و نسق چلانا چاہیے بسا اوقات وہیں ریاستی مشینری مکمل مفلوج نظر آتی ہے ۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کے بعد بھی انتظامیہ کی کارکردگی مایوس کن رہی۔
لہذا اس دفعہ نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی حکومتوں کو بھی آگے بڑھ کر آپریشن سے متاثرہ افراد کی مدد کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں خیبر پختو نخوا حکومت نے آپریشن کے نتیجے میں متاثر ہونے والے افراد کے لئے بنوں، لکی مروت، ٹان، کرک اور ہنگو کے اسکولوں میں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ اس دوران متعلقہ اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز، چوکیدار اور دیگر ضروری عملے کو بھی ڈیوٹی پر موجود رہنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب شمالی وزیرستان میں فورسز کی کارروائی کی وجہ سے احمد زئی وزیر اور دوسرے قبائل کے 6642 افراد نے افغانستان کے صوبے خوست میں پناہ لی ہے۔ جبکہ مزید افراد کی نقل مکانی روکنے کے لئے سیکیورٹی فورسز نے میران شاہ غلام روڈ کو بند کردیا ہے۔ تاہم آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہو کر کیمپس میں آنے والے آئی ڈیپیز کو تمام سہولیات باہم پہچانا ریاست کا کام ہے۔ یہ نہ ہو کہ سوات آپریشن کی طرح اس مرتبہ بھی آئی ڈیپیز کو بنیادی ضروریات زندگی بشمول علاج معالجہ میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ بالخصوص خواتین اور بچوں کے حوالے سے صفائی اور اشیائے خورد و نوش کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نو، تعلیمی ادارے اور آئی ڈیپیز کی جلد اور باعزت واپسی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
لیکن ساتھ ہی حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ متاثرہ افراد کے بھیس میں دہشت گرد آبادیوں میں داخل نہ ہوجائیں۔ تاہم اس صورت میں حکومت کو کسی بھی سانحے سے نمٹنے کے تمام تر انتظامات مکمل رکھنے ہونگے۔ کیونکہ اکثر ایسی صورت حال میں ہماری حکومتی ادارے بوکھلا ہٹ کا شکار ہو کر اپنی انتظامی صلاحیتیں کھو بیٹھتے ہیں لہذا مضبوط حکومتی گرفت اور فلفور فیصلہ سازی ہی اس صورت حال میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور آپریشن 'ضرب عضب' کی کامیابی کے لئے دعا گو ہے۔ لیکن ساتھ ہی حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی آبادی کی محفوظ مقامات پر منتقلی کو یقینی بنائے تاکہ آپریشن کے دوران عام آدمی کو متاثر ہونے سے محفوظ بنایا جاسکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔