سندھ اسمبلی میں سانحہ لاہور پر مذمتی قراردادیں منظور
پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی اور ایم کیوایم کے خواجہ اظہار الحسن نے سانحہ لاہور پر مذمتی قراردادیں پیش کیں
سندھ اسمبلی نے سانحہ لاہور پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مذمتی قراردادیں منظور کرلیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی اور ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے سانحہ لاہور پر مذمتی قراردادیں پیش کیں، خواجہ اظہارالحسن نے کہا کہ 25 موبائلوں میں 250 سے زائد اہل کار رکاوٹیں ہٹانے گئے تھے، لاہور میں بے گناہوں کے قتل کے بعد پنجاب حکومت منظرعام پر آئی، وزیراعلیٰ پنجاب کو 8 لاشیں گرنے کے بعد واقعے کا علم ہوا، شہباز شریف بھی پریس کانفرنس کرتےوقت تک ہلاکتوں سےلاعلم تھے۔ اس کے علاوہ سانحہ لاہور کے بعد سعد رفیق نے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اور لاشوں پر سیاست کرنے کی کوشش کی۔
قرارداد پر وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا اگر کوئی میرے خلاف ایف آئی آر کٹوانا چاہتا ہے تو کٹوائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر فوراً درج کرلی جاتی ہے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے بیٹے کی جانب سے ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی، انہوں نے کہا کہ اب پوری قوم سانحہ لاہور پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن سوموٹو نہیں لیا جارہا۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن عرفان اللہ مروت کا کہنا تھا کہ طاہر القادری سے آج لوگوں کو ہمدردی ہے، رحمان ملک کل تک انھیں پوپ کہتے تھے، گولیاں چلانے کا حکم دینے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے، اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتی تحقیقات کی جارہی ہیں جس کی رپورٹ کا انتثظار کرنا چاہئے۔ قائد حزب اختلاف شہریار مہر نے کہا کہ لاہور میں گلو بٹ نے توڑ پھوڑ کی اور کراچی میں کاروباری سرگرمیاں بند کرادی گئیں، لاہور میں ہلاکتوں پر استعفے مانگے جارہے ہیں لیکن لال شہباز قلندر کے عرس کے موقع پر ہونے والے 51 ہلاکتوں پر کوئی استعفیٰ نہیں دے رہا۔ بعد ازاں ایوان نے سانحہ لاہور پر مذمتی قرارداد منظور کرلی لیکن اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے عرفان اللہ مروت نے واک آؤٹ کردیا۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی اور ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے سانحہ لاہور پر مذمتی قراردادیں پیش کیں، خواجہ اظہارالحسن نے کہا کہ 25 موبائلوں میں 250 سے زائد اہل کار رکاوٹیں ہٹانے گئے تھے، لاہور میں بے گناہوں کے قتل کے بعد پنجاب حکومت منظرعام پر آئی، وزیراعلیٰ پنجاب کو 8 لاشیں گرنے کے بعد واقعے کا علم ہوا، شہباز شریف بھی پریس کانفرنس کرتےوقت تک ہلاکتوں سےلاعلم تھے۔ اس کے علاوہ سانحہ لاہور کے بعد سعد رفیق نے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اور لاشوں پر سیاست کرنے کی کوشش کی۔
قرارداد پر وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا اگر کوئی میرے خلاف ایف آئی آر کٹوانا چاہتا ہے تو کٹوائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر فوراً درج کرلی جاتی ہے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے بیٹے کی جانب سے ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی، انہوں نے کہا کہ اب پوری قوم سانحہ لاہور پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن سوموٹو نہیں لیا جارہا۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن عرفان اللہ مروت کا کہنا تھا کہ طاہر القادری سے آج لوگوں کو ہمدردی ہے، رحمان ملک کل تک انھیں پوپ کہتے تھے، گولیاں چلانے کا حکم دینے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے، اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتی تحقیقات کی جارہی ہیں جس کی رپورٹ کا انتثظار کرنا چاہئے۔ قائد حزب اختلاف شہریار مہر نے کہا کہ لاہور میں گلو بٹ نے توڑ پھوڑ کی اور کراچی میں کاروباری سرگرمیاں بند کرادی گئیں، لاہور میں ہلاکتوں پر استعفے مانگے جارہے ہیں لیکن لال شہباز قلندر کے عرس کے موقع پر ہونے والے 51 ہلاکتوں پر کوئی استعفیٰ نہیں دے رہا۔ بعد ازاں ایوان نے سانحہ لاہور پر مذمتی قرارداد منظور کرلی لیکن اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے عرفان اللہ مروت نے واک آؤٹ کردیا۔