حکومت مستعفی ہو فوج انتخابات سے دور رہے مولانا فضل الرحمان
جس ادارے کی تربیت دشمن سے لڑنے کی ہو وہ کبھی بھی آپ کی سیاسی اور معاشی قیادت نہیں کرسکتا ہے، سربراہ جمعیت علمائے اسلام
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت سے مستعفی ہو کر دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات سے فوج دور رہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر قوم نہیں اٹھے گی اور اپنے ووٹ کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی تو پھر ہم مسلسل غلامی کی طرف جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک سرکاری محکمہ ہمارا حاکم ہو، آئین میں پارلیمنٹ جو حکمران کہلاتی ہے وہ ماتحت ادارے کی شکل اختیار کرلے یہ چیز ہمیں کسی قیمت قابل قبول نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے ایک سوال پر کہا کہ حکومت ہے ہی نہیں، دراصل چند لوگوں کو اچھے اچھے مناصب ملے ہیں، اس کو محظوظ کرتے رہیں گے۔
مسلم لیگ(ن) سے مفاہمت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ لفظ مفاہمت اچھا ہے لیکن جب اپنے ہی چھوڑ کر چلے جائیں تو یہی وقت ہے کہ ہم اپنے مؤقف پر ڈٹے رہیں اور قوم ہمارے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آئین پر حلف اٹھایا ہے تو پھر آئین کو بالادست ہونا چاہیے، آئینی اداروں کو بالادست ہونا چاہیے، یہ نہیں ہوسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ ملازم بھی ہو اور حاکم بھی ہوتو بیک وقت دو چیزیں نہیں ہوسکتیں۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو انتخابات کے دوران کسی موقع پر مملکت بنانے کی پیش کش کی گئی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ صدر پاکستان کی آفر نہیں ہوا کرتی، یہ غلط بات ہے کہ میں ایسی سیاست کروں کہ جس میں ہم آفرز کی بنیاد پر چیزیں قبول کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کون ہوتا ہے جو مجھے صدر، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے منصب کی آفر کرتا ہے، عوام اگر مجھے ووٹ دیں گے اور میں اس پوزیشن میں ہوں تو میں صدر بھی بنوں گا، وزیراعظم، وزیراعلیٰ بھی بنوں گا اور وہ میرا آئینی اور قانونی استحقاق ہوگا، اسی اساس پر ہم سیاست میں حصہ لے رہے ہیں، 5 سیٹوں کے ساتھ میں کہوں کہ صدر بن جاؤں تو یہ میری سیاست نہیں ہوسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے ساتھ ہم قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہیں، کسان خاص طور پر پنجاب کا کسان اس وقت بہت مظلوم ہے، آپ کے پاس اگر 45 لاکھ ٹن گندم موجود ہے تو پھر آپ نے 45 لاکھ ٹن گندم کیوں درآمد کیا، اس کی پوچھ گچھ ہونی چاہیے، کسانوں کے ساتھ رونے اور احتجاج کرنے کے بجائے جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے ان کا محاسبہ کیوں نہیں ہوتا۔
'فوج الیکشن سے دور رہے'
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دوبارہ انتخابات ہوں، حکومت مستعفی ہوجائے، فوج الیکشن سے دور رہے، کسی کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، انتخابات کو اتنا بدنام کیا ہے کہ اس کو الیکشن کہنا ناجائز ہے جہاں امیدواروں سے کروڑوں روپے لیے جاتے ہوں، ایک صوبے سے اربوں روپے جہاز بھر بھر کر لے کر جاتے ہوں، اسمبلیاں بک رہی ہیں، امیدوار دربدر ہیں تو یہ انتخابات ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مؤقف واضح ہے اور ہم جو کچھ کہہ چکے ہیں، معاملات کو اسی جگہ پہنچائیں گے کہ مسائل ٹھیک ہوجائیں گے۔
'سری نگر لینے نکلے تھے مظفرآباد ہاتھ سے نکل رہا ہے'
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دکھ ہوتا ہے، نکلے تھے ہم سری نگر لینے لیکن مظفرآباد ہاتھ سے نکلے جا رہا ہے، یہ ہماری سیاست ہے، چین جیسے دوست کے ساتھ اتنا بڑا معاہدہ کیا، اس نے پاکستان کو گرم پانی تک پہنچنے کے لیے ترجیح دی اور پاکستان کو بین الاقوامی تجارت کے لیے شاہراہ قرار دیا اور ہم نے ان کو کیا جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ آج تمام میگا منصوبے بند کردیا ہے، آپ کا افغانستان کے ساتھ بھی جھگڑا ہے، ظاہر ہے ہمارے اوپر یہ زور آور ہیں، ناحق پر ہوتے ہوئے بھی کہنا پڑتا ہے کہ آپ حق پر ہیں، جس کا نتیجہ کیا نکلے گا کہ واخان کے راستے افغانستان کے ساتھ چین براہ راست منسلک ہوگا اور ہلمند کے راستے سے ایران کے ساتھ جا کر چاہ بہار پہنچ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 6 یا 7 ماہ سے لوگ چمن سرحد پر بیٹھے ہوئے ہیں وہاں افغانستان سے ہونے والی مقامی تجارت کا راستہ بند کردیا ہے، انگور اڈہ، جمرود پر لوگوں نے دھرنا دیا ہوا ہے۔
'طالبان کو 20 سال چھتری فراہم کی اور آج ہم سب کچھ ضائع کر رہے ہیں'
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ہم اسی افغانستان کے ساتھ الجھ رہے ہیں اور ہم نے سرحدیں بند کر دی ہیں، اگر مسئلہ دہشت گردی کا ہے تو یہ مسئلہ چین کے ساتھ نہیں ہے، ترکستان تحریک کے لوگ افغانستان میں ہیں اور چین میں کارروائیاں کرتے ہیں اور چین کو شکایت ہے، اس کے باوجود چین اس کی مارکیٹ پر قبضہ کر رہا ہے، روس بھی اس کی مارکیٹ پر قبضہ کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 20 سال اس امید پر غلاف کے نیچے تعاون فراہم کیا، آج ہم سب کچھ ضائع کر رہے ہیں، ہمارے پاس صرف لڑائی کی صلاحیت ہے، ملک کی ترقی کے پہلو ہم نے نظرانداز کردیے ہیں، یہ اس لیے کہ آپ کا بااختیار ادارہ جنگجو ادارہ ہوگا اور جس کی تربیت دشمن سے لڑنے کی ہوگی وہ کبھی بھی آپ کی سیاسی اور معاشی قیادت نہیں کرسکتا ہے، اس کا سرے سے یہ میدان نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان اس وقت گھاٹے کا سفر کر رہا ہے اور گھاٹے کا مستقبل ہے لیکن ہم اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا بجٹ اس وقت عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں میں ہے، انہی لوگوں نے بجٹ بنا رہے ہیں اور ان کو ہماری فوج سپورٹ کر رہی ہے اور وہ ان کو تحفظ دے گی اور اسمبلی بے بس ہوگی۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکا ہر قیمت پر افغانستان کو کمزور کرنے پر دلچسپی رکھتا ہے اور ان کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان سے جیسا مفید کوئی اور نہیں ہے، امارت اسلامیہ اس وقت بھی ان کے نزدیک دہشت گرد تنظیم ہے، پاکستان کی سیاست میں پر امریکا اثرانداز ہوگا تو کیا ہمیں نقصان پہنچانے میں ان کا مفاد ہے یا نہیں۔
'پی ٹی آئی کے لوگ ملاقاتیں کر رہے ہیں'
عمران خان سے مذاکرات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر چیز باوقار انداز میں ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم 10 سے 12 ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں اور بڑے تحفظات ہیں، ان کو اگر دور کیا جاتا ہے تو ہم سیاسی لوگ ہیں مذاکرات سے بھی انکار نہیں کریں گے اور اگر مذاکرات کا ماحول بنتا ہے تو اس کی بھی حوصلہ افزائی کریں گے، ہم کوئی مستقل جھگڑے، جنگ اور تلخیاں ملک اور ہمارے معاشرے کے مفاد میں نہیں سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دو وفود آئے ہیں، اس کے باوجود ان کے لوگ مسلسل مجھ سے مل رہے ہیں اور یہی گفتگو چل رہی ہے کہ ہم کس طرح آپس کے تحفظات دور کرنے کے لیے ماحول بنائیں۔
ملتان میں پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر قوم نہیں اٹھے گی اور اپنے ووٹ کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی تو پھر ہم مسلسل غلامی کی طرف جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک سرکاری محکمہ ہمارا حاکم ہو، آئین میں پارلیمنٹ جو حکمران کہلاتی ہے وہ ماتحت ادارے کی شکل اختیار کرلے یہ چیز ہمیں کسی قیمت قابل قبول نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے ایک سوال پر کہا کہ حکومت ہے ہی نہیں، دراصل چند لوگوں کو اچھے اچھے مناصب ملے ہیں، اس کو محظوظ کرتے رہیں گے۔
مسلم لیگ(ن) سے مفاہمت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ لفظ مفاہمت اچھا ہے لیکن جب اپنے ہی چھوڑ کر چلے جائیں تو یہی وقت ہے کہ ہم اپنے مؤقف پر ڈٹے رہیں اور قوم ہمارے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آئین پر حلف اٹھایا ہے تو پھر آئین کو بالادست ہونا چاہیے، آئینی اداروں کو بالادست ہونا چاہیے، یہ نہیں ہوسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ ملازم بھی ہو اور حاکم بھی ہوتو بیک وقت دو چیزیں نہیں ہوسکتیں۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو انتخابات کے دوران کسی موقع پر مملکت بنانے کی پیش کش کی گئی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ صدر پاکستان کی آفر نہیں ہوا کرتی، یہ غلط بات ہے کہ میں ایسی سیاست کروں کہ جس میں ہم آفرز کی بنیاد پر چیزیں قبول کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کون ہوتا ہے جو مجھے صدر، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے منصب کی آفر کرتا ہے، عوام اگر مجھے ووٹ دیں گے اور میں اس پوزیشن میں ہوں تو میں صدر بھی بنوں گا، وزیراعظم، وزیراعلیٰ بھی بنوں گا اور وہ میرا آئینی اور قانونی استحقاق ہوگا، اسی اساس پر ہم سیاست میں حصہ لے رہے ہیں، 5 سیٹوں کے ساتھ میں کہوں کہ صدر بن جاؤں تو یہ میری سیاست نہیں ہوسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے ساتھ ہم قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہیں، کسان خاص طور پر پنجاب کا کسان اس وقت بہت مظلوم ہے، آپ کے پاس اگر 45 لاکھ ٹن گندم موجود ہے تو پھر آپ نے 45 لاکھ ٹن گندم کیوں درآمد کیا، اس کی پوچھ گچھ ہونی چاہیے، کسانوں کے ساتھ رونے اور احتجاج کرنے کے بجائے جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے ان کا محاسبہ کیوں نہیں ہوتا۔
'فوج الیکشن سے دور رہے'
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دوبارہ انتخابات ہوں، حکومت مستعفی ہوجائے، فوج الیکشن سے دور رہے، کسی کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، انتخابات کو اتنا بدنام کیا ہے کہ اس کو الیکشن کہنا ناجائز ہے جہاں امیدواروں سے کروڑوں روپے لیے جاتے ہوں، ایک صوبے سے اربوں روپے جہاز بھر بھر کر لے کر جاتے ہوں، اسمبلیاں بک رہی ہیں، امیدوار دربدر ہیں تو یہ انتخابات ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مؤقف واضح ہے اور ہم جو کچھ کہہ چکے ہیں، معاملات کو اسی جگہ پہنچائیں گے کہ مسائل ٹھیک ہوجائیں گے۔
'سری نگر لینے نکلے تھے مظفرآباد ہاتھ سے نکل رہا ہے'
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دکھ ہوتا ہے، نکلے تھے ہم سری نگر لینے لیکن مظفرآباد ہاتھ سے نکلے جا رہا ہے، یہ ہماری سیاست ہے، چین جیسے دوست کے ساتھ اتنا بڑا معاہدہ کیا، اس نے پاکستان کو گرم پانی تک پہنچنے کے لیے ترجیح دی اور پاکستان کو بین الاقوامی تجارت کے لیے شاہراہ قرار دیا اور ہم نے ان کو کیا جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ آج تمام میگا منصوبے بند کردیا ہے، آپ کا افغانستان کے ساتھ بھی جھگڑا ہے، ظاہر ہے ہمارے اوپر یہ زور آور ہیں، ناحق پر ہوتے ہوئے بھی کہنا پڑتا ہے کہ آپ حق پر ہیں، جس کا نتیجہ کیا نکلے گا کہ واخان کے راستے افغانستان کے ساتھ چین براہ راست منسلک ہوگا اور ہلمند کے راستے سے ایران کے ساتھ جا کر چاہ بہار پہنچ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 6 یا 7 ماہ سے لوگ چمن سرحد پر بیٹھے ہوئے ہیں وہاں افغانستان سے ہونے والی مقامی تجارت کا راستہ بند کردیا ہے، انگور اڈہ، جمرود پر لوگوں نے دھرنا دیا ہوا ہے۔
'طالبان کو 20 سال چھتری فراہم کی اور آج ہم سب کچھ ضائع کر رہے ہیں'
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ہم اسی افغانستان کے ساتھ الجھ رہے ہیں اور ہم نے سرحدیں بند کر دی ہیں، اگر مسئلہ دہشت گردی کا ہے تو یہ مسئلہ چین کے ساتھ نہیں ہے، ترکستان تحریک کے لوگ افغانستان میں ہیں اور چین میں کارروائیاں کرتے ہیں اور چین کو شکایت ہے، اس کے باوجود چین اس کی مارکیٹ پر قبضہ کر رہا ہے، روس بھی اس کی مارکیٹ پر قبضہ کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 20 سال اس امید پر غلاف کے نیچے تعاون فراہم کیا، آج ہم سب کچھ ضائع کر رہے ہیں، ہمارے پاس صرف لڑائی کی صلاحیت ہے، ملک کی ترقی کے پہلو ہم نے نظرانداز کردیے ہیں، یہ اس لیے کہ آپ کا بااختیار ادارہ جنگجو ادارہ ہوگا اور جس کی تربیت دشمن سے لڑنے کی ہوگی وہ کبھی بھی آپ کی سیاسی اور معاشی قیادت نہیں کرسکتا ہے، اس کا سرے سے یہ میدان نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان اس وقت گھاٹے کا سفر کر رہا ہے اور گھاٹے کا مستقبل ہے لیکن ہم اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا بجٹ اس وقت عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں میں ہے، انہی لوگوں نے بجٹ بنا رہے ہیں اور ان کو ہماری فوج سپورٹ کر رہی ہے اور وہ ان کو تحفظ دے گی اور اسمبلی بے بس ہوگی۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکا ہر قیمت پر افغانستان کو کمزور کرنے پر دلچسپی رکھتا ہے اور ان کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان سے جیسا مفید کوئی اور نہیں ہے، امارت اسلامیہ اس وقت بھی ان کے نزدیک دہشت گرد تنظیم ہے، پاکستان کی سیاست میں پر امریکا اثرانداز ہوگا تو کیا ہمیں نقصان پہنچانے میں ان کا مفاد ہے یا نہیں۔
'پی ٹی آئی کے لوگ ملاقاتیں کر رہے ہیں'
عمران خان سے مذاکرات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر چیز باوقار انداز میں ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم 10 سے 12 ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں اور بڑے تحفظات ہیں، ان کو اگر دور کیا جاتا ہے تو ہم سیاسی لوگ ہیں مذاکرات سے بھی انکار نہیں کریں گے اور اگر مذاکرات کا ماحول بنتا ہے تو اس کی بھی حوصلہ افزائی کریں گے، ہم کوئی مستقل جھگڑے، جنگ اور تلخیاں ملک اور ہمارے معاشرے کے مفاد میں نہیں سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دو وفود آئے ہیں، اس کے باوجود ان کے لوگ مسلسل مجھ سے مل رہے ہیں اور یہی گفتگو چل رہی ہے کہ ہم کس طرح آپس کے تحفظات دور کرنے کے لیے ماحول بنائیں۔