پنگھوڑا جھولا بچے کی سلامتیسکون اور تحفظ کا ضامن
لوری کی آواز اور پنگھوڑے کا ردھم بچے کو ایک انوکھے لطف کا احساس دلاتا ہے
اگر ہم انسانی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ایسے شواہد بھی ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ زمانہ قدیم میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب خاندان کی سربراہ عورت ہوتی تھی جسے ''مدرسری نظام'' کے نام سے سے جانا جاتا ہے چونکہ ابتدائی انسانی معاشرے میں معاشی ترقی زیادہ ترمردکے بجائے عورت کی بدولت تھی اس لیے اس معاشرے میں عورت کو ایک خاص مقام اور مرتبہ حاصل تھا ۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو کسی بھی انسانی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء کا تصور عورت ذات کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ جب ہم ابتدائی تاریخ پڑھتے ہیں تو اس میں ہمیں یہ حقیقت صاف نظر آتی ہے کہ صدیوں تک مرد شکار اور غلہ بانی کے قدیم طریقوں سے چمٹا رہا جب کہ عورت نے اپنے پڑاو کے قرب وجوار میں زراعت اور فنون کے ایسے ایسے نمونوں کو فروغ دیا جو بعد کے زمانے کی اہم ترین صنعتیں بن گئیں ، سُوت کا پودا جیسے اہل یونان اون سے لدا درخت کہتے ہیں قدیم عورتیں اسی سے دھاگہ بناتیں اورسُوت کا کپڑا تیار کرتیں ۔
یہ عورت ہی تھی، جس نے دنیامیں سینا پرونا، کپڑے بنانا، ٹوکری سازی، برتن سازی، لکڑی کاکام اور عمارت کی تعمیر شروع کی ، عورت ہی نے حشرات الارض ، بارش اور چوروں سے غلہ محفوظ رکھنے کے لیے گودام بنائے ، خشک سالی کے دنوں کے لیے خوراک اکھٹی کر لی اور اپنے بچوں کوآرام چین وسکون سے سونے کے لیے ابتداء میں کپڑے کا پنگھوڑا (جھولا) بنایا ۔ اور جس نے انسان کے ساتھ ارتقاء کی کئی منزلیں طے کرتے ہوئے آج ایک مکمل صنعت کی شکل اختیار کر رکھی ہے ۔
پشتو زبان کی زانگو، اردو کا پنگھوڑا اور سرائیکی کا پینگھاں ، ہمیں آج بھی مختلف جدید شکلوں میں نظر آتا ہے ۔ چوںکہ قدیم زمانے میں بچے کو پنگڑا کہا جاتا تھا اس لیے اس پنگڑے یعنی بچے کو سلانے ، اسے بہلانے کے لیے عورت یعنی ماں نے جو جھولا بنایا اسے پنگھوڑا کا نام دیا گیا۔
اس لیے جھولے کا تصور اس لفظ کی پہچان کے ساتھ ہی انسانی ذہن کے نہاں خانوں میں ان دنوں کی یاد دلانے لگتا ہے جب انسان اس دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اردگرد کی ہر چیز کو حسرت سے دیکھنے لگتا ہے ۔ وہ دن جب اسے اپنی ماں کا چہرہ دکھائی دیتا ہے تو اس کی آنکھوں سے محبت اور چہر ے سے مسکراہٹ پھوٹنے لگتی ہے ، ماں کی گود میں پڑا انگوٹھا چوستا بچہ اس کے بعد جہاں سب سے زیادہ چین و سکون محسوس کرتا ہے، تحفظ اور لطف پاتا ہے وہ جھولا ہی ہوتا ہے ۔
دھیر ے دھیر ے ہلتا رفتار پکڑتا جھولا لوری کی آواز اور پنگھوڑے کا ردھم اسے ایک کائناتی لطف کا احساس دلاتے ہیں ، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آدمیت کی ابتداء گفتار یعنی قوت گویائی سے اور تمدن کی زراعت یعنی کھیتی باڑی کے ساتھ ہوئی ہے تو انسانی نفسیاتی لطف اور سکون کی ابتداء ماں کی گود اور جھولے سے ہوئی ہے لیکن یہاں اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ ضروری ہے کہ جھولا صرف سکون اور تفریخ کا ذریعہ نہیں اور نہ ہی محض یہ قدیم دنوں کی یاد تازہ کرنے کی ایک نشانی ہے بل کہ یہ دنیا کے ہر انسانی معاشرے کی اہم ضرورت ، ہر بچے کی سلامتی اور تحفظ کا ضامن بھی رہا ۔
قدیم اساطیری قصوں کہانیوں میں جھولے کا ذکر عموماً اس حوالہ سے ملتا ہے کہ دیوتا اور دیویاں بڑے بڑے جھولوں کو عام زندگی میں استعمال کرتی تھیں ۔ گنڈولے اور جھولے ان دیوی اور دیوتاؤں کے لیے گاڑیوں کا کام دیتے تھے ۔
عرب دنیا میں جھولے کا تصور عین اسی طرح موجود ہے جیسے کہ ہمارے ملک کے دیہی علاقو ں میں ہے ہاں البتہ حضرت ابراہیمؑ کو جب آگ میں جھونکا جا رہا تھا تو انہیں ایک جھولے کی طرز پر باندھ کر عین الاؤ کے بیچوں بیچ پہنچایا گیا اور پھر تڑاخ سے ایک رسی کاٹ دی گئی ۔ جہاں تک پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی حیات مبارکہ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ایک روایت یہ موجود ہے کہ عین بچپن میں جب وہ پنگھوڑے میں موجود رہتے تو وہ پنگوڑا خود بخود ہلتا رہتا تھا۔ اس بارے میں پشتو زبان کی مشہور عوامی صنف چاربیتہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ
زانگو چہ حلیمے بی بی د روایہ بہ لیدلہ
پخپلہ زنگیدلہ
یعنی جب بی بی حلیمہ جھولے کو دور سے دیکھتی تھیں تو خود بخود جھولتا تھا ۔
عیسائی دنیا میں بھی پنگھوڑے اور جھولے کا تصور موجود تھا اور عموماً یہ جھولے نہ صرف گھروں میں بل کہ گھر سے باہر بھی پڑے رہتے تھے بڑی عمر کے افراد کے لیے بھی جھولوں کے استعمال کا رواج بھی یہیں سے شروع ہوا یہا ں تک کہ برصغیر میں مغل حکم ران آئے تو وہ بھی یہی کلچر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی صاحب ثروت خاندانوں میں بڑے بڑے قیمتی جھولے استعمال میں دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً صوبہ سندھ کے بڑے بڑے وڈیروں اور نوابوں کے بنگلوں میں اب بھی قیمتی جھولے نظر آتے ہیں ۔
جھولے کا تصور بھی اپنے اندر کافی کچھ سمیٹے ہوئے ہے بل کہ یہاں تک کہ اس کے ابھی کافی سارے پہلوؤں پر بحث نہیں کی گئی اور نہ اس پر بحث کو ضروری سمجھا گیا مثلاً جھولے کا یہ روپ جو ہم مزاروں میں دیکھتے ہیں ، بالخصوص پنجاب اور سندھ کے کئی مزاروں میں یہ جھولے موجود ہیں ، ان جہازی سائز کے جھولوں میں مزار کے متولی ان خواتین کو جھولا جھلاتے ہیں جو کہ بانجھ پن کا شکار ہوتی ہیں ۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان مخصوص جھولوں کو جھولنے سے بانجھ عورتوں کی گود ہری ہو جاتی ہے اور قدرت انہیں اولاد عطا کرتی ہے اندرون سندھ متعدد مزاروں پر تو جھولے ان بیمار افراد کی شفاء کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں جنہیں کوئی ذہنی بیماری لاحق ہوتی ہے یا کوئی اور بیماری ، ان لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ان جھولوں میں جھولنے سے روحانی طاقتیں ان کے امراض کو دور کر دیتی ہیں ، جھولے کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیہی اور شہری جھولوں میں ایک واضح فرق پایا جاتا ہے دراصل یہ فرق اس نقطہ نظر اور اس سوچ کا ہے جوکہ دیہات اور شہروں میں عموماً پایا جاتا ہے بہر حال جہاں دیہی علاقوں میں لمبی رسیوں سے لکڑی کے بنے جھولے لہراتے ہیں وہاں اب کہیں کہیں لوہے اور سٹیل کے بنے مشینی جھولے بھی نظر آتے ہیں ، دراصل یہ سب کچھ اس حقیقت کا غماز ہے کہ انسان فطری طور پر ہوا میں ہلتے ہوئے ایک انجانی مسرت کا حصول چاہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک کے چھوٹے بڑے شہروں، پارکوں، میلوں اور دیہاتوں میں الیکٹرونک اور ڈیزل انجن سے چلنے والے بڑے بڑے جھولے لگائے جاتے ہیں جن میں بچوں کے علاوہ بڑی عمر کے افراد مرد وخواتین بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
''اللہ ہو شہ'' پشتو لوری ہے جسے پشتو لوک گیتوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے لوری دنیا کی ہر زبان میں تقریبا ً ایک ہی تکنیک میں پائی جاتی ہے لیکن'' پشتو اللہ ہوشہ'' کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بچے کو بلی، کتے یا بلے سے ڈرنے کے بجائے بہادری اولوالعزمی اور غیرت و حمیت کا درس دیا جاتا ہے جو آئندہ زندگی میں بچے کے لیے حرزجان بن جاتا ہے اس میں اسلاف کے اولوالعزمانہ کارنامے جنگ کی کہانیاں ، حب الوطنی اور سخت کوشی کا درس ملتا ہے یا ماں اپنی جذبات پیش کرتی ہے۔
دشمنوں کو کوستی ہے، بچے کو بڑے ہو کر دشمنوں سے انتقام لینے کی تلقین کرتی ہے اور آنے والے عمر میں اسے دکھوں اور مصائب سے آگاہ کرتی ہے، مثال کے طور پر پشتوکی اس لوری میں ایک ماں اپنے بچے کو پنگھوڑا میں سلاتے ہوئے کہتی ہے کہ'' اللہ ہو شہ اللہ ہو ( سوجا، سوجا) یو وزرے دے دہ مور( تیری ماں اکیلی ہے) پلار دے نشتہ دے پہ کور ( تیرا باپ گھر پر نہیں ہے) نہ مِ خور شتہ نہ می مور ( میری نہ ماں ہے نہ کوئی بہن) ہم صحرا کوم ہم کور (جنگل سے لکڑی بھی لاتی ہوں گھر کا کام کاج بھی کرتی ہوں) اللہ ہو شہ اللہ ہو زماجانانہ اللہ ہو ( سو جا، سوجا میری جان، اللہ ہو زمابچے داسے اودہ دے لکہ پنڈ دہ پتاسو اللہ ہو ( میرا بچے ایسے سویا ہوا ہے جیسے بتاشوں کا ڈ ھیر) پہ کوزہ چنہ مہ رازہ پہ برہ چنہ رو ( نچلی منزل کی طرف نہ آئو اوپر کی منڈیر کی سمت آہستہ آجائو) پہ دے لارہ مہ رازئاے غلو، اللہ ہو ( اس راستے سے مت آئو اے چورو) پلار دے تلے دے پہ جنگ ( تیرا باپ میدان جنگ میں لڑنے کے لیے گیا ہے) خہ تیرہ تورتر سنگ (اچھی تیز تلوار کمر میں لٹکا کر) سر بہ ورکاندی پہ ننگ (اپنی ناموس کی خاطر اپنا سر دے دے گا) پہ وطن راغے فیرنگ (کیوںکہ وطن پر فرنگی نے چڑھائی کی ہے) اللہ ہو شہ اللہ ہو شہ زماجانہ اللہ ہو ( سو جا میری جان سو جا) پشتو لوری خیبرپختون خوا سمیت بلوچستان،کراچی اور افغانستان کے کئی علاقوں میں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں بولی جاتی ہے ۔
پشتو کے علاوہ خیبرپختون خوا میں ہندکو زبان کی لوری بھی زیادہ تر مقصدی اور افادی پہلو رکھتی ہے اس میں بہادری اور شجاعت کا درس ہوتا ہے اور بڑے ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کرنے اپنے وطن عزیز کو آزاد کرنے اور اس کی حفا ظت کرنے کا سبق دیا جاتا ہے آ۔ للوللوللو۔۔۔۔للوللوللوللو سوجا میرے بچڑے میں دھواں تیرے کپڑے آ۔ للوللوللو ۔۔۔۔ للوللوللوسو جا میرے راجا میں پکاواں تیراکھاجا للوللوللو۔۔۔۔للوللوللوسو جا میرے چم میں کراں کہا ردے کم للوللوللو۔۔۔۔ للوللوللو یہ لوری دیکھیے اس میں کتنی حقیقت پسندی ہے للوللوللو۔۔۔۔للوللوللی سو جا او لال میرے سوجا او مکھڑیں میرے سونڑیں دے دن تیرے کل نہ اے نیند رہو سی نہ ما ل داسینہ ہو سی گودی نہ شانہ ہو سی ویری زمانہ ہو سی دنیا دے غماں کولومولا بچاوے تنوسو جا ا و لال میرے سو او مکھڑیں میرے للوللوللی ۔۔۔۔ للوللوللی ۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو کسی بھی انسانی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء کا تصور عورت ذات کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ جب ہم ابتدائی تاریخ پڑھتے ہیں تو اس میں ہمیں یہ حقیقت صاف نظر آتی ہے کہ صدیوں تک مرد شکار اور غلہ بانی کے قدیم طریقوں سے چمٹا رہا جب کہ عورت نے اپنے پڑاو کے قرب وجوار میں زراعت اور فنون کے ایسے ایسے نمونوں کو فروغ دیا جو بعد کے زمانے کی اہم ترین صنعتیں بن گئیں ، سُوت کا پودا جیسے اہل یونان اون سے لدا درخت کہتے ہیں قدیم عورتیں اسی سے دھاگہ بناتیں اورسُوت کا کپڑا تیار کرتیں ۔
یہ عورت ہی تھی، جس نے دنیامیں سینا پرونا، کپڑے بنانا، ٹوکری سازی، برتن سازی، لکڑی کاکام اور عمارت کی تعمیر شروع کی ، عورت ہی نے حشرات الارض ، بارش اور چوروں سے غلہ محفوظ رکھنے کے لیے گودام بنائے ، خشک سالی کے دنوں کے لیے خوراک اکھٹی کر لی اور اپنے بچوں کوآرام چین وسکون سے سونے کے لیے ابتداء میں کپڑے کا پنگھوڑا (جھولا) بنایا ۔ اور جس نے انسان کے ساتھ ارتقاء کی کئی منزلیں طے کرتے ہوئے آج ایک مکمل صنعت کی شکل اختیار کر رکھی ہے ۔
پشتو زبان کی زانگو، اردو کا پنگھوڑا اور سرائیکی کا پینگھاں ، ہمیں آج بھی مختلف جدید شکلوں میں نظر آتا ہے ۔ چوںکہ قدیم زمانے میں بچے کو پنگڑا کہا جاتا تھا اس لیے اس پنگڑے یعنی بچے کو سلانے ، اسے بہلانے کے لیے عورت یعنی ماں نے جو جھولا بنایا اسے پنگھوڑا کا نام دیا گیا۔
اس لیے جھولے کا تصور اس لفظ کی پہچان کے ساتھ ہی انسانی ذہن کے نہاں خانوں میں ان دنوں کی یاد دلانے لگتا ہے جب انسان اس دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اردگرد کی ہر چیز کو حسرت سے دیکھنے لگتا ہے ۔ وہ دن جب اسے اپنی ماں کا چہرہ دکھائی دیتا ہے تو اس کی آنکھوں سے محبت اور چہر ے سے مسکراہٹ پھوٹنے لگتی ہے ، ماں کی گود میں پڑا انگوٹھا چوستا بچہ اس کے بعد جہاں سب سے زیادہ چین و سکون محسوس کرتا ہے، تحفظ اور لطف پاتا ہے وہ جھولا ہی ہوتا ہے ۔
دھیر ے دھیر ے ہلتا رفتار پکڑتا جھولا لوری کی آواز اور پنگھوڑے کا ردھم اسے ایک کائناتی لطف کا احساس دلاتے ہیں ، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آدمیت کی ابتداء گفتار یعنی قوت گویائی سے اور تمدن کی زراعت یعنی کھیتی باڑی کے ساتھ ہوئی ہے تو انسانی نفسیاتی لطف اور سکون کی ابتداء ماں کی گود اور جھولے سے ہوئی ہے لیکن یہاں اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ ضروری ہے کہ جھولا صرف سکون اور تفریخ کا ذریعہ نہیں اور نہ ہی محض یہ قدیم دنوں کی یاد تازہ کرنے کی ایک نشانی ہے بل کہ یہ دنیا کے ہر انسانی معاشرے کی اہم ضرورت ، ہر بچے کی سلامتی اور تحفظ کا ضامن بھی رہا ۔
قدیم اساطیری قصوں کہانیوں میں جھولے کا ذکر عموماً اس حوالہ سے ملتا ہے کہ دیوتا اور دیویاں بڑے بڑے جھولوں کو عام زندگی میں استعمال کرتی تھیں ۔ گنڈولے اور جھولے ان دیوی اور دیوتاؤں کے لیے گاڑیوں کا کام دیتے تھے ۔
عرب دنیا میں جھولے کا تصور عین اسی طرح موجود ہے جیسے کہ ہمارے ملک کے دیہی علاقو ں میں ہے ہاں البتہ حضرت ابراہیمؑ کو جب آگ میں جھونکا جا رہا تھا تو انہیں ایک جھولے کی طرز پر باندھ کر عین الاؤ کے بیچوں بیچ پہنچایا گیا اور پھر تڑاخ سے ایک رسی کاٹ دی گئی ۔ جہاں تک پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی حیات مبارکہ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ایک روایت یہ موجود ہے کہ عین بچپن میں جب وہ پنگھوڑے میں موجود رہتے تو وہ پنگوڑا خود بخود ہلتا رہتا تھا۔ اس بارے میں پشتو زبان کی مشہور عوامی صنف چاربیتہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ
زانگو چہ حلیمے بی بی د روایہ بہ لیدلہ
پخپلہ زنگیدلہ
یعنی جب بی بی حلیمہ جھولے کو دور سے دیکھتی تھیں تو خود بخود جھولتا تھا ۔
عیسائی دنیا میں بھی پنگھوڑے اور جھولے کا تصور موجود تھا اور عموماً یہ جھولے نہ صرف گھروں میں بل کہ گھر سے باہر بھی پڑے رہتے تھے بڑی عمر کے افراد کے لیے بھی جھولوں کے استعمال کا رواج بھی یہیں سے شروع ہوا یہا ں تک کہ برصغیر میں مغل حکم ران آئے تو وہ بھی یہی کلچر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی صاحب ثروت خاندانوں میں بڑے بڑے قیمتی جھولے استعمال میں دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً صوبہ سندھ کے بڑے بڑے وڈیروں اور نوابوں کے بنگلوں میں اب بھی قیمتی جھولے نظر آتے ہیں ۔
جھولے کا تصور بھی اپنے اندر کافی کچھ سمیٹے ہوئے ہے بل کہ یہاں تک کہ اس کے ابھی کافی سارے پہلوؤں پر بحث نہیں کی گئی اور نہ اس پر بحث کو ضروری سمجھا گیا مثلاً جھولے کا یہ روپ جو ہم مزاروں میں دیکھتے ہیں ، بالخصوص پنجاب اور سندھ کے کئی مزاروں میں یہ جھولے موجود ہیں ، ان جہازی سائز کے جھولوں میں مزار کے متولی ان خواتین کو جھولا جھلاتے ہیں جو کہ بانجھ پن کا شکار ہوتی ہیں ۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان مخصوص جھولوں کو جھولنے سے بانجھ عورتوں کی گود ہری ہو جاتی ہے اور قدرت انہیں اولاد عطا کرتی ہے اندرون سندھ متعدد مزاروں پر تو جھولے ان بیمار افراد کی شفاء کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں جنہیں کوئی ذہنی بیماری لاحق ہوتی ہے یا کوئی اور بیماری ، ان لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ان جھولوں میں جھولنے سے روحانی طاقتیں ان کے امراض کو دور کر دیتی ہیں ، جھولے کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیہی اور شہری جھولوں میں ایک واضح فرق پایا جاتا ہے دراصل یہ فرق اس نقطہ نظر اور اس سوچ کا ہے جوکہ دیہات اور شہروں میں عموماً پایا جاتا ہے بہر حال جہاں دیہی علاقوں میں لمبی رسیوں سے لکڑی کے بنے جھولے لہراتے ہیں وہاں اب کہیں کہیں لوہے اور سٹیل کے بنے مشینی جھولے بھی نظر آتے ہیں ، دراصل یہ سب کچھ اس حقیقت کا غماز ہے کہ انسان فطری طور پر ہوا میں ہلتے ہوئے ایک انجانی مسرت کا حصول چاہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک کے چھوٹے بڑے شہروں، پارکوں، میلوں اور دیہاتوں میں الیکٹرونک اور ڈیزل انجن سے چلنے والے بڑے بڑے جھولے لگائے جاتے ہیں جن میں بچوں کے علاوہ بڑی عمر کے افراد مرد وخواتین بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
''اللہ ہو شہ'' پشتو لوری ہے جسے پشتو لوک گیتوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے لوری دنیا کی ہر زبان میں تقریبا ً ایک ہی تکنیک میں پائی جاتی ہے لیکن'' پشتو اللہ ہوشہ'' کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بچے کو بلی، کتے یا بلے سے ڈرنے کے بجائے بہادری اولوالعزمی اور غیرت و حمیت کا درس دیا جاتا ہے جو آئندہ زندگی میں بچے کے لیے حرزجان بن جاتا ہے اس میں اسلاف کے اولوالعزمانہ کارنامے جنگ کی کہانیاں ، حب الوطنی اور سخت کوشی کا درس ملتا ہے یا ماں اپنی جذبات پیش کرتی ہے۔
دشمنوں کو کوستی ہے، بچے کو بڑے ہو کر دشمنوں سے انتقام لینے کی تلقین کرتی ہے اور آنے والے عمر میں اسے دکھوں اور مصائب سے آگاہ کرتی ہے، مثال کے طور پر پشتوکی اس لوری میں ایک ماں اپنے بچے کو پنگھوڑا میں سلاتے ہوئے کہتی ہے کہ'' اللہ ہو شہ اللہ ہو ( سوجا، سوجا) یو وزرے دے دہ مور( تیری ماں اکیلی ہے) پلار دے نشتہ دے پہ کور ( تیرا باپ گھر پر نہیں ہے) نہ مِ خور شتہ نہ می مور ( میری نہ ماں ہے نہ کوئی بہن) ہم صحرا کوم ہم کور (جنگل سے لکڑی بھی لاتی ہوں گھر کا کام کاج بھی کرتی ہوں) اللہ ہو شہ اللہ ہو زماجانانہ اللہ ہو ( سو جا، سوجا میری جان، اللہ ہو زمابچے داسے اودہ دے لکہ پنڈ دہ پتاسو اللہ ہو ( میرا بچے ایسے سویا ہوا ہے جیسے بتاشوں کا ڈ ھیر) پہ کوزہ چنہ مہ رازہ پہ برہ چنہ رو ( نچلی منزل کی طرف نہ آئو اوپر کی منڈیر کی سمت آہستہ آجائو) پہ دے لارہ مہ رازئاے غلو، اللہ ہو ( اس راستے سے مت آئو اے چورو) پلار دے تلے دے پہ جنگ ( تیرا باپ میدان جنگ میں لڑنے کے لیے گیا ہے) خہ تیرہ تورتر سنگ (اچھی تیز تلوار کمر میں لٹکا کر) سر بہ ورکاندی پہ ننگ (اپنی ناموس کی خاطر اپنا سر دے دے گا) پہ وطن راغے فیرنگ (کیوںکہ وطن پر فرنگی نے چڑھائی کی ہے) اللہ ہو شہ اللہ ہو شہ زماجانہ اللہ ہو ( سو جا میری جان سو جا) پشتو لوری خیبرپختون خوا سمیت بلوچستان،کراچی اور افغانستان کے کئی علاقوں میں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں بولی جاتی ہے ۔
پشتو کے علاوہ خیبرپختون خوا میں ہندکو زبان کی لوری بھی زیادہ تر مقصدی اور افادی پہلو رکھتی ہے اس میں بہادری اور شجاعت کا درس ہوتا ہے اور بڑے ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کرنے اپنے وطن عزیز کو آزاد کرنے اور اس کی حفا ظت کرنے کا سبق دیا جاتا ہے آ۔ للوللوللو۔۔۔۔للوللوللوللو سوجا میرے بچڑے میں دھواں تیرے کپڑے آ۔ للوللوللو ۔۔۔۔ للوللوللوسو جا میرے راجا میں پکاواں تیراکھاجا للوللوللو۔۔۔۔للوللوللوسو جا میرے چم میں کراں کہا ردے کم للوللوللو۔۔۔۔ للوللوللو یہ لوری دیکھیے اس میں کتنی حقیقت پسندی ہے للوللوللو۔۔۔۔للوللوللی سو جا او لال میرے سوجا او مکھڑیں میرے سونڑیں دے دن تیرے کل نہ اے نیند رہو سی نہ ما ل داسینہ ہو سی گودی نہ شانہ ہو سی ویری زمانہ ہو سی دنیا دے غماں کولومولا بچاوے تنوسو جا ا و لال میرے سو او مکھڑیں میرے للوللوللی ۔۔۔۔ للوللوللی ۔