تیسری عالمی جنگ کس کے درمیان ہوگی
جمہوری، قومی اور سیکولر ریاستوں کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کسی بھی گروہ کو جرائم کا لائسنس ۔۔۔
تین ماہ قبل عراق میں لڑنے والے عسکریت پسند گروہ انصارالاسلام نے اپنے نئے تربیتی کیمپ کی ایک ویڈیو جاری کی جس کا نام تھا ''معسکر شیخ رشید غازی''۔ ویڈیو کے آغاز میں مختلف کیمپوں میں جنگی مشقیں کرتے ہوئے جنگجوئوں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ حصے اس مہارت سے ایڈٹ کیے گئے ہیں کہ کسی شخص کا چہرہ واضح نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد لال مسجد کے عبدالرشید غازی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور پھر ان کی جانب سے ایک پیغام ''امت کے مردوں کے نام'' پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔
یہاں پس پردہ کمنٹری دو زبانوں میں ہو رہی ہوتی ہے، ایک عربی اور دوسری کُردش۔ تمام کے تمام عسکریت پسندوں نے کُردوں والی شلوار زیب ِ تن کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے بعد لال مسجد کے اردگرد فوجیوں کی صف بندیاں دکھائی گئی ہیں اور پھر آپریشن کے بعد لال مسجد کے مختلف حصے نظر آتے ہیں اس کے ساتھ ہی اسامہ بن لادن کے بیان کا ایک اقتباس اسکرین پر آتا ہے جس میں عبدالرشید غازی کو ایک ہیرو قرار دیا گیا ہے۔ سب سے اہم ترین حصہ آخر میں ایک جہادی ترانہ ہے جو اُردو میں ہے جس کا ترجمہ عربی اور کردش زبانوں میں سب ٹائٹل کی صورت میں دکھایا جاتا ہے۔
یوں تو انصار الا سلام جولائی2001ء میں عراق کے کرد علاقے کے دو گروہوں جند الاسلام اور اسلامک موومنٹ آف کردستان کے ادغام سے بنی اور اس نے اپنی تنظیم کو مضبوط بھی بنایا لیکن جب عراق پر امریکی حملے سے قبل سی آئی اے اپنے (Special Activities Division) اور پینٹاگون نے دسویں اسپیشل فورسز گروپ کی ٹیموں کو کردستان بھیجا اور وہاں کی قوم پرست تنظیم '' پش مرجا'' کو ساتھ ملا کر انصار الا سلام کے خلاف خفیہ حملے شروع کیے تو ان کے ساتھیوں کو خاصہ نقصان اٹھانا پڑا۔
جارج بش نے جب امریکی سینیٹ کے سامنے عراق پر حملے کا جواز پیش کیا تو ایک الزام یہ لگایا کہ صدام حسین کو انصار الاسلام کی خبر ہے اور وہ اس کے ذریعے القاعدہ سے روابط میں ہے۔ فروری2003ء میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے اسی تنظیم کا ذکر کیا صدام حسین کو اس کا سرپرست قرار دیا جب کہ انصار الا سلام کا سربراہ صدام حسین کو ایک قوم پرست کی حیثیت سے اپنا بدترین دشمن قرار دیتا تھا۔
اس کے بعد کی کہانی طویل بھی ہے اور دلگداز بھی۔ امریکا کا عراق پر حملہ، لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام، جمہوری نظام کا طاقت کے زور پر نفاذ، آئین، پارلیمنٹ، منتخب حکومت اور سب سے بڑھ کر امریکا کی تربیت یافتہ ایک نئی فوج کی تخلیق۔ دنیا کو بتا دیا گیا کہ ہم نے ایک ملک میں آمریت کا خاتمہ کر کے جمہوریت نافذ کر دی ہے۔ عالمی سرحدوں کی پامالی اور ذلت کا موجودہ تاریخ میں افغانستان کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ اس کے بعد یہ دونوں ملک ایک گزر گاہ بن گئے۔ وہ عالمی برادری جس نے اقوام متحدہ بناتے وقت ایک دوسرے کی سرحدوں کے احترام کا عہد کیا تھا، جب اس نے ہی انھیں پائوں تلے روند ڈالا تو پھر وہ لوگ جو ان کے خلاف لڑ رہے تھے۔
ان کے لیے بھی سرحدیں بے معنی ہو کر رہ گئیں۔ شام کا معرکہ شروع ہوا تو جہاں عراق کی سر زمین سے ہوتے ہوئے ایران کے پاسداران، اور لبنان سے حزب اللہ کے دستوں نے شام کا رخ کیا تو وہ لوگ اور گروہ جو عراق میں امریکی افواج اور پھر اس کی قائم کردہ جمہوری حکومت سے لڑ رہے تھے انھوں نے بھی شام کا رخ کر لیا۔ شام جو اس وقت مسلم امہ کی دو استعماری قوتوں ایران اور سعودی عرب کی خطے پر بالا دستی کی جنگ میں آگ اور خون کے دریا سے گزر رہا ہے۔ ان دنوں طاقتوں کی پشت پر عالمی بالا دستی کی خواہش میں پاگل عالمی طاقتیں خونیں پنجے لہرائے کھڑی ہیں۔
ایک جانب امریکا اور مغرب ہے تو دوسری جانب روس اور چین۔ دونوں جانب کے ممالک کسی سرحد پر روایتی فوجی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ شام کی سرحد کی عصمت چاروں جانب سے تار تار کر دی گئی۔ یہ اس نظام کا حال ہے جسے عالمی قومی ریاستوں کی حرمت اور اقتدار اعلیٰ سے عبارت سمجھا جاتا ہے۔ ایسے وہ لوگ جو اس ساری تقسیم اور عالمی ریاستی دہشت گردی کے زخموں سے چور تھے انھوں نے بھی زمین کے نقشے پر ڈالی ہوئی ان لکیروں کو تار تار کر کے رکھ دیا۔
اس کی تازہ ترین مثال ''دولت لااسلامیہ فی العراق و الشام'' ہے جسے اس وقت پوری مغربی دنیا ''آئی ایس آئی ایس'' کے نام سے جانتی ہے اور ان کی تازہ ترین کامیابیوں سے پورا مغربی میڈیا خوفزدہ نظر آ رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ فوج جسے امریکی افواج نے تربیت دی اور جسے وہ ایلیٹElite فورس کہتے تھے اور جس کے بارے میں پورا مغربی میڈیا یہ تاثر دیتا رہا کہ اب عراق میں امریکی فوج کا نعم البدل میسر آ گیا ہے۔ یہ ایلیٹ فوج عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے ایسے بھاگی کہ اپنے ہیلی کاپٹر، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور اسلحہ تک چھوڑ آئی۔ افواج کسی نظریے کی بنیاد پر قربانی دیا کرتی ہیں، خواہ وہ مادرِ وطن ہو یا مذہب، نسلی برتری کا تصور ہو یا علاقائی غلبے کی آرزو۔
؎مراعات سے بہترین ٹریننگ اور شاندار نوکری تو کی جا سکتی ہے لیکن مرنے کا جذبہ مفقود ہوتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی قوم کُرد جسے مغربی دنیا نے چار ملکوں شام، ترکی، عراق اور ایران میں تقسیم کیا تھا۔ اس آئی ایس آئی ایس میں ان کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ یہ ان مصنوعی سرحدوں کو تسلیم نہیں کر رہے۔ لیکن اس جنگ کے جیتنے اور وسیع علاقے پر قبضے کے بعد ایک خطرہ اور ہے جو پوری مسلم امہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اب اس جنگ میں نظریہ شامل ہو چکا ہے۔ آئی ایس آئی ایس خود کو ایک سنی تنظیم کہلاتی ہے اور اس نے شام اور عراق کے سنی علاقوں کے وسیع حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو القاعدہ سے علیحدہ بھی کر لیا ہے اور اس کے نظریات بہت شدت پسند ہیں۔
اب ان کے سامنے لڑائی کے لیے شیعہ اکثریت کے علاقے ہیں۔ اس جنگ میں اب ریاستیں خود سرحدوں کی حرمت کو پامال کرنا چاہتی ہیں۔ ایران سے پاسداران کا ایک قافلہ وہاں پہنچ چکا۔ دنیا کے ہر ملک میں اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کے نام پر تیاریاں ہو رہی ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے ساتھ مغربی ممالک انگلینڈ، فرانس اور بقیہ یورپی ممالک کے رضاکاروں ساتھ ساتھ امریکی شہری بھری لڑ رہے ہیں۔ یہ وہ کشت و خون ہے جس کا خواب مغرب مدتوں سے دیکھ رہا ہے اور اب اسے یہ پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کہ پوری امتِ مسلمہ میں اتحاد کی آواز بلند کرنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا۔
ہر عالم دین کی اپنی فقہ اور اپنے مسلک کے مطابق شہید اور جہنم رسید ہیں۔ ایک کے مقدس مقامات دوسرے کے لیے مسمار کرنے کے لائق ہیں دوسرے کی مقدس شخصیات پہلے کے لیے دشنام اور لعنت و ملامت کی علامت۔ ہر کوئی اپنے مسلک کے لوگوں کا تحفظ چاہتا ہے خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہوں اور خواہ ان کو بچانے کے لیے کتنی ہی سرحدیں کیوں نہ عبور کرنا پڑیں۔ جو گروہ ریاست کے ساتھ ہے وہ ان کے لیے امن کا علمبردار اور حق پر ہے جب کہ جو گروہ حکومت کے خلاف ہے وہ ان کے لیے دہشت گرد اور باغی ہے۔
جمہوری، قومی اور سیکولر ریاستوں کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کسی بھی گروہ کو دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، بے رحمانہ معصوم لوگوں کا قتل اور بھتہ خوری کا مصدقہ لائسنس لینے کے لیے دو کڑی شرائط سے گزرنا ہوتا ہے، ایک یہ کہ وہ ریاست کے آئین کو مانتا ہو اور دوسرا اس کی پارلیمنٹ میں عدوی نمایندگی موجود ہو۔ اس کے بعد آپ قوم پر ست بن کے حکومت کی رٹ کا مذاق اڑایں یا مسلک کے نام پر دوسرے مسلک کی اقلیت پر زندگی تنگ کر دیں۔ آپ حق پر بھی ہیں اور جائز بھی کیونکہ آپ نے اس عالمی ریاستی نظام کو قبول کر لیا ہے۔ جسے اس دور میں قومی ریاست کہتے ہیں۔؎
مسلم امہّ میں اس وقت پچاس سے زیادہ قومی ریاستیں ہیں۔ ان میں سے افغانستان، عراق اور لیبیا کی سرحدوں کی بے حرمتی بڑی ریاستوں نے براہِ راست فوج کشی سے کی اور باقی کئی ریاستوں میں ایران اور سعودی عرب نے اسلحہ، سرمایہ اور افرادی قوت سے ان کی سرحدوں اور اقتدار اعلیٰ کو خاک میں ملایا۔ ان تمام شورش زدہ علاقوں میں ریاستیں دہشت گردوں کے خلاف اس لیے آپریشن کر رہی ہیں کہ ان کی حکومتی بقا کا مسئلہ ہے۔
دوسری جانب ان ریاستوں کے خلاف لڑنے والے بھی ان تمام سرحدوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہر اس ریاست سے لڑ رہے ہیں جو ان کے مسلک یا نظریے کے خلاف ہے۔ جنگ عظیم اوّل اور دوم ریاستوں کی آپس میں جنگ تھی لیکن شاید تیسری جنگ عظیم ریاستوں اور ان کے مد مقابل گروہوں کی جنگ ہو گی۔ یہ جنگ کون جیتتا ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن جو تصور اور نظریہ جنگ کے آغاز میں ہی ہار چکا ہے وہ سرحدوں کے تقدس کا ہے۔ سب بے معنی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ ان کی عزت اور حرمت نہ حکومتیں کرتی ہیں اور نہ حکومت کے خلاف لڑنے والے افراد اور گروہ۔
یہاں پس پردہ کمنٹری دو زبانوں میں ہو رہی ہوتی ہے، ایک عربی اور دوسری کُردش۔ تمام کے تمام عسکریت پسندوں نے کُردوں والی شلوار زیب ِ تن کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے بعد لال مسجد کے اردگرد فوجیوں کی صف بندیاں دکھائی گئی ہیں اور پھر آپریشن کے بعد لال مسجد کے مختلف حصے نظر آتے ہیں اس کے ساتھ ہی اسامہ بن لادن کے بیان کا ایک اقتباس اسکرین پر آتا ہے جس میں عبدالرشید غازی کو ایک ہیرو قرار دیا گیا ہے۔ سب سے اہم ترین حصہ آخر میں ایک جہادی ترانہ ہے جو اُردو میں ہے جس کا ترجمہ عربی اور کردش زبانوں میں سب ٹائٹل کی صورت میں دکھایا جاتا ہے۔
یوں تو انصار الا سلام جولائی2001ء میں عراق کے کرد علاقے کے دو گروہوں جند الاسلام اور اسلامک موومنٹ آف کردستان کے ادغام سے بنی اور اس نے اپنی تنظیم کو مضبوط بھی بنایا لیکن جب عراق پر امریکی حملے سے قبل سی آئی اے اپنے (Special Activities Division) اور پینٹاگون نے دسویں اسپیشل فورسز گروپ کی ٹیموں کو کردستان بھیجا اور وہاں کی قوم پرست تنظیم '' پش مرجا'' کو ساتھ ملا کر انصار الا سلام کے خلاف خفیہ حملے شروع کیے تو ان کے ساتھیوں کو خاصہ نقصان اٹھانا پڑا۔
جارج بش نے جب امریکی سینیٹ کے سامنے عراق پر حملے کا جواز پیش کیا تو ایک الزام یہ لگایا کہ صدام حسین کو انصار الاسلام کی خبر ہے اور وہ اس کے ذریعے القاعدہ سے روابط میں ہے۔ فروری2003ء میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے اسی تنظیم کا ذکر کیا صدام حسین کو اس کا سرپرست قرار دیا جب کہ انصار الا سلام کا سربراہ صدام حسین کو ایک قوم پرست کی حیثیت سے اپنا بدترین دشمن قرار دیتا تھا۔
اس کے بعد کی کہانی طویل بھی ہے اور دلگداز بھی۔ امریکا کا عراق پر حملہ، لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام، جمہوری نظام کا طاقت کے زور پر نفاذ، آئین، پارلیمنٹ، منتخب حکومت اور سب سے بڑھ کر امریکا کی تربیت یافتہ ایک نئی فوج کی تخلیق۔ دنیا کو بتا دیا گیا کہ ہم نے ایک ملک میں آمریت کا خاتمہ کر کے جمہوریت نافذ کر دی ہے۔ عالمی سرحدوں کی پامالی اور ذلت کا موجودہ تاریخ میں افغانستان کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ اس کے بعد یہ دونوں ملک ایک گزر گاہ بن گئے۔ وہ عالمی برادری جس نے اقوام متحدہ بناتے وقت ایک دوسرے کی سرحدوں کے احترام کا عہد کیا تھا، جب اس نے ہی انھیں پائوں تلے روند ڈالا تو پھر وہ لوگ جو ان کے خلاف لڑ رہے تھے۔
ان کے لیے بھی سرحدیں بے معنی ہو کر رہ گئیں۔ شام کا معرکہ شروع ہوا تو جہاں عراق کی سر زمین سے ہوتے ہوئے ایران کے پاسداران، اور لبنان سے حزب اللہ کے دستوں نے شام کا رخ کیا تو وہ لوگ اور گروہ جو عراق میں امریکی افواج اور پھر اس کی قائم کردہ جمہوری حکومت سے لڑ رہے تھے انھوں نے بھی شام کا رخ کر لیا۔ شام جو اس وقت مسلم امہ کی دو استعماری قوتوں ایران اور سعودی عرب کی خطے پر بالا دستی کی جنگ میں آگ اور خون کے دریا سے گزر رہا ہے۔ ان دنوں طاقتوں کی پشت پر عالمی بالا دستی کی خواہش میں پاگل عالمی طاقتیں خونیں پنجے لہرائے کھڑی ہیں۔
ایک جانب امریکا اور مغرب ہے تو دوسری جانب روس اور چین۔ دونوں جانب کے ممالک کسی سرحد پر روایتی فوجی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ شام کی سرحد کی عصمت چاروں جانب سے تار تار کر دی گئی۔ یہ اس نظام کا حال ہے جسے عالمی قومی ریاستوں کی حرمت اور اقتدار اعلیٰ سے عبارت سمجھا جاتا ہے۔ ایسے وہ لوگ جو اس ساری تقسیم اور عالمی ریاستی دہشت گردی کے زخموں سے چور تھے انھوں نے بھی زمین کے نقشے پر ڈالی ہوئی ان لکیروں کو تار تار کر کے رکھ دیا۔
اس کی تازہ ترین مثال ''دولت لااسلامیہ فی العراق و الشام'' ہے جسے اس وقت پوری مغربی دنیا ''آئی ایس آئی ایس'' کے نام سے جانتی ہے اور ان کی تازہ ترین کامیابیوں سے پورا مغربی میڈیا خوفزدہ نظر آ رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ فوج جسے امریکی افواج نے تربیت دی اور جسے وہ ایلیٹElite فورس کہتے تھے اور جس کے بارے میں پورا مغربی میڈیا یہ تاثر دیتا رہا کہ اب عراق میں امریکی فوج کا نعم البدل میسر آ گیا ہے۔ یہ ایلیٹ فوج عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے ایسے بھاگی کہ اپنے ہیلی کاپٹر، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور اسلحہ تک چھوڑ آئی۔ افواج کسی نظریے کی بنیاد پر قربانی دیا کرتی ہیں، خواہ وہ مادرِ وطن ہو یا مذہب، نسلی برتری کا تصور ہو یا علاقائی غلبے کی آرزو۔
؎مراعات سے بہترین ٹریننگ اور شاندار نوکری تو کی جا سکتی ہے لیکن مرنے کا جذبہ مفقود ہوتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی قوم کُرد جسے مغربی دنیا نے چار ملکوں شام، ترکی، عراق اور ایران میں تقسیم کیا تھا۔ اس آئی ایس آئی ایس میں ان کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ یہ ان مصنوعی سرحدوں کو تسلیم نہیں کر رہے۔ لیکن اس جنگ کے جیتنے اور وسیع علاقے پر قبضے کے بعد ایک خطرہ اور ہے جو پوری مسلم امہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اب اس جنگ میں نظریہ شامل ہو چکا ہے۔ آئی ایس آئی ایس خود کو ایک سنی تنظیم کہلاتی ہے اور اس نے شام اور عراق کے سنی علاقوں کے وسیع حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو القاعدہ سے علیحدہ بھی کر لیا ہے اور اس کے نظریات بہت شدت پسند ہیں۔
اب ان کے سامنے لڑائی کے لیے شیعہ اکثریت کے علاقے ہیں۔ اس جنگ میں اب ریاستیں خود سرحدوں کی حرمت کو پامال کرنا چاہتی ہیں۔ ایران سے پاسداران کا ایک قافلہ وہاں پہنچ چکا۔ دنیا کے ہر ملک میں اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کے نام پر تیاریاں ہو رہی ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے ساتھ مغربی ممالک انگلینڈ، فرانس اور بقیہ یورپی ممالک کے رضاکاروں ساتھ ساتھ امریکی شہری بھری لڑ رہے ہیں۔ یہ وہ کشت و خون ہے جس کا خواب مغرب مدتوں سے دیکھ رہا ہے اور اب اسے یہ پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کہ پوری امتِ مسلمہ میں اتحاد کی آواز بلند کرنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا۔
ہر عالم دین کی اپنی فقہ اور اپنے مسلک کے مطابق شہید اور جہنم رسید ہیں۔ ایک کے مقدس مقامات دوسرے کے لیے مسمار کرنے کے لائق ہیں دوسرے کی مقدس شخصیات پہلے کے لیے دشنام اور لعنت و ملامت کی علامت۔ ہر کوئی اپنے مسلک کے لوگوں کا تحفظ چاہتا ہے خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہوں اور خواہ ان کو بچانے کے لیے کتنی ہی سرحدیں کیوں نہ عبور کرنا پڑیں۔ جو گروہ ریاست کے ساتھ ہے وہ ان کے لیے امن کا علمبردار اور حق پر ہے جب کہ جو گروہ حکومت کے خلاف ہے وہ ان کے لیے دہشت گرد اور باغی ہے۔
جمہوری، قومی اور سیکولر ریاستوں کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کسی بھی گروہ کو دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، بے رحمانہ معصوم لوگوں کا قتل اور بھتہ خوری کا مصدقہ لائسنس لینے کے لیے دو کڑی شرائط سے گزرنا ہوتا ہے، ایک یہ کہ وہ ریاست کے آئین کو مانتا ہو اور دوسرا اس کی پارلیمنٹ میں عدوی نمایندگی موجود ہو۔ اس کے بعد آپ قوم پر ست بن کے حکومت کی رٹ کا مذاق اڑایں یا مسلک کے نام پر دوسرے مسلک کی اقلیت پر زندگی تنگ کر دیں۔ آپ حق پر بھی ہیں اور جائز بھی کیونکہ آپ نے اس عالمی ریاستی نظام کو قبول کر لیا ہے۔ جسے اس دور میں قومی ریاست کہتے ہیں۔؎
مسلم امہّ میں اس وقت پچاس سے زیادہ قومی ریاستیں ہیں۔ ان میں سے افغانستان، عراق اور لیبیا کی سرحدوں کی بے حرمتی بڑی ریاستوں نے براہِ راست فوج کشی سے کی اور باقی کئی ریاستوں میں ایران اور سعودی عرب نے اسلحہ، سرمایہ اور افرادی قوت سے ان کی سرحدوں اور اقتدار اعلیٰ کو خاک میں ملایا۔ ان تمام شورش زدہ علاقوں میں ریاستیں دہشت گردوں کے خلاف اس لیے آپریشن کر رہی ہیں کہ ان کی حکومتی بقا کا مسئلہ ہے۔
دوسری جانب ان ریاستوں کے خلاف لڑنے والے بھی ان تمام سرحدوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہر اس ریاست سے لڑ رہے ہیں جو ان کے مسلک یا نظریے کے خلاف ہے۔ جنگ عظیم اوّل اور دوم ریاستوں کی آپس میں جنگ تھی لیکن شاید تیسری جنگ عظیم ریاستوں اور ان کے مد مقابل گروہوں کی جنگ ہو گی۔ یہ جنگ کون جیتتا ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن جو تصور اور نظریہ جنگ کے آغاز میں ہی ہار چکا ہے وہ سرحدوں کے تقدس کا ہے۔ سب بے معنی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ ان کی عزت اور حرمت نہ حکومتیں کرتی ہیں اور نہ حکومت کے خلاف لڑنے والے افراد اور گروہ۔