کشمیریوں سے بی جے پی کیوں ڈرتی ہے
خدشہ یہ تھا کہ یہ انتخاب کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے بارے میں ایک ریفرنڈم ثابت ہو گا
بھارتی لوک سبھا میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی چھ نشستیں ہیں۔ایک لداخ کی ، دو جموں اور تین وادی کی۔حالانکہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے ہفتہ بھر پہلے نریندر مودی نے پانچ برس میں پہلی بار سری نگر کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں کے لوگوں کا دل جیتنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
مگر کشمیر کی حیثیت بدلنے کے لیے آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کی تنسیخ کے نتیجے میں ترقی کے راستے کھولنے کے دعوی کے باوجود بی جے پی نے وادی کی تینوں نشستوں پر اپنا امیدوار کھڑا کرنے کی جرات نہیں کی۔
خدشہ یہ تھا کہ یہ انتخاب کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے بارے میں ایک ریفرنڈم ثابت ہو گا اور یہاں یقینی ہار کی صورت میں وہ سارا پروپیگنڈہ بی جے پی کے منہ پر جا پڑتا کہ ہم نے پانچ اگست دو ہزار انیس کو ریاست کے دو ٹکڑے کر کے دراصل جموں و کشمیر و لداخ کی ترقی کا راستہ کھول دیا۔
اس بار وادی سے الیکشن نہ لڑنے کی کھسیانی تاویل بھارتی وزیرِ داخلہ اور مودی کے دستِ راست امیت شاہ نے یہ پیش کی کہ بی جے پی دراصل یہاں کے لوگوں کا دل جیتنا چاہتی ہے۔ اسے فی الحال وادی میں کنول کا پھول ( بی جے پی کا انتخابی نشان ) کھلانے کی کوئی جلدی نہیں۔
وادی میں اصل مقابلہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ہے۔دونوں جماعتیں آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے کے خلاف ہیں۔دونوں بی جے پی مخالف اتحاد انڈیا میں شامل ہیں مگر کشمیر میں وہ ایک دوسرے کی انتخابی مدِ مقابل ہیں۔
اس وقت کشمیر میں بے روزگاری کا تناسب ساڑھے اٹھارہ فیصد ہے جب کہ باقی بھارت میں ساڑھے سات فیصد ہے۔بے روزگاری بڑھنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آئینی ترامیم کے بعد اب غیر کشمیری بھی وہ ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں جن پر پہلے صرف مقامیوں کا ہی حق تھا۔پن بجلی کا گھر ہونے کے باوجود وادی میں روزانہ کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ روزمرہ زندگی کا لازما ہے۔
ہزاروں لوگ دو ہزار انیس کے بعد سے گرفتار ہیں اور مقامی صحافت پر شدید نگرانی ہے۔ ریاست میں ایمرجنسی قوانین کے تحت حکومت کی جاتی ہے۔ان قوانین کے تحت فوج اور پولیس کو سیکیورٹی آپریشنز کے نام پر کھلی چھوٹ ہے۔
اگرچہ آئین کے مطابق ریاستی اسمبلی ٹوٹنے کے چھ ماہ کے اندر انتخابات کروانا لازمی ہے۔مگر جموں و کشمیر میں پچھلے پانچ برس سے مسلسل گورنر راج ہے۔ سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے کہ اس برس ستمبر تک ریاستی اسمبلی کے انتخابات لازماً ہو جانے چاہئیں۔
حال ہی میں مودی حکومت نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت جموں کے پہاڑی لوگوں کو بھی پسماندہ ذات قرار دے کر مقامی ملازمتوں اور تعلیمی کوٹے میں شامل کر دیا گیا۔اس قانون کے خلاف گجر اور بکروال برادری احتجاج کر رہی ہیں کیونکہ انھیں اپنے بچوں کا تعلیمی و روزگاری مستقبل خطرے میں لگ رہا ہے۔
پہاڑی برادری میں وہ ہندو اور سکھ بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو تقسیم کے بعد پاکستانی علاقوں سے ہجرت کر کے جموں میں آباد ہوئے اور ریاست کی آبادی میں ان کا تناسب آٹھ فیصد ہے۔ ان برادریوں کی معاشی حالت گجر اور بکروال مسلم برادری کے مقابلے میں بہتر ہونے کے باوجود انھیں پسماندہ طبقات کے کوٹے میں شامل کر دیا گیا۔
کشمیری کسان پہلے سے کہیں زیادہ ناراض و بے بس ہے۔سیب کی پیداوار کشمیری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ستائیس فیصد آبادی کی روزی روٹی سیب کے باغات سے وابستہ ہے۔ریاست کی کل قومی آمدنی میں سیب کی فروخت کا حصہ آٹھ فیصد ہے۔لگ بھگ پینتیس لاکھ کسان چھوٹے چھوٹے باغات کے مالک ہیں یا ان میں کام کرتے ہیں۔
سیب کے کسان کی اوسط سالانہ آمدنی پانچ لاکھ روپے ہے جس سے ان کسانوں کی سالانہ بنیادی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔مگر اب انھیں ریلوے لائن کی تعمیر سے بقائی خطرہ لاحق ہے۔
بھارت اور کشمیر کے درمیان واحد رابطہ درہِ بانی حال سے گذرنے والی سڑک ہے مگر یہ موسمِ سرما میں اکثر برفباری سے بند ہو جاتی ہے۔چنانچہ اب سال بھر کھلا رکھنے کے لیے کشمیر کو باقی بھارت سے ریل کے ذریعے جوڑا جا رہا ہے۔وادی میں ایک سو نوے کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے۔اس میں سے ستتر کلومیٹر لائن اننت ناگ ، بج بہارا اور پہلگام سیکشن سے گذرے گی۔یہی علاقہ سیب کا مرکز بھی ہے۔
مگر ان کسانوں سے حکومت من مانے داموں پر زمین ہتھیا رہی ہے۔فی الحال حکومت کو ریلوے منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے لگ بھگ سات سو ایکڑ زمین درکار ہے۔ منصوبے کی تکمیل تک سیب کے زیادہ تر درخت کٹ جائیں گے۔ریلوے لائن باقی بھارت سے سرمایہ کاری اور روزگار کی تلاش میں آنے والے مسافر ڈھوئے گی اور مقامی کسانوں میں بے روزگاری بڑھے گی۔
کئی باغات کے مالکان کو اپنی ہی زمین پر کام کرنے سے منع کر دیا گیا ہے اور وہاں سرکاری ملکیت کے پتھر لگا دیے گئے ہیں۔مالکوں کو باغ کی ایک فصل کے برابر قیمت یکمشت دینے کی پیش کش ہے۔اس کے بعد وہ اپنی روزی روٹی کہاں سے کماتے ہیں یہ سوچنا سرکار کا دردِ سر نہیں۔
اب آپ کو شاید اندازہ ہو گیا ہو کہ بی جے پی نے وادی کی تینوں سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے میں کیوں دلچسپی نہیں لی۔
اس بار وادی میں ایک نیا انتخابی عنصر دیکھنے میں آ رہا ہے۔سری نگر کی نشست پر دو ہزار انیس کے الیکشن میں ڈھائی فیصد ووٹ پڑے تھے۔تیرہ مئی کو یہاں اوسطاً اڑتیس فیصد ووٹ پڑے جو انیس سو نواسی کے بعد کسی الیکشن میں نہیں پڑے۔اس بار آزادی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ کی روائیتی اپیل بھی نہیں کی گئی۔تو کیا اس کا مطلب ہے کہ کشمیری جدوجہد تھک گئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔
ووٹرز کہتے ہیں کہ مسلح جدوجہد کے بعد اب ہم بیلٹ بکس کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ووٹ کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے فیصلے کو مسترد کرنے کا ووٹ ہے۔بی جے پی کو '' غصہ براستہ بیلٹ بکس '' کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے اس نے وادی میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی جرات نہیں کی۔بارہ مولا کی نشست پر بیس تاریخ کو اور اننت ناگ کی نشست پر پچیس مئی کو پولنگ ہو گی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
مگر کشمیر کی حیثیت بدلنے کے لیے آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کی تنسیخ کے نتیجے میں ترقی کے راستے کھولنے کے دعوی کے باوجود بی جے پی نے وادی کی تینوں نشستوں پر اپنا امیدوار کھڑا کرنے کی جرات نہیں کی۔
خدشہ یہ تھا کہ یہ انتخاب کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے بارے میں ایک ریفرنڈم ثابت ہو گا اور یہاں یقینی ہار کی صورت میں وہ سارا پروپیگنڈہ بی جے پی کے منہ پر جا پڑتا کہ ہم نے پانچ اگست دو ہزار انیس کو ریاست کے دو ٹکڑے کر کے دراصل جموں و کشمیر و لداخ کی ترقی کا راستہ کھول دیا۔
اس بار وادی سے الیکشن نہ لڑنے کی کھسیانی تاویل بھارتی وزیرِ داخلہ اور مودی کے دستِ راست امیت شاہ نے یہ پیش کی کہ بی جے پی دراصل یہاں کے لوگوں کا دل جیتنا چاہتی ہے۔ اسے فی الحال وادی میں کنول کا پھول ( بی جے پی کا انتخابی نشان ) کھلانے کی کوئی جلدی نہیں۔
وادی میں اصل مقابلہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ہے۔دونوں جماعتیں آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے کے خلاف ہیں۔دونوں بی جے پی مخالف اتحاد انڈیا میں شامل ہیں مگر کشمیر میں وہ ایک دوسرے کی انتخابی مدِ مقابل ہیں۔
اس وقت کشمیر میں بے روزگاری کا تناسب ساڑھے اٹھارہ فیصد ہے جب کہ باقی بھارت میں ساڑھے سات فیصد ہے۔بے روزگاری بڑھنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آئینی ترامیم کے بعد اب غیر کشمیری بھی وہ ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں جن پر پہلے صرف مقامیوں کا ہی حق تھا۔پن بجلی کا گھر ہونے کے باوجود وادی میں روزانہ کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ روزمرہ زندگی کا لازما ہے۔
ہزاروں لوگ دو ہزار انیس کے بعد سے گرفتار ہیں اور مقامی صحافت پر شدید نگرانی ہے۔ ریاست میں ایمرجنسی قوانین کے تحت حکومت کی جاتی ہے۔ان قوانین کے تحت فوج اور پولیس کو سیکیورٹی آپریشنز کے نام پر کھلی چھوٹ ہے۔
اگرچہ آئین کے مطابق ریاستی اسمبلی ٹوٹنے کے چھ ماہ کے اندر انتخابات کروانا لازمی ہے۔مگر جموں و کشمیر میں پچھلے پانچ برس سے مسلسل گورنر راج ہے۔ سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے کہ اس برس ستمبر تک ریاستی اسمبلی کے انتخابات لازماً ہو جانے چاہئیں۔
حال ہی میں مودی حکومت نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت جموں کے پہاڑی لوگوں کو بھی پسماندہ ذات قرار دے کر مقامی ملازمتوں اور تعلیمی کوٹے میں شامل کر دیا گیا۔اس قانون کے خلاف گجر اور بکروال برادری احتجاج کر رہی ہیں کیونکہ انھیں اپنے بچوں کا تعلیمی و روزگاری مستقبل خطرے میں لگ رہا ہے۔
پہاڑی برادری میں وہ ہندو اور سکھ بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو تقسیم کے بعد پاکستانی علاقوں سے ہجرت کر کے جموں میں آباد ہوئے اور ریاست کی آبادی میں ان کا تناسب آٹھ فیصد ہے۔ ان برادریوں کی معاشی حالت گجر اور بکروال مسلم برادری کے مقابلے میں بہتر ہونے کے باوجود انھیں پسماندہ طبقات کے کوٹے میں شامل کر دیا گیا۔
کشمیری کسان پہلے سے کہیں زیادہ ناراض و بے بس ہے۔سیب کی پیداوار کشمیری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ستائیس فیصد آبادی کی روزی روٹی سیب کے باغات سے وابستہ ہے۔ریاست کی کل قومی آمدنی میں سیب کی فروخت کا حصہ آٹھ فیصد ہے۔لگ بھگ پینتیس لاکھ کسان چھوٹے چھوٹے باغات کے مالک ہیں یا ان میں کام کرتے ہیں۔
سیب کے کسان کی اوسط سالانہ آمدنی پانچ لاکھ روپے ہے جس سے ان کسانوں کی سالانہ بنیادی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔مگر اب انھیں ریلوے لائن کی تعمیر سے بقائی خطرہ لاحق ہے۔
بھارت اور کشمیر کے درمیان واحد رابطہ درہِ بانی حال سے گذرنے والی سڑک ہے مگر یہ موسمِ سرما میں اکثر برفباری سے بند ہو جاتی ہے۔چنانچہ اب سال بھر کھلا رکھنے کے لیے کشمیر کو باقی بھارت سے ریل کے ذریعے جوڑا جا رہا ہے۔وادی میں ایک سو نوے کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے۔اس میں سے ستتر کلومیٹر لائن اننت ناگ ، بج بہارا اور پہلگام سیکشن سے گذرے گی۔یہی علاقہ سیب کا مرکز بھی ہے۔
مگر ان کسانوں سے حکومت من مانے داموں پر زمین ہتھیا رہی ہے۔فی الحال حکومت کو ریلوے منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے لگ بھگ سات سو ایکڑ زمین درکار ہے۔ منصوبے کی تکمیل تک سیب کے زیادہ تر درخت کٹ جائیں گے۔ریلوے لائن باقی بھارت سے سرمایہ کاری اور روزگار کی تلاش میں آنے والے مسافر ڈھوئے گی اور مقامی کسانوں میں بے روزگاری بڑھے گی۔
کئی باغات کے مالکان کو اپنی ہی زمین پر کام کرنے سے منع کر دیا گیا ہے اور وہاں سرکاری ملکیت کے پتھر لگا دیے گئے ہیں۔مالکوں کو باغ کی ایک فصل کے برابر قیمت یکمشت دینے کی پیش کش ہے۔اس کے بعد وہ اپنی روزی روٹی کہاں سے کماتے ہیں یہ سوچنا سرکار کا دردِ سر نہیں۔
اب آپ کو شاید اندازہ ہو گیا ہو کہ بی جے پی نے وادی کی تینوں سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے میں کیوں دلچسپی نہیں لی۔
اس بار وادی میں ایک نیا انتخابی عنصر دیکھنے میں آ رہا ہے۔سری نگر کی نشست پر دو ہزار انیس کے الیکشن میں ڈھائی فیصد ووٹ پڑے تھے۔تیرہ مئی کو یہاں اوسطاً اڑتیس فیصد ووٹ پڑے جو انیس سو نواسی کے بعد کسی الیکشن میں نہیں پڑے۔اس بار آزادی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ کی روائیتی اپیل بھی نہیں کی گئی۔تو کیا اس کا مطلب ہے کہ کشمیری جدوجہد تھک گئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔
ووٹرز کہتے ہیں کہ مسلح جدوجہد کے بعد اب ہم بیلٹ بکس کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ووٹ کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے فیصلے کو مسترد کرنے کا ووٹ ہے۔بی جے پی کو '' غصہ براستہ بیلٹ بکس '' کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے اس نے وادی میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی جرات نہیں کی۔بارہ مولا کی نشست پر بیس تاریخ کو اور اننت ناگ کی نشست پر پچیس مئی کو پولنگ ہو گی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)