’ ہاسٹل میں محصور ہیں دوبارہ حملے کی اطلاعات ہیں ‘ بشکیک سے پاکستانی طلبا کے پیغامات

پانی اور کھانے پینے کی اشیا ختم، محصور طلبا کا اہل خانہ سے رابطہ، شہر قانت میں بھی بڑی تعداد میں طلبا پھنس گئے

(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب)

کرغزستان میں پھنسے اوکاڑہ، آزاد کشمیر، فورٹ عباس اور بدین کے طلبا کے پیغامات سامنے آگئے، وہ ہاسٹل میں محصور ہیں جہاں ان پر حملے ہوئے اور انہیں مارا پیٹا گیا جبکہ ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا بھی ختم ہوچکی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کرغزستان میں فسادات کے سبب پاکستانی طلبا خوف کے مارے اپنے ہاسٹل کے کمروں میں محصور ہوکر رہ گئے، انتظامیہ نے بھی انہیں ہاسٹل سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت کردی ہے لیکن ہاسٹل پر حملوں کا خدشہ ہے۔

اوکاڑہ کے طلبا

کرغزستان میں ہونے والوں ہنگاموں کی وڈیو اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے طلبا نے اپنے والدین کو بجھوا دیں جن میں مقامی شرپسند عناصر کو طلبا پر حملہ کرتے اور تشدد کرتے واضح دیکھا جا سکتا ہے۔

ارسلان حیدر نامی طالب علم نے اپنے والدین سے رابطہ کرکے بتایا کہ ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء ختم ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے طلبہ بہت پریشان ہیں۔ ارسلان حیدر کے بھائی بلال نے حکومت سے اپیل ہے کہ ان کے بھائی کو پاکستان پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔

ہاسٹلز میں محصور ہونے والے طلبہ و طالبات کے والدین نے وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ان کے بچوں وہاں تحفظ فراہم کیا جائے۔

کوٹلی کے طلبا

کرغستان میں کوٹلی کے تیس کے قریب طلبہ و طلبات مختلف ہاسٹلز میں محصور ہیں، متاثرہ طلبا نے اپنے اہل خانہ سے رابطے اور وڈیو پیغامات میں بتایا ہے کہ ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا ختم ہوگئی ہیں جبکہ پانی تک ان کی رسائی بھی بند کردی گئی ہے۔

متاثرہ طلبا کا کہنا ہے کہ مقامی طلبا کی جانب سے انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں مگر وہ ملک نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ان کے والدین انہیں قرض لے کر پڑھا رہے ہیں۔

طلبا کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی کو شدید خطرہ ہے اور رات کو دوبارہ حملہ کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغامات میں بتایا ہے کہ گذشتہ روز سے ہمیں ہراساں کیا جارہا ہے، حکومت ہماری مدد کرے۔

فورٹ عباس کے طلبا


دریں اثنا کرغیزستان میں فورٹ عباس کے پھنسے میڈیکل کے طلبا کا ایکسپریس نیوز نے یڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں محصور طالب علم ڈاکٹر محمد ساجد نے بتایا کہ طلبا سے موبائل چھین لیے گئے اور گرلز ہاسٹل میں جاکر پاکستانی لڑکیوں کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر محمد ساجد کا کہنا تھا کہ جب ہم ایمبیسی کال کر تے ہیں توان کا جواب آتا ہے کہ ہم نے پولیس کو بتا دیا ہے۔ جبکہ پولیس خود ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور وہ پوری پلاننگ کے ساتھ آئے ہیں۔

ایک اور طالب عبداللہ کمبوہ نے بتایا کہ فورٹ عباس کے 100 کے قریب طلبہ وطالبات بشکیک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے درجنوں پھنسے ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بشکیک میں پھنسے پاکستانی طلبا انہتائی پریشان ہیں اور ہم محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

عبداللہ کمبوہ کا کہنا تھا کہ کل سے مقامی لوگ غیر ملکی طلبا پر تشدد کر رہے ہیں، انہوں نے ہمار ے ہاسٹل میں آکر ہمیں مارا پیٹا جس کے نتیجے میں تین چار طالب علم زخمی بھی ہوئے ہیں۔

بدین کے طلبا

بشکیک کے ہاسٹل میں دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ بدین سے تعلق رکھنےو الے دو طلبا حارث اور عبداللہ بھی پھنس گئے ہیں۔

محصور طالب علم حارث نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستانی ایمبیسی ہمیں گھر پہنچانے میں مدد کرے۔ دوسری جانب ان طلبا کے پریشان والدین نے بھی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کے بچوں کو بحفاظت پاکستان پہنچایا جائے۔

شہر قانت میں بھی بڑی تعداد میں طلبا پھنس گئے

پاکستانی طلبا اور طالبات بشکیک سے 25 کلومیٹر دور شہر قانت میں پھنس گئے، بڑی تعداد میں اسٹوڈنٹس قانت میں موجود ہیں۔ پھنسے ہوئے اسٹوڈنٹس نے حکومت سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ، ہم لوگ قانت میں اپنے ہاسٹلز میں موجود ہیں۔

متاثرہ طالبات کا کہنا ہے کہ ہم لوگ بہت ڈرے ہوئے ہیں، یہاں لائٹس بھی آف کروا دی گئی ہیں، ایک ہی کمرے میں ہم سب موجود ہیں، گرمی بھی بہت لگ رہی ہے، ہمیں واپس نہیں آنے دیا جا رہا، ہماری یونیورسٹی ہمیں واپس نہیں آنے دے رہی۔

انہوں نے کہا کہ بشکیک میں زیادہ تر پاکستانی موجود ہیں، ان کو واپس آنے کی اجازت ہے، ہمیں ڈین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ آپ امتحانات ادھر ہی دیں گے، ہماری مدد کی جائے ہم واپس پاکستان آنا چاہتے ہیں، ہمارے ہاسٹل کے پیچھے سے مسلسل ہجوم کی آوازیں آ رہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں یہاں سے نکالا جائے۔

Load Next Story