معافی یا سزا
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سال گزر جانے اور واضح ثبوتوں کے باوجود مجرموں کو ابھی تک سزا نہیں مل سکی ہے
گزشتہ دنوں سانحہ نو مئی کو ایک سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں سانحے کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں ، پاک فوج سے اظہار یکجہتی کیا گیا، ملک پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔
9مئی کے ذمہ داروں کوکڑی سزا دینے، ملوث پارٹی پر پابندی لگانے کے مطالبے، مذمتی قراردادیں منظورکی گئیں، اسکولوں کے طلبہ نے ریلیوں میں پاک فوج کے حق میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا کہ 9 مئی کو پاک فوج اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی کوشش کی گئی، ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمارا جینا مرنا پاک فوج کے ساتھ ہے ، اپنے اداروں کو سر کا تاج سمجھتے ہیں، ایسی کسی بھی سیاسی جماعت یا این جی اوزکو پاک فوج پر بات نہیں کرنے دیں گے۔
9 مئی 2023ء کو بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے ردعمل میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ریاست اور قومی اتحاد کی علامتوں پر حملہ کیا ،توڑ پھوڑکی گھیراؤ جلائوکیا، جس کی آڑ میں ملک کی سلامتی کو خطرات سے دوچارکرنا تھا، جسے پاک فوج کی صبروتحمل اور حکمت عملی نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
اس دل خراش منظرکو پاکستانی قوم نے براہ راست الیکٹرونک میڈیا پر دیکھا جس سے محب وطن پاکستانی شہریوں کی دل آزاری ہوئی، اس سانحے کی تمام ویڈیوز آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں جس میں تمام چہرے واضح طور پر ظاہر ہیں مگر ایک سال گزر جانے کے باوجود کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ملی جس سے محب وطن پاکستانی شہری عدالتی نظام انصاف سے مایوس دکھائی دیتے ہیں جو کسی اور سازش سے بھی خطرناک امر ہے۔
محب وطن پاکستانی شہریوں میں اس بات کی تشویش پائی جاتی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ جو کھلا کھلم دن دہاڑے ڈنکے کی چھوٹ پر کیا گیا ہے تمام تر ناقابل تردید ثبوت کے باجود کیوں وہ اب تک سزا سے بچے ہوئے ہیں؟ تو اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ پاکستانی محب وطن شہریوں کوکیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ یہی کہ ایک شخص اور اس کی پارٹی عظیم طاقت ہے اور ہر شے پر مقدم ہے؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ خرابی کہاں ہے ؟ اس کی نشاندہی کی جائے اور اس کا تدارک کیا جائے ورنہ دیگر محب وطن پاکستانیوں کی یہ مایوسی زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے ۔
7مئی 2024ء کو پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس میں بجا طور پر کہا کہ 9مئی صرف افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں، یہ پورے پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے اورکھلے الفاظ میں یہ بات کہی کہ اگرکوئی سیاسی سوچ، لیڈر یا ٹولہ اپنی فوج پر حملہ آور ہو، قوم کے شہیدوں کی تضحیک کرے تو اس سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا، پی ٹی آئی سے کوئی ڈیل ہوئی ہے نہ ہوگی، انتشاری ٹولہ قوم کے سامنے سچے دل سے معافی مانگے اور تعمیری خدمت میں شامل ہو تو معافی مل سکتی ہے۔
پی ٹی آئی والوں نے باقی باتوں پر غور نہیں کیا صرف ایک لفظ معافی کا سہارا لے کر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ بات چیت جاری ہے، مذاکرات ہورہے ہیں، بس اب خان آزاد ہونے والا ہے۔ ان کی یہ خوش فہمی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی اس دوٹوک بات پر دم توڑگئی جو انہوں نے 9 مئی 2024ء کو کہی کہ 9 مئی تاریخ کا سیاہ باب ہے، جنھوں نے اس باب کو رقم کیا ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اورکرداروں کے ساتھ نہ کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ڈیل، وہ معصوم لوگ جو ان مجرمانہ عناصر کے مذموم سیاسی مقاصد کو نہیں سمجھ سکے اور جنھیں اس سانحے کے منصوبہ سازوں نے اپنی خواہشات کا ایندھن بنایا، ورغلائے ہوئے لوگوں کو عدلیہ کی جانب سے پہلے ہی شک کا فائدہ دیا جاچکا ہے، تاہم اس گھناؤنے منصوبے کے اصل رہنما جوکہ اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرتے ہیں کو اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔
آرمی چیف کی یہ بات قابل غور ہے جو انہوں نے ہیڈ کواٹرز میں گیریژن آفیسر سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ '' دشمن قوتیں اور ان کے سرپرست جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے ڈیجیٹل ٹیریئر ازم کر رہے ہیں اور مسلح افواج اور پاکستانی عوام کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں مگر قوم کی حمایت سے ان تمام قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا۔
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم جاری ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمن قوتیں پاکستان کے اندر سے پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی جوکہ ایک فتنہ بن چکا ہے، اسے کنٹرول کرنا پاکستان کے مفاد میں ہوگا ۔
دوسری طرف سات مئی کو سابق صدر عارف علوی نے پہلی بار اڈیالہ جیل میں بانی تحریک انصاف عمران خان سے دیگر مرکزی قیادت کے ہمراہ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی مظلوم کو نہیں، ظالم کو مانگنی چاہیے، سیاست میں مداخلت بند ہونی چاہیے،کیا ضرورت تھی پریس کانفرنس کی؟، عمران خان قربانیاں دینے کو تیار ہیں، پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ملوث ہوسکتے ہیں ( نو مئی کے حوالے سے )، مگر پوری پارٹی کچل دی گئی، فارم 47کی پیداوار حکومت کے ساتھ کیا بات کریں ؟ طاقت جس کے پاس ہے اسی کے ساتھ بات ہوسکتی ہے۔
آرمی چیف نے کہا تھا کہ نو مئی تاریخ کا سیا ہ باب ہے، جنھوں نے اس باب کو رقم کیا ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اورکرداروں کے ساتھ نہ کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ڈیل، نو مئی کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور مجرموں کو ملکی قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور نہ ہی انہیں قانون کی دھجیاں اڑانے کی اجازت دی جائے گی، اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ کسی سطح پر کسی سے بھی کوئی مذاکرات نہیں ہوئے نہ ہی ہورہے ہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں امکانات نظر آتے ہیں، لہٰذا معافی یا سزا کی صورت حال واضح ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سال گزر جانے اور واضح ثبوتوں کے باوجود مجرموں کو ابھی تک سزا نہیں مل سکی ہے یہ وہ چھبتا ہوا سوال ہے کہ جو پوری قوم اپنے آپ سے، حکومت سے اور ان اداروں سے جن پر ذمہ داری فرض کی گئی ہے پوچھ رہی ہے۔
9مئی کے ذمہ داروں کوکڑی سزا دینے، ملوث پارٹی پر پابندی لگانے کے مطالبے، مذمتی قراردادیں منظورکی گئیں، اسکولوں کے طلبہ نے ریلیوں میں پاک فوج کے حق میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا کہ 9 مئی کو پاک فوج اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی کوشش کی گئی، ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمارا جینا مرنا پاک فوج کے ساتھ ہے ، اپنے اداروں کو سر کا تاج سمجھتے ہیں، ایسی کسی بھی سیاسی جماعت یا این جی اوزکو پاک فوج پر بات نہیں کرنے دیں گے۔
9 مئی 2023ء کو بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے ردعمل میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ریاست اور قومی اتحاد کی علامتوں پر حملہ کیا ،توڑ پھوڑکی گھیراؤ جلائوکیا، جس کی آڑ میں ملک کی سلامتی کو خطرات سے دوچارکرنا تھا، جسے پاک فوج کی صبروتحمل اور حکمت عملی نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
اس دل خراش منظرکو پاکستانی قوم نے براہ راست الیکٹرونک میڈیا پر دیکھا جس سے محب وطن پاکستانی شہریوں کی دل آزاری ہوئی، اس سانحے کی تمام ویڈیوز آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں جس میں تمام چہرے واضح طور پر ظاہر ہیں مگر ایک سال گزر جانے کے باوجود کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ملی جس سے محب وطن پاکستانی شہری عدالتی نظام انصاف سے مایوس دکھائی دیتے ہیں جو کسی اور سازش سے بھی خطرناک امر ہے۔
محب وطن پاکستانی شہریوں میں اس بات کی تشویش پائی جاتی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ جو کھلا کھلم دن دہاڑے ڈنکے کی چھوٹ پر کیا گیا ہے تمام تر ناقابل تردید ثبوت کے باجود کیوں وہ اب تک سزا سے بچے ہوئے ہیں؟ تو اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ پاکستانی محب وطن شہریوں کوکیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ یہی کہ ایک شخص اور اس کی پارٹی عظیم طاقت ہے اور ہر شے پر مقدم ہے؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ خرابی کہاں ہے ؟ اس کی نشاندہی کی جائے اور اس کا تدارک کیا جائے ورنہ دیگر محب وطن پاکستانیوں کی یہ مایوسی زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے ۔
7مئی 2024ء کو پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس میں بجا طور پر کہا کہ 9مئی صرف افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں، یہ پورے پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے اورکھلے الفاظ میں یہ بات کہی کہ اگرکوئی سیاسی سوچ، لیڈر یا ٹولہ اپنی فوج پر حملہ آور ہو، قوم کے شہیدوں کی تضحیک کرے تو اس سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا، پی ٹی آئی سے کوئی ڈیل ہوئی ہے نہ ہوگی، انتشاری ٹولہ قوم کے سامنے سچے دل سے معافی مانگے اور تعمیری خدمت میں شامل ہو تو معافی مل سکتی ہے۔
پی ٹی آئی والوں نے باقی باتوں پر غور نہیں کیا صرف ایک لفظ معافی کا سہارا لے کر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ بات چیت جاری ہے، مذاکرات ہورہے ہیں، بس اب خان آزاد ہونے والا ہے۔ ان کی یہ خوش فہمی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی اس دوٹوک بات پر دم توڑگئی جو انہوں نے 9 مئی 2024ء کو کہی کہ 9 مئی تاریخ کا سیاہ باب ہے، جنھوں نے اس باب کو رقم کیا ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اورکرداروں کے ساتھ نہ کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ڈیل، وہ معصوم لوگ جو ان مجرمانہ عناصر کے مذموم سیاسی مقاصد کو نہیں سمجھ سکے اور جنھیں اس سانحے کے منصوبہ سازوں نے اپنی خواہشات کا ایندھن بنایا، ورغلائے ہوئے لوگوں کو عدلیہ کی جانب سے پہلے ہی شک کا فائدہ دیا جاچکا ہے، تاہم اس گھناؤنے منصوبے کے اصل رہنما جوکہ اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرتے ہیں کو اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔
آرمی چیف کی یہ بات قابل غور ہے جو انہوں نے ہیڈ کواٹرز میں گیریژن آفیسر سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ '' دشمن قوتیں اور ان کے سرپرست جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے ڈیجیٹل ٹیریئر ازم کر رہے ہیں اور مسلح افواج اور پاکستانی عوام کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں مگر قوم کی حمایت سے ان تمام قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا۔
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم جاری ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمن قوتیں پاکستان کے اندر سے پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی جوکہ ایک فتنہ بن چکا ہے، اسے کنٹرول کرنا پاکستان کے مفاد میں ہوگا ۔
دوسری طرف سات مئی کو سابق صدر عارف علوی نے پہلی بار اڈیالہ جیل میں بانی تحریک انصاف عمران خان سے دیگر مرکزی قیادت کے ہمراہ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی مظلوم کو نہیں، ظالم کو مانگنی چاہیے، سیاست میں مداخلت بند ہونی چاہیے،کیا ضرورت تھی پریس کانفرنس کی؟، عمران خان قربانیاں دینے کو تیار ہیں، پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ملوث ہوسکتے ہیں ( نو مئی کے حوالے سے )، مگر پوری پارٹی کچل دی گئی، فارم 47کی پیداوار حکومت کے ساتھ کیا بات کریں ؟ طاقت جس کے پاس ہے اسی کے ساتھ بات ہوسکتی ہے۔
آرمی چیف نے کہا تھا کہ نو مئی تاریخ کا سیا ہ باب ہے، جنھوں نے اس باب کو رقم کیا ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اورکرداروں کے ساتھ نہ کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ڈیل، نو مئی کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور مجرموں کو ملکی قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور نہ ہی انہیں قانون کی دھجیاں اڑانے کی اجازت دی جائے گی، اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ کسی سطح پر کسی سے بھی کوئی مذاکرات نہیں ہوئے نہ ہی ہورہے ہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں امکانات نظر آتے ہیں، لہٰذا معافی یا سزا کی صورت حال واضح ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سال گزر جانے اور واضح ثبوتوں کے باوجود مجرموں کو ابھی تک سزا نہیں مل سکی ہے یہ وہ چھبتا ہوا سوال ہے کہ جو پوری قوم اپنے آپ سے، حکومت سے اور ان اداروں سے جن پر ذمہ داری فرض کی گئی ہے پوچھ رہی ہے۔