زبان
انسان جذبات کی رو میں بہہ کر وہ باتیں کہہ دیتا ہے جو اخلاق سے گری ہوئی ہوتی ہیں
خالق کائنات نے ہمارے منہ کے اندر گوشت کا جو ایک پتلا سا ٹکڑا رکھا ہے جو زبان کہلاتا ہے بڑی عجیب چیز ہے۔ اس پر قابو رکھنا انتہائی اہم ہے کیونکہ اگر یہ پھسل جائے تو کچھ سے کچھ ہوسکتا ہے۔
اسی لیے اسے بتیس دانتوں پر مشتمل زنداں خانہ میں مقید رکھا گیا ہے۔ بزرگوں کی نصیحت ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ بعض لوگوں کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے جس کے نتائج بہت خوفناک ہوتے ہیں۔ منہ سے نکلا ہوا میٹھا بول شیرینی گھول دیتا ہے جب کہ اس کے برعکس کوئی کڑوا لفظ زہر گھول دیتا ہے۔ خاطر غزنوی کا شعر ہے۔
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
جہاں دیدہ مفکر اور مصنف ڈیل کارنیگی نے اپنی مشہور و معروف تصنیف کا عنوان''میٹھے بول میں جادو ہے''بہت غور و فکر کرنے کے بعد رکھا ہے۔ مشاہدے نے ثابت کیا ہے کہ گوشت کا یہ لوتھڑا''شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے'' خنجر کے لگائے ہوئے زخم دیر یا سویر مندمل ہوسکتے ہیں لیکن زبان کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوتے۔
سیانوں نے زبان کے معاملے میں انتہائی محتاط ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ چناچہ اچھے تعلقات قائم کرنے اور انھیں برقرار رکھنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت اہم ہے۔ بقول میر انیسؔ:
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم!
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو!
میر انیسؔ کا یہ سادہ سا شعر اپنی معنویت کے لحاظ سے ایک بحر ِ بے کنار ہے۔ ہمارے ایک بزرگ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میاں اگر منہ ٹیڑھا ہے تو کم سے کم اپنی زبان تو سیدھی رکھو۔
زباں شیریں ملک گیری
زباں ٹیڑھی ملک بانکا
غصّہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان جذبات کی رو میں بہہ کر وہ باتیں کہہ دیتا ہے جو اخلاق سے گری ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ عام آدمی کی بات نہیں بلکہ اس کیفیت میں ہم نے بڑے بڑوں کو مبتلا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ طیش میں آکر انسان کے منہ سے ایسی باتیں نکل پڑتی ہیں جو اسے زیب نہیں دیتیں اور جس کی وجہ سے اسے زندگی بھر پچھتانا پڑتا ہے لیکن منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔
مغل سلطنت کے آخری تاجدار اور شاعر بے بدل بہادر شاہ ظفر ؔنے اپنے اس شعر میں اسی بات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے:
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب زبان و بیان پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ آداب مجلس میں ادب و آداب کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ جاہل اور پڑھے لکھے انسان کا فرق اس کی زبان سے صاف ظاہر ہوتا تھا، اگر کسی کی زبان شرافت اور تہذیب کے معیار پر پوری نہیں اُترتی تھی تو خواہ وہ کتنا بھی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو اس کے بارے میں یہی کہا جاتا تھا کہ اس نے ساری کتابیں گدھے پر لادی ہیں۔
ایک کہاوت ہے''تخم تاثیر صحبت کا اثر۔'' انسان کے کردار کا اندازہ اس کی صحبت کے حوالہ سے کیا جاتا تھا۔ دیکھا یہ جاتا تھا کہ آدمی کس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اور اس کے اردگرد کا ماحول کیسا تھا۔ اچھی صحبت کے اثرات چند منٹوں میں ہی نمایاں ہوجاتے تھے۔ نشست و برخواست سے انسان کا پورا خاکہ عیاں ہوجاتا تھا۔ وقت کی گردش نے زبوں حالی کی انتہا کردی ہے۔ دوستی تو کُجا دشمنی کا معیار بھی انتہائی پستی کی نذر ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے یہ شعر یاد آرہا ہے۔
دوستی پر ہی نہیں ہے موقوف
دشمنی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
بُرے سے برے اور بڑے سے بڑے دشمن کے گھر میں کسی کی وفات پر سب سے پہلا شریک غم وہ شخص ہوا کرتا تھا جسے دشمن سمجھا جاتا تھا۔ معاشرے کا تانا بانا بکھر چکا ہے اور ترقی کے نام پر انسان روز بروز پستی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
بڑا آدمی اسے کہا جاتا ہے جس کے پاس دولت ہو خواہ وہ کتنا ہی بے فیض کیوں نہ ہو۔ بھگت کبیر کا یہ دوہا یاد آرہا ہے:
بڑا ہوا تو کیا ہوا، جیسے پیڑ کھجور
پنتھی کو چھایا نہیں، پھل لاگے اتی دور
ہم سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے۔ دوسروں کے گناہوں اور عیبوں کا شور مچا کے اپنے اعمال کا وزن بڑھانے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی زبان کی ڈائٹینگ کی طرف توجہ دیں۔
مغل شہزادہ جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں ایک خواجہ سرا کو فارسی میں گدھا کہہ دیا۔ یہ بات اکبر بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے شہزادہ کو طلب کرلیا۔ شہزادہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔
اکبر نے اُس سے کہا'' شیخو کمہار اور بادشاہ کی زبان میں فرق ہونا چاہیے'' شہزادہ نے جواب دیا''ابا حضور میری زبان پھسل گئی تھی'' بادشاہ نے کہا''بیٹا جو شخص اپنی دو تولہ کی زبان قابو میں نہیں رکھ سکتا دو لاکھ کوس وسیع سلطنت کیسے قابو میں رکھے گا؟ بادشاہت زبان سے شروع ہوتی ہے اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔ زبان کو لگام دینا سیکھو، سلطنت خود بخود لگام میں آجائے گی۔''
جاتے جاتے زبان کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یاد آرہی ہے کہ ہمارے بچپن میں بزرگ بچوں کی تربیت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے انھیں جھوٹ بولنے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جو بھی جھوٹ بولتا ہے اس کی زبان کالی ہوجاتی ہے اور جھوٹ فوراً پکڑ لیا جاتا ہے۔
اسی لیے اسے بتیس دانتوں پر مشتمل زنداں خانہ میں مقید رکھا گیا ہے۔ بزرگوں کی نصیحت ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ بعض لوگوں کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے جس کے نتائج بہت خوفناک ہوتے ہیں۔ منہ سے نکلا ہوا میٹھا بول شیرینی گھول دیتا ہے جب کہ اس کے برعکس کوئی کڑوا لفظ زہر گھول دیتا ہے۔ خاطر غزنوی کا شعر ہے۔
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
جہاں دیدہ مفکر اور مصنف ڈیل کارنیگی نے اپنی مشہور و معروف تصنیف کا عنوان''میٹھے بول میں جادو ہے''بہت غور و فکر کرنے کے بعد رکھا ہے۔ مشاہدے نے ثابت کیا ہے کہ گوشت کا یہ لوتھڑا''شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے'' خنجر کے لگائے ہوئے زخم دیر یا سویر مندمل ہوسکتے ہیں لیکن زبان کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوتے۔
سیانوں نے زبان کے معاملے میں انتہائی محتاط ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ چناچہ اچھے تعلقات قائم کرنے اور انھیں برقرار رکھنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت اہم ہے۔ بقول میر انیسؔ:
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم!
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو!
میر انیسؔ کا یہ سادہ سا شعر اپنی معنویت کے لحاظ سے ایک بحر ِ بے کنار ہے۔ ہمارے ایک بزرگ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میاں اگر منہ ٹیڑھا ہے تو کم سے کم اپنی زبان تو سیدھی رکھو۔
زباں شیریں ملک گیری
زباں ٹیڑھی ملک بانکا
غصّہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان جذبات کی رو میں بہہ کر وہ باتیں کہہ دیتا ہے جو اخلاق سے گری ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ عام آدمی کی بات نہیں بلکہ اس کیفیت میں ہم نے بڑے بڑوں کو مبتلا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ طیش میں آکر انسان کے منہ سے ایسی باتیں نکل پڑتی ہیں جو اسے زیب نہیں دیتیں اور جس کی وجہ سے اسے زندگی بھر پچھتانا پڑتا ہے لیکن منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔
مغل سلطنت کے آخری تاجدار اور شاعر بے بدل بہادر شاہ ظفر ؔنے اپنے اس شعر میں اسی بات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے:
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب زبان و بیان پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ آداب مجلس میں ادب و آداب کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ جاہل اور پڑھے لکھے انسان کا فرق اس کی زبان سے صاف ظاہر ہوتا تھا، اگر کسی کی زبان شرافت اور تہذیب کے معیار پر پوری نہیں اُترتی تھی تو خواہ وہ کتنا بھی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو اس کے بارے میں یہی کہا جاتا تھا کہ اس نے ساری کتابیں گدھے پر لادی ہیں۔
ایک کہاوت ہے''تخم تاثیر صحبت کا اثر۔'' انسان کے کردار کا اندازہ اس کی صحبت کے حوالہ سے کیا جاتا تھا۔ دیکھا یہ جاتا تھا کہ آدمی کس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اور اس کے اردگرد کا ماحول کیسا تھا۔ اچھی صحبت کے اثرات چند منٹوں میں ہی نمایاں ہوجاتے تھے۔ نشست و برخواست سے انسان کا پورا خاکہ عیاں ہوجاتا تھا۔ وقت کی گردش نے زبوں حالی کی انتہا کردی ہے۔ دوستی تو کُجا دشمنی کا معیار بھی انتہائی پستی کی نذر ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے یہ شعر یاد آرہا ہے۔
دوستی پر ہی نہیں ہے موقوف
دشمنی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
بُرے سے برے اور بڑے سے بڑے دشمن کے گھر میں کسی کی وفات پر سب سے پہلا شریک غم وہ شخص ہوا کرتا تھا جسے دشمن سمجھا جاتا تھا۔ معاشرے کا تانا بانا بکھر چکا ہے اور ترقی کے نام پر انسان روز بروز پستی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
بڑا آدمی اسے کہا جاتا ہے جس کے پاس دولت ہو خواہ وہ کتنا ہی بے فیض کیوں نہ ہو۔ بھگت کبیر کا یہ دوہا یاد آرہا ہے:
بڑا ہوا تو کیا ہوا، جیسے پیڑ کھجور
پنتھی کو چھایا نہیں، پھل لاگے اتی دور
ہم سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے۔ دوسروں کے گناہوں اور عیبوں کا شور مچا کے اپنے اعمال کا وزن بڑھانے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی زبان کی ڈائٹینگ کی طرف توجہ دیں۔
مغل شہزادہ جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں ایک خواجہ سرا کو فارسی میں گدھا کہہ دیا۔ یہ بات اکبر بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے شہزادہ کو طلب کرلیا۔ شہزادہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔
اکبر نے اُس سے کہا'' شیخو کمہار اور بادشاہ کی زبان میں فرق ہونا چاہیے'' شہزادہ نے جواب دیا''ابا حضور میری زبان پھسل گئی تھی'' بادشاہ نے کہا''بیٹا جو شخص اپنی دو تولہ کی زبان قابو میں نہیں رکھ سکتا دو لاکھ کوس وسیع سلطنت کیسے قابو میں رکھے گا؟ بادشاہت زبان سے شروع ہوتی ہے اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔ زبان کو لگام دینا سیکھو، سلطنت خود بخود لگام میں آجائے گی۔''
جاتے جاتے زبان کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یاد آرہی ہے کہ ہمارے بچپن میں بزرگ بچوں کی تربیت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے انھیں جھوٹ بولنے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جو بھی جھوٹ بولتا ہے اس کی زبان کالی ہوجاتی ہے اور جھوٹ فوراً پکڑ لیا جاتا ہے۔