میاں نواز شریف کا قوم سے گلہ
میاں صاحب گزشتہ چاربرس لندن میں خود ساختہ جلاو طنی کی زندگی گزارتے رہے
میاں نواز شریف ملک کے سینئر ترین سیاستدان ہیں اور وہ سیاست کے میدان کارزار میں ہر طرح کے نشیب و فراز سے گزرے ہیں۔ جہاں ان پر اقتدار کی دیوی مہربان رہی، وہیں وہ پابند سلاسل بھی رہے ہیں ۔
سیاست کا طویل سفر انھوں نے بڑی کامیابی سے طے کیا ہے۔ پنجاب کے وزیر خزانہ سے شروع ہونے والا سفر وزیر اعلیٰ پنجاب سے ان کے تین دفعہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی جاری ہے۔ وہ آج بھی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے پسندیدہ سیاسی رہنماء ہیں اور ان کی سیاسی میدان میں موجودگی ہی نواز لیگ کی سب سے بڑی طاقت اورکامیابی ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ نواز لیگ کی بقاء اور مستقبل کا سیاسی سفر نواز شریف کی وجہ سے ہی ممکن ہو پائے گا۔
میاں صاحب گزشتہ چاربرس لندن میں خود ساختہ جلاو طنی کی زندگی گزارتے رہے لیکن جیسے ہی انتخابات کا میدان سجا، وہ ملک واپس پہنچ گئے کیونکہ ان کی موجودگی کے بغیر نواز لیگ کی الیکشن مہم وہ رنگ نہ جما پاتی جو ان کی موجودگی کی وجہ سے ممکن ہو سکی ۔
الیکشن مہم میں ان کے چوتھی بار بطور وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے ان کے پاس کوئی ایسا جاندار بیانیہ نہیں تھا جو تحریک انصاف کی محبت میں جکڑے عوام کو ان کی جانب راغب کر سکتا حالانکہ ان کی سیاسی مخالف جماعت تحریک انصاف کو الیکشن مہم میں بہت مشکلات رہیں اور اس کے امیدوار جو کہ مختلف کیسوں میں ملوث تھے، اپنی روپوشی کی وجہ سے ووٹروں سے براہ راست رابطہ بھی نہ کر سکے لیکن اس سب کے باوجود الیکشن کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی جماعت کسی سیاسی سہارے کے بغیر حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل نہ کر سکی اور یوں میاں نواز شریف بوجہ چوتھی بار وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قاصر رہے۔
میاں صاحب کو اس بات کا ادراک ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے قائم کی گئی حکومت میں بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور وہ اب شاید عمر کے اس حصے میں مزید قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ البتہ انھوں نے جیسے تیسے نواز لیگ کے ماضی کے سیاسی گڑھ پنجاب کی حکومت سنبھالنے کو ترجیح دی اور آج ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب کی کرسی پر متمکن ہیں ا ور وہ خود بطور رہبر پس منظر میں رہ کر پنجاب میںنواز لیگ کی ٹمٹماتی سیاست کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے سیاسی اور حکمرانی تجربے کی بنیاد پر پرُ اُمید نظر آتے ہیں کہ وہ دوبارہ پنجاب کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اس مشن میں وہ کس حد تک کامیاب ہو تے ہیں اس کا فیصلہ تو ہم سب کے سامنے آجائے گا لیکن اس مشن کی کامیابی کے لیے انھیں اپنی جماعت کی تشکیل نو کرنی ہے جس کا انھوں نے آغاز کر دیا ہے اور پہلے مرحلے میں وہ 28 مئی یوم تکبیر کے روز دوبارہ اپنی جماعت کے صدارت سنبھالنے جا ر ہے ہیں جس پرپارٹی کے موجودہ صدر اور ان کے برادر خورد وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تبصرہ کیا ہے کہ ماضی میں نواز شریف کوپارٹی صدارت سے ہٹا کر بہت ظلم کیا گیا تھا۔
میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، وہ شاید واحد سیاست دان ہیں جو حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔ نواز لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میںانھوں نے کہا کہ وہ خود چل کے اپنے سیاسی حریف عمران خان کے پاس بنی گالا گئے تھے اور ان کے پینتیس پنکچر کے الزامات کی حقیقت بتا کر ان کو ساتھ چلنے کی پیشکش کی تھی لیکن عمران خان نے صرف بنی گالا کی سڑک بنوانے پر ہی اکتفا کیا اور بعد ازاں انھوں نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا اور حکومت کو ایک مبینہ سازش کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔
میاں نواز شریف نے سیاسی خاموشی توڑی ہے اور ملک تباہ کرنے والوں کے احتساب کی بات کی ہے۔ ان کا اشارہ ملک کی مقتدر قوتوں کی جانب ہے۔ لیکن دونوں کی بد قسمتی ہے کہ وہ ان غیر سیاسی قوتوں کے بل بوتے پر ہی حکومتیں حاصل کرتے ہیں، پھر ان کی مداخلت کا شکوہ کرتے ہیں ۔
میاں نواز شریف نے پاکستانی عوام سے بھی گلہ کیا ہے کہ جب بھی مجھے ہٹایا گیا تو قوم خاموش بیٹھی رہی، اس سے پہلے بھی کئی دفعہ میاں صاحب یہ بات کہہ چکے ہیں کہ قوم نعرہ لگاتی رہی کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، میں نے قدم بڑھائے لیکن جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ساتھ نہیں تھا۔
میاں صاحب کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ قوم مشکل وقت میں ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتی، انھیںسب سے پہلے اپنی حکمرانی کے ادوار پر غوروفکر کرنا چاہیے کہ اس دوران ان سے کیا غلطیاں ہوئیں ،جس روز میاں صاحب کو خود احتسابی کے بعد اپنے اس گلے کا جواب مل گیا ،ان کا پاکستانی عوام سے گلہ دور ہو جائے گا ۔
سیاست کا طویل سفر انھوں نے بڑی کامیابی سے طے کیا ہے۔ پنجاب کے وزیر خزانہ سے شروع ہونے والا سفر وزیر اعلیٰ پنجاب سے ان کے تین دفعہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی جاری ہے۔ وہ آج بھی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے پسندیدہ سیاسی رہنماء ہیں اور ان کی سیاسی میدان میں موجودگی ہی نواز لیگ کی سب سے بڑی طاقت اورکامیابی ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ نواز لیگ کی بقاء اور مستقبل کا سیاسی سفر نواز شریف کی وجہ سے ہی ممکن ہو پائے گا۔
میاں صاحب گزشتہ چاربرس لندن میں خود ساختہ جلاو طنی کی زندگی گزارتے رہے لیکن جیسے ہی انتخابات کا میدان سجا، وہ ملک واپس پہنچ گئے کیونکہ ان کی موجودگی کے بغیر نواز لیگ کی الیکشن مہم وہ رنگ نہ جما پاتی جو ان کی موجودگی کی وجہ سے ممکن ہو سکی ۔
الیکشن مہم میں ان کے چوتھی بار بطور وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے ان کے پاس کوئی ایسا جاندار بیانیہ نہیں تھا جو تحریک انصاف کی محبت میں جکڑے عوام کو ان کی جانب راغب کر سکتا حالانکہ ان کی سیاسی مخالف جماعت تحریک انصاف کو الیکشن مہم میں بہت مشکلات رہیں اور اس کے امیدوار جو کہ مختلف کیسوں میں ملوث تھے، اپنی روپوشی کی وجہ سے ووٹروں سے براہ راست رابطہ بھی نہ کر سکے لیکن اس سب کے باوجود الیکشن کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی جماعت کسی سیاسی سہارے کے بغیر حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل نہ کر سکی اور یوں میاں نواز شریف بوجہ چوتھی بار وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قاصر رہے۔
میاں صاحب کو اس بات کا ادراک ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے قائم کی گئی حکومت میں بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور وہ اب شاید عمر کے اس حصے میں مزید قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ البتہ انھوں نے جیسے تیسے نواز لیگ کے ماضی کے سیاسی گڑھ پنجاب کی حکومت سنبھالنے کو ترجیح دی اور آج ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب کی کرسی پر متمکن ہیں ا ور وہ خود بطور رہبر پس منظر میں رہ کر پنجاب میںنواز لیگ کی ٹمٹماتی سیاست کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے سیاسی اور حکمرانی تجربے کی بنیاد پر پرُ اُمید نظر آتے ہیں کہ وہ دوبارہ پنجاب کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اس مشن میں وہ کس حد تک کامیاب ہو تے ہیں اس کا فیصلہ تو ہم سب کے سامنے آجائے گا لیکن اس مشن کی کامیابی کے لیے انھیں اپنی جماعت کی تشکیل نو کرنی ہے جس کا انھوں نے آغاز کر دیا ہے اور پہلے مرحلے میں وہ 28 مئی یوم تکبیر کے روز دوبارہ اپنی جماعت کے صدارت سنبھالنے جا ر ہے ہیں جس پرپارٹی کے موجودہ صدر اور ان کے برادر خورد وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تبصرہ کیا ہے کہ ماضی میں نواز شریف کوپارٹی صدارت سے ہٹا کر بہت ظلم کیا گیا تھا۔
میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، وہ شاید واحد سیاست دان ہیں جو حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔ نواز لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میںانھوں نے کہا کہ وہ خود چل کے اپنے سیاسی حریف عمران خان کے پاس بنی گالا گئے تھے اور ان کے پینتیس پنکچر کے الزامات کی حقیقت بتا کر ان کو ساتھ چلنے کی پیشکش کی تھی لیکن عمران خان نے صرف بنی گالا کی سڑک بنوانے پر ہی اکتفا کیا اور بعد ازاں انھوں نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا اور حکومت کو ایک مبینہ سازش کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔
میاں نواز شریف نے سیاسی خاموشی توڑی ہے اور ملک تباہ کرنے والوں کے احتساب کی بات کی ہے۔ ان کا اشارہ ملک کی مقتدر قوتوں کی جانب ہے۔ لیکن دونوں کی بد قسمتی ہے کہ وہ ان غیر سیاسی قوتوں کے بل بوتے پر ہی حکومتیں حاصل کرتے ہیں، پھر ان کی مداخلت کا شکوہ کرتے ہیں ۔
میاں نواز شریف نے پاکستانی عوام سے بھی گلہ کیا ہے کہ جب بھی مجھے ہٹایا گیا تو قوم خاموش بیٹھی رہی، اس سے پہلے بھی کئی دفعہ میاں صاحب یہ بات کہہ چکے ہیں کہ قوم نعرہ لگاتی رہی کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، میں نے قدم بڑھائے لیکن جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ساتھ نہیں تھا۔
میاں صاحب کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ قوم مشکل وقت میں ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتی، انھیںسب سے پہلے اپنی حکمرانی کے ادوار پر غوروفکر کرنا چاہیے کہ اس دوران ان سے کیا غلطیاں ہوئیں ،جس روز میاں صاحب کو خود احتسابی کے بعد اپنے اس گلے کا جواب مل گیا ،ان کا پاکستانی عوام سے گلہ دور ہو جائے گا ۔