غزہ میں جارحیت اسرائیل پر عالمی دباؤ میں اضافہ

دنیا کو آج مشترکہ مسائل کے مشترکہ حل کے لیے زیادہ موثر طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے

دنیا کو آج مشترکہ مسائل کے مشترکہ حل کے لیے زیادہ موثر طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ فوٹو : فائل

امریکی کانگریس نے نیتن یاہو کے وارنٹ کے خدشے پر آئی سی سی کے خلاف پابندیوں پر غور شروع کردیا ہے، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں بمباری اور گولہ باری کر کے مزید 85 فلسطینیوں کو شہید اور دو سو کو زخمی کردیا ہے۔ ادھر پاکستان نے او آئی سی کی طرف سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے ہونے والی نشست کو بتایا کہ او آئی سی توسیع شدہ سلامتی کونسل میں ایسی کسی تجویز کو قبول نہیں کرے گی جس میں اسلامی امہ کی متناسب نمایندگی کو یقینی نہ بنایا جائے گا۔

اس وقت مسلسل اسرائیلی حملوں کے باعث غزہ میں امدادی سامان اور ایندھن کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ اسرائیل پچھلے 8 ماہ سے غزہ میں اپنی وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اسرائیل کو غزہ کے عام شہریوں پر حملے کرنے کی وجہ سے عالمی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اکتوبر 2023سے اب تک غزہ پر اسرائیل کے سفاکانہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم 35 ہزار سے زائد افراد شہید اور 79 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق رفح سے انخلا کرنیوالے فلسطینیوں کی تعداد اب 8 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزرے ایک ہفتے میں 360,000 افراد غزہ کے جنوبی شہر رفح سے انخلا کر چکے ہیں، جہاں اسرائیل کی مسلسل بمباری سے امداد کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ اور مغربی کنارے کے لیے 2.8 ارب ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔

دراصل غزہ میں جس رفتار سے لوگوں کی شہادت ہوئی ہے، اس کی موجودہ صدی میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ جو لوگ ہلاک یا زخمی ہونے سے بچ گئے ہیں انھیں خوراک، صاف پانی، ادویات اور طبی سہولیات کی غیر موجودگی کے باعث جان کا خطرہ ہے۔ روزانہ بڑی تعداد میں خواتین انتہائی ہولناک حالات میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ انھیں دوران زچگی بے ہوش کرنے کا انتظام نہیں ہوتا اور ضروری طبی مدد بھی میسر نہیں آتی۔ چھوٹے بچے ماؤں کی گود میں دم توڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کے لیے دودھ میسر نہیں ہے۔ خوراک یا پانی کی قلت بھی بڑی تعداد میں بچوں کی اموات کا اہم سبب ہے۔

دوسری جانب رفح پر اسرائیلی حملوں کے خلاف درخواست پر عالمی عدالت انصاف میں سماعت جاری ہے، جنوبی افریقہ کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ رفح پر اسرائیلی حملوں نے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں۔ یہ بات درست سہی کہ گرفتاری کے وارنٹ ابھی جاری نہیں ہوئے ہیں، تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق گرفتاری کی درخواست ہی '' نیتن یاہو کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے اور اس سے اسرائیل کی غزہ کے متعلق حکمت عملی کی عالمی تنقید کو شہ ملے گی۔'' اسرائیل آئی سی سی کا رکن نہیں ہے۔

اس سلسلے میں قیاس آرائیاں تو گزشتہ چند ہفتوں سے ہورہی تھیں اور خود بنجامن نیتن یاہو نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا تاہم جب گزرے پیر کو عالمی فوجداری عدالت (ICC) میں غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کی گرفتاری کی درخواست دائر کی گئی تو امریکا اور اسرائیل میں آسمان ٹوٹ پڑا۔ نیتن یاہو اور گلانٹ جن جنگی جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں ان میں فاقہ کشی کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے، غزہ باسیوں کو بھوکا مارنے، امدادی ساز و سامان کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے اور جان بوجھ کر شہری آبادی پر حملے کرنے کے جرائم بھی شامل ہیں۔

جنوری میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کو جنوبی افریقہ نے اس بات کے اچھے خاصے شواہد فراہم کر دیے تھے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کو امید تھی کہ امریکا کے دباؤ کے سامنے عالمی عدالت بے بس ہوجائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2015میں فلسطین کو عالمی فوجداری عدالت نے رکنیت دے دی تھی۔

اس لیے تکنیکی طور پر اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسرائیلی شہریوں کے ان جرائم کی تحقیقات کرسکتا ہے جن کا ارتکاب مقبوضہ فلسطینی علاقوں مثلاً مغربی کنارہ، غزہ اور مشرقی یروشلم میں کیا گیا ہو۔ ابھی تک عالمی عدالت نے افریقہ یا روس کے حکمرانوں کے خلاف گرفتاری کے پروانے جاری کیے تھے۔ آئی سی سی کو پچھلے چند ہفتوں سے اس ممکنہ اقدام سے باز رکھنے کے لیے اسرائیل اور امریکا سخت دھمکیاں دے رہے تھے۔


امریکی پارلیمنٹ کے ری پبلیکن اراکین نے کریم خان کو ایک خط لکھ کر یہ کھلی وارننگ دی تھی '' اسرائیل کو نشانہ بناؤگے تو ہم تمہیں نشانہ بنائیں گے'' اہم بات یہ ہے کہ آئی سی سی نے 2020 میں افغانستان میں امریکا اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے ذریعے ممکنہ جنگی جرائم کے ارتکاب کی تحقیقات شروع کی تو چراغ پا ہوکر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی عدالت پر پابندیاں عائد کردی تھیں، لیکن جب بائیڈن صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے ان پابندیوں کو '' غیر مناسب اور غیر موثر'' قرار د ے کر اٹھا لیا تھا۔

اب اگر بائیڈن آئی سی سی پر تادیبی کارروائی کرتے ہیں تو ان کی جگ ہنسائی ہوگی، اس طرح کے اقدام سے ساری دنیا میں یہ پیغام بھی جائے گا کہ سپر پاور اور اس کے دوست ممالک ہر ایسی تحقیقات کی راہ مسدود کرسکتے ہیں جنھیں وہ اپنے جیو پالیٹیکل مفادات کے منافی سمجھتے ہیں۔ تل ابیب میں نیتن یاہو حکومت نے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی'' تاریخی رسوائی'' کہا تو واشنگٹن میں جو بائیڈن نے اسے '' اشتعال انگیزی'' قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عالمی عدالت کے پراسیکوٹر جو بھی چاہے سوچیں اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی موازنہ ہوہی نہیں سکتا۔

آئی سی سی دنیا کی واحد عدالت ہے جو کسی فرد پر جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا مقدمہ چلا سکتی ہے۔ عدالت کے پاس اپنی ملٹری یا پولیس نہیں ہے اس لیے وہ مجرموں کی گرفتاری کا پروانہ تو جاری کرسکتی ہے لیکن ان کی گرفتاری کے لیے اسے اپنے رکن ممالک پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔

ابھی چیف پراسیکوٹر نے گرفتاری کی استدعا کی ہے۔ اب ان کی درخواست پر آئی سی سی کے جج غور کریں گے اور یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ وارنٹ کی درخواست کو منظوری مل جائے گی۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم یا وزیر دفاع دی ہیگ میں عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے تاہم اگر وارنٹ جاری ہوگئے تو ان کا صرف علامتی اثر نہیں ہوگا بلکہ اس سے ان لیڈروں کی بین الاقوامی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوگی۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کی اصلاحات پر رکن ریاستیں تقسیم کا شکار ہیں جن میں جی 4 ممالک بھارت، برازیل، جرمنی اور جاپان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشستوں میں اضافے کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ پاکستان اور اٹلی کی قیادت میں اتفاق رائے کے لیے اتحاد ( یو ایف سی) نامی گروپ مستقل ممبران کی تعداد میں اضافے کی مخالفت کر رہا ہے۔ سلامتی کونسل اس وقت 5 مستقل رکن ممالک برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکا جب کہ 10غیر مستقل اراکین پر مشتمل ہے۔

سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت اور ویٹو پاور جن ممالک کو حاصل ہے، ان میں دنیا کی ایک ربع کے لگ بھگ آبادی اور ساٹھ کے قریب مستقل حکومتیں رکھنے والے عالم اسلام کو ایک نشست بھی حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے عالمی فیصلوں میں عدم توازن کی مستقل کیفیت دکھائی دے رہی ہے اور مسلم ممالک کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ دیگر ممالک سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا قانونی حق رکھتے ہیں تو یہ حق مسلم ممالک بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان مسلم امہ کی قیادت کا اہل ہے۔ پاکستان کو بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت سے مسلم امہ کی ایک مستقل نشست دی جائے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں صرف مسلم ممالک میں انسان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیوں نظر آتی ہیں؟ اقوام متحدہ کے بینر تلے سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں توسیع اور درجہ بندی وہ عوامل ہیں جن سے مسلم امہ کو بلاکوں کی صورت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ عالم اسلام کو اس کی آبادی اور رکن ممالک کے تناسب سے سلامتی کونسل میں نشستیں دی جائیں اور یہ مستقل رکنیت نمائشی اور غیر اختیاری نہ ہو بلکہ ویٹو پاور کے ساتھ ہو کیونکہ اس کے بغیر توازن اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

دنیا کو آج مشترکہ مسائل کے مشترکہ حل کے لیے زیادہ موثر طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، دنیا آج ایک دوراہے پر پہنچ گئی ہے اور اگر دنیا بھر کے رہنما آج ایک سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے تو تاریخ ان کے بارے میں انتہائی سخت فیصلہ صادر کرے گی، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے جمہوری کردار کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ فاتح اور مفتوح کا تاثر ختم ہوسکے، اقوام متحدہ کی عزت و حرمت بحال ہوسکے، جو امتیازی طرز عمل اور حکمت عملی کے سبب مجروح ہوچکی ہے، اقوام عالم میں آزادی، خود مختاری اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا حوصلہ پیدا ہوسکے، ویٹو کے خاتمے سے آمریت کو ختم کرکے جمہوریت قائم کی جاسکے تاکہ اقوام متحدہ جمہوری انداز سے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرسکے۔ مفادات کے حصول کے لیے جابرانہ عمل کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ جنگ برائے امن کے استحصالی نعرے کو ختم کرکے عالمی ادارے کے زیر سایہ جارحیت کے عمل کو ختم کیا جاسکے۔
Load Next Story