’’گرمی کی لہر‘‘ سے بچاؤ کے طریقے

احتیاطی تدابیر سے آپ اپنی اور پیاروں کی زندگیاں محفوظ بنا سکتے ہیں

احتیاطی تدابیر سے آپ اپنی اور پیاروں کی زندگیاں محفوظ بنا سکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

پچھلے ڈیرھ دو سو برس سے رکازی ایندھن کے بکثرت استعمال نے ہماری زمین کا درجہ حرارت بڑھا دیا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بڑھتا درجہ حرارت کرہ ارض کی آب و ہوا اور موسم بدل رہا ہے۔

اسی لیے کثیر بارشیں ہونے اور شدید گرمی یا سردی پڑنے کے عجوبے جنم لے چکے۔ مثلاً حالیہ ماہ اپریل میں پاکستان تیز بارشوں کی زد میں رہا حالانکہ اس مہینے عموماً زوردار بارشیں نہیں ہوتیں۔ ان کی وجہ سے بلوچستان اور خیبرپختون خواہ میں سیلاب آ گئے جنھوں نے جانی ومالی نقصان پہنچایا۔ اب یہ خبر ہے کہ پنجاب وسندھ کے صوبوں پر آنے والے دنوں میں ''گرمی کی لہر'' (Heat wave) حملہ آور رہے گی۔

گرمی کی لہر بھی آب وہوائی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ اس وقت جنم لیتی ہے جب ایک ملک یا وسیع خطے میںہوا کا ''زیادہ دباؤ علاقہ'' (High-pressure area) پیدا ہو جائے۔ اس علاقے میں ہوا کا دباؤ پڑوسی علاقوں میں چلتی ہوا سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماضی میں ایسے زیادہ دباؤ علاقے بہت کم جنم لیتے تھے۔ مگر اب یہ آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے اکثر ممالک کو نشانہ بنانے لگے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں: سرد اور گرم۔

جب قطبین کے قریب زیادہ دباؤ والا علاقہ جنم لے تو یہ ''سرد''کہلاتا ہے۔تب یہ اپنے علاقے میں درجہ حرارت بہت زیادہ گرا کے خون جما دینے والی شدید سردی پیدا کر دیتا ہے۔یہ عجوبہ امریکا، کینیڈا و قطبین کے اردگرد واقع دیگر ملکوں میں سامنے آ چکا۔ خط استوا کے ممالک میں ''گرم '' زیادہ دباؤ والے علاقے پیدا ہوتے ہیں۔ تب علاقے میں معمول سے پانچ چھ سینٹی گریڈ زیادہ گرمی پڑتی ہے۔ اور اگر علاقے میں حد سے زیادہ نمی یا اس کی شدید کمی واقع ہو جائے تو یہ صورت حال جانداروں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔

عام طور پہ سرد یا گرم زیادہ دباؤ والے علاقے دو دن سے لے کر ایک ماہ تک برقرار رہتے ہیں۔ اگر ان کی مدت بڑھ جائے تو ظاہر ہے، ان کے دائرے میں آنے والی انسانی بستیوں میں روزمرہ زندگی شدید طور پہ متاثرہوتی ہے۔ خاص طور پہ بچے، بوڑھے اور امراض قلب یا ذیابیطس میں مبتلا مرد وزن کمزور جسمانی مدافعتی نظام کی وجہ سے بیمار ہو سکتے ہیں۔ خدانخواستہ کسی کو جلد طبی امداد نہ ملے تو وہ مر بھی سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے، گرمی کی کی لہر ہو یا سردی کی، اس کی لپیٹ میں آ کر بہت سے انسان چل بستے ہیں۔آب و ہوائی تبدیلیوں کے بطن سے گویا ایک انسان دشمن خطرناک قدرتی آفت پیدا ہو چکی۔

انسانی جسم پہ اثرات

گرمی کی لہر پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں زیادہ بلند درجہ حرارت کی وجہ سے کروڑوں ہم وطنوں کی جانیں خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ وہ معاشی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔ تاہم انسانی صحت براہ راست اس کی زد پر ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا جسم فطری طور پہ 37 سینٹی گریڈ درجہ حرارت رکھتا ہے۔ جب گرمی بڑھنے سے یہ درجہ حرارت بھی بڑھ جائے تو اسے کم کرنے کی خاطر ہمارا جسمانی نظام خون کی نالیاں پھیلا دیتا ہے تاکہ خون میں موجود گرمی جلد سے بصورت پسینہ باہر نکل جائے۔ اس عمل سے مگر لو بلڈ پریشر یعنی خون کا کم دباؤ بھی جنم لیتا ہے۔ اس صورت حال میں دل کو پورے جسم، خاص طور پہ دماغ تک خون پہنچانے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ اس حالت میں دماغ تک کم خون پہنچتا ہے، اسی لیے انسان کو چکر آنے لگتے ہیں اور دماغی قوت کم ہو جاتی ہے۔

تین طبی کیفیات

غرض گرمی کی لہر والے ماحول میں انسان پہلے لو بلڈ پریشر کا نشانہ بنتا ہے۔ پھر پسینے کی شکل میں جسم سے نمکیات اور دیگر محلول نکل جاتے ہیں۔ اگر انسان لو بلڈ پریشر سے چھٹکارا نہ پائے اورپانی وغذا سے بھی دور رہے تو وہ سب سے پہلے ایک طبی حالت ''گرمی اینٹھن'' (Heat cramp)کا شکار ہو جاتا ہے۔اس حالت میں جسم کے مختلف سوج کر حصّے پھول جاتے ہیں۔ غشی کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔

گرمی اینٹھن کچھ عرصہ برقرار رہے تو وہ اگلی سخت طبی حالت، ''گرمی ناتوانی''(Heat exhaustion) میں بدل جاتی ہے۔ اس طبی حالت کی علامات یہ ہیں:

٭جسم پہ سرخ دھبے پڑنا جہاں خارش بھی ہوتی ہے۔٭ پیر سوج جانا٭ چکر آنا٭ متلی ٭گھبراہٹ ٭عضلات میں درد ٭سر درد ٭بہت زیادہ پسینہ آنا اور٭تھکن و کمزوری محسوس ہونا۔ اگر یہ علامات برقرار رہیں تو ہارٹ اٹیک یا حملہ قلب ہو سکتا ہے کیونکہ انسانی جسمانی نظام قدرتی درجہ حرارت پانے کے لیے پورا زور لگا دیتا ہے۔اگر اس پہ دباؤ حد سے زیادہ بڑھ جائے تو وہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔

گرمی کی لہر سے جنم لینے والی آخری سخت طبی حالت ''گرمی اسٹروک ''(Heat stroke) ہے۔ اس کیفیت میں شدید بخار چڑھ جاتا ہے اور انسان اپنے حواس میں نہیں رہتا۔

گرمی کی لہر سے کیسے محفوظ رہیں

درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے آپ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں محفوظ بنا سکتے ہیں:

٭ کھلے کپڑے پہنیے اور باہر نکلیں تو سر پہ ٹوپی لیں۔ یا چھتری استعمال کیجیے۔ ممکن ہو تو چہرے پہ ایسی کریم لگا لیں جو دھوپ کی تپش سے آپ کو محفوظ رکھے۔

٭ وقفے وقفے سے تھوڑی مقدار میں کھانا کھائیے اور پانی پیجیے۔ بہتر ہے کہ کھانا شوربے والا ہو۔ اگر پیاس نہیں لگ رہی تب بھی پانی نوش کریں۔ پروٹین والی غذائیں زیادہ مقدار میں نہ کھائیے۔ نیز باسی کھانے سے بھی پرہیز کیجیے۔

٭ کمرے میں رہیے اور ضرورت کے قوت ہی باہر نکلیے۔دوپہر کو نکلنے سے گریز کریں۔


٭ پنکھے، اے سی، معتدل سرد پانی اور غسل کی مدد سے اپنے جسم کا درجہ حرارت اعتدال پر رکھیے۔ اگر زیادہ گرمی لگے تو مسجد یا شاپنگ مال جا سکتے ہیں جہاں اے سی چلنے کے باعث عموماً ماحول ٹھنڈا ہوتا ہے۔

٭ چائے ، کافی اور بوتلیں زیادہ مقدار میں نہ لیں کہ یہ جسمانی خشکی پیدا کر سکتی ہیں۔

٭ گھر کی کھڑکیوں اور دروازوں پہ پردے لٹکائیے تاکہ باہر سے گرمی اندر نہ آ سکے۔

٭ گہرے رنگ کے لباس زیب تن نہ کریں کہ وہ گرمی جذب کرتے ہیں۔

٭ باہر جائیں تو پانی کی بوتل ساتھ رکھیں۔

٭ گیارہ بجے سے تین بجے کے دوران دھوپ میں کم سے کم جائیے کہ تب اس کی شدت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

٭ بچوں اور جانوروں کو پارک کی ہوئی گاڑی میں مت چھوڑئیے۔نیز ان کو دوپہر میں پارک میں کھیلنے نہ دیں۔

٭ ممکن ہو تو گھر میں درخت لگوائیے۔یہ قدرتی طور پہ گھر کو ٹھنڈا رکھیں گے۔

اگر کوئی نشانہ بن جائے!

جیسا کہ بتایا گیا، بچے، بوڑھے اور مریض گرمی کی لہر والے ماحول میں اس کیفیت سے منسلک طبی عوارض کا آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں۔لہذا انھیں بچاؤ کی تدابیر لازماً اختیار کرنی چاہیئں۔ خدانخوستہ کوئی پیارا ''گرمی ناتوانی ''یا ''گرمی اسٹروک'' کا شکار ہو جائے تو بحالی ِ صحت کے لیے درج ذیل اقدامات کیجیے:

}...اس کو فوراً ٹھنڈی جگہ لے جائیے۔

} ... ہموار جگہ لٹا دیجیے اور پیر تھوڑے سے بلند رکھیے۔

} ... اس کو کثیر مقدار میں پانی پلائیے۔ پھلوں کا رس بھی دے سکتے ہیں۔ تاہم بوتلیں نہ پلائیے۔

} ... جسم سرد کرنے کی کوشش کیجیے۔مثلاً جسم پہ ٹھنڈا پانی اسپرے کیجیے اور دستی پنکھے یا کسی کتاب وغیرہ سے ہوا دیجیے۔ ممکن ہو تو بغلوں اور گردن پہ کولڈ پیکس رکھیئے۔ جلد کو گیلایا نم رکھنا ضروری ہے۔

اگر آدھے گھنٹے کے اندر اندر انسان کی طبیعت سنبھل جائے تو وہ صحت یاب ہونے لگتا ہے۔ مگر حالت مسلسل خراب رہے تو اسے جلد اسپتال لے جائیے۔ کیونکہ آدھے گھنٹے بعد مریض گرمی ناتوانی یا پھر گرمی اسٹروک کا نشانہ بن جاتا ہے۔ گرمی اسٹروک چمٹ جانے کی ایک نمایاں نشانی یہ ہے کہ مریض بلند درجہ حرارت میں بھی پسینہ خارج نہیں کرتا۔ نیز بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اسے دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔

ساحلی علاقوں کے مکین

قبل ازیں بتایا گیا، ہمارا جسم پسینہ نکال کر خود کو ٹھنڈا کرتا ہے۔مگر ماحول میں زیادہ نمی موجود ہو تو پسینہ نہیں آتا۔ یوں ٹھنڈک کا جسمانی نظام بے اثر ہو جاتا ہے۔کراچی ،گوادر، پسنی، بدین وغیرہ سمندر کے قریب واقع ہیں۔ اس لیے ان مقامات میں گرمی کی لہر آئے تو عموماً فضا میں نمی بھی بڑھ جاتی ہے۔اس کیفیت میں محض 38 سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت بھی خطرناک بن جاتا ہے کیونکہ انسان پسینہ نکال کر اپنا جسمانی درجہ حرارت کم نہیں کر پاتا۔اس لیے کراچی اور پاکستان کے دیگر ساحلی مقامات پر بستے ہم وطنوں کو گرمی کی لہر سے محفوظ رہنے کے لیے خاص احتیاطیں اختیار کرنا چاہئیں۔
Load Next Story