سافٹ امیج چکنا چور

ماڈل ٹاؤن کے سانحے سے پنجاب حکومت کی اچھی طرزِ حکومت کے نفاذ کے دعوے کی قلعی کھل گئی۔

tauceeph@gmail.com

ماڈل ٹاؤن کے سانحے سے پنجاب حکومت کی اچھی طرزِ حکومت کے نفاذ کے دعوے کی قلعی کھل گئی۔ اس سانحے میں ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کے جائزے سے واضح ہو گیا کہ مسلم لیگ حکومت میں انتہاپسند سوچ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کسی بھی متعلقہ فریق کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت دے کر اور عدالتی کمیشن قائم کر کے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

پنجاب پولیس کا یہ بیان کہ ماڈل ٹاؤن میں طاہر القادری کے گھر اور دفتر کے سامنے سے بیریئرز ہٹانے کے لیے کارروائی کی گئی اور عمارت سے ہونے والی مزاحمت کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کی گئی۔ جس کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوئے سمجھ سے بالاتر ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے گزشتہ دنوں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 23 جون کو کینیڈا سے پاکستان آئیں گے، یوں موجودہ حکومت کے خاتمے کی تحریک چلے گی اور پھر ملک میں انقلاب آ جائے گا۔ ڈاکٹر قادری کے اس اعلان کو حکومت نے سنجیدگی سے لیا تھا۔

بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید احمد، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم متحد ہو کر مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔ اس تحریک کی قیادت مولاناطاہرالقادری کریں گے۔ یوں اسلام آباد ایئرپورٹ سے شروع ہونے والا کھیل پورے ملک میں پھیل جائے گا اور یہ تحریک مسلم لیگ ن کی حکومت کے اقتدار کو مختصر کر دے گی۔ بلوچستان کے قوم پرست رہنما محمود اچکزئی نے قومی اسمبلی میںتقریر کی کہ فوجی بوٹوں کی آوازیں آ رہی ہیں تو حکومت خوفزدہ ہو گئی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے اس قسم کی کسی تحریک کی حمایت نہ کرنے کا واضح اعلان کیا مگر محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن حکومت کے اکابرین اس معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے انتظامی طریقوں سے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔

ذرایع ابلاغ پر یہ خبر نشر ہوئی کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا جائے گا اور دوسرے طیارے سے کینیڈا واپس کر دیا جائے گا۔ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کیونکہ کینیڈا کے شہری ہیں اور سپریم کورٹ گزشتہ سال ان کی کینیڈین شہریت کی بناء پر الیکشن کمیشن کو غیر آئینی قرار دینے کی عرضداشت مسترد کر چکا ہے لہٰذا اسی اصول کی بناء پر انھیں پاکستان سے نکالا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام کی تحقیقات کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں۔ ان خبروں میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ملنے والے فنڈز منی لانڈرگ کے زمرے میں آتے ہیں۔

یوں ان کے خلاف فارن کرنسی ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید نے اپنی ممکنہ گرفتاری کی خبروں کو خوب اچھالا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے یہ کہنا شرو ع کر دیا تھا کہ ان کی گرفتاری سے میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہو گا۔ اسی وقت قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کی گرفتاری کی حماقت نہ کی جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں یہ دونوں رہنما مقدس ہیرو کا درجہ پا جائیں گے۔ مگر حکومت نے خورشید شاہ کے مشورے پر توجہ نہیں دی اور انتظامیہ کو استعمال کیا۔

یوں پنجاب پولیس نے سرد جنگ کے زمانے کے طریقہ کار کی یاد کو تازہ کیا۔ سرد جنگ کے دور میں پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں پولیس اور انتظامیہ کا بنیادی فریضہ سیاسی مخالفین کو کچلنا ہوتا تھا۔ ان ادوار میں سیاسی رہنماؤں کو مقدمہ چلائے بغیر برسوں نظر بند رکھا جاتا تھا۔ سیاسی کارکنوں پر تھانوں میں تشدد ہوتا تھا اور جو سیاسی کارکن اپنے عزائم بلند رکھتے تھے انھیں خفیہ ایجنسیوں کے سیف ہاؤس میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

جلسے جلوس منظم کرنے والے سیاسی کارکن جیل میں مہینوں اور برسوں گزارنے کے لیے تیار رہتے تھے، یوں انتظامیہ اور پولیس سیاسی سرگرمیوں کو کنٹرول کر کے نظامِ حکومت کو مستحکم رکھتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب وال چاکنگ کرنے اور پمفلٹ شایع کرنے پر کئی سال قید بامشقت کی سزائیں دی جاتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کا دور سرد جنگ کے زمانے کا بدترین دور تھا۔ اس دور میں ہزاروں سیاسی کارکنوں کو قید بامشقت کی سزا کے علاوہ کوڑوں کی سزائیں بھی دی گئی تھیں مگر یہ انتظامی اقدامات ان آمروں کے اقتدار کو دوام نہیں دے سکے۔


جب 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد مسلم لیگی رہنما محمد خان جونیجو وزیر اعظم مقرر ہوئے تو سرد جنگ کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ امریکا کے تھنک ٹینک جمہوری نظام کی اہمیت کو محسوس کر رہے تھے۔ جمہوری نظام کی بنیاد آزادی رائے پر ہے۔ پاکستان میں بھی بنیادی انسانی حقوق یعنی آزادئ رائے، آزادئ صحافت، تنظیم سازی کا حق اور جلسے جلوس منظم کرنے کے حقوق کا ذکر ہونے لگا۔ محمد خان جونیجو کی حکومت نے پہلی دفعہ سیاسی سرگرمیوں پر عائد تمام پابندیاں ختم کر دیں، پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو جلا وطنی ختم کر کے لاہور آئیں۔

لاہور ایئرپورٹ پر کئی لاکھ افراد نے بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال کیا۔ پھر تمام بڑے بڑے شہروں میں بے نظیر بھٹو کے شاندار استقبال ہوئے۔ جونیجو حکومت نے ان استقبالی جلسوں کو منظم کرنے میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا مکمل ساتھ دیا، یوں حکومت کے مخالف لاکھوں افراد کے ایئرپورٹ پر جمع ہونے اور بے نظیر بھٹو کے عظیم الشان جلسوں سے خطاب کے باوجود ملک میں کوئی سیاسی بحران پیدا نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری اور تیسری حکومتوں نے سیاسی آزادیوں اور آزادئ صحافت کا مکمل تحفظ کیا۔ بے نظیر بھٹو کے اقتدار کے دنوں میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بڑے بڑے جلسے کیے اور انتظامیہ نے بھرپور تعاون کیا۔

میاں نواز شریف بھی انسانی حقوق کی بالادستی کے تصور کو تقویت دینے لگے مگر میاں صاحب کے پہلے دورِ حکومت میں اے آر ڈی کے لانگ مارچ کے شرکاء پر اسلام آباد میں پولیس نے بہیمانہ تشدد کیا تھا۔ فاروق لغاری سمیت کئی رہنما پولیس تشدد کا شکار ہوئے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کراچی آئے تو ایم کیو ایم نے ان کے جلوس کو روکنے کے لیے مزاحمت کی، شہر کی مرکزی شاہرائوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں، بہت سے سیاسی کارکن ہلاک ہوئے۔

جنرل مشرف نے 12 مئی کی رات کو کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف کارروائی کو درست قرار دیا۔ پوری دنیا میں 12 مئی کے واقعے کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا گیا۔ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمی میں قائم ہوئی تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا اعادہ کیا۔ تمام جماعتوں کو دفتر قائم کرنے اور جلسے جلوسوں کی آزادی ملی۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے شدید سردی میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جمہوری رویے کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا۔

ڈاکٹر طاہر القادری کے حامی ایک معاہدے کے بعد منتشر ہوئے، یوں بغیر کسی تشدد اور انتظامی اختیارات استعمال کیے لاکھوں لوگ منتشر ہو گئے۔ ماڈل ٹائون سانحے کے بعد ایم کیو ایم نے 17 جون کی سہ پہر کراچی میں اگلے دن یوم سیاہ کا اعلان کیا ۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز سے اپیل کی کہ وہ 18 جون کو کاروبار بند رکھیں ، اس خبر کے نشر ہوتے ہی شہر میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی، شہر کی سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہونا شروع ہوئی، متعدد علاقوں میں پٹرول پمپ بند ہو گئے، لاکھوں لوگوں کو ہنگامی صورتحال میں گھروں کی طرف جانا پڑا یوں اہم سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا، شہری اس خوف میں مبتلا ہو گئے کہ ایک ماہ میں تیسری دفعہ شہر بند ہونے کے اثرات کتنے گہرے ہونگے۔

اس سانحے کے خلاف لاہور، اسلام آباد یا کسی بڑے شہر میں کسی سیاسی جماعت نے یوم سیاہ کی کال نہیں دی تھی صرف کراچی کا بند ہونا ایک خطرناک صورتحال تھی۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے صورتحال کا ادراک کیا اور 18 جو ن کو شہر کھلا رہا، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں سکون آیا، امید ہے کہ مستقبل میں بھی شہر کو بند کرانے کے تناظر میں ایم کیو ایم کی قیادت بصیرت کا ثبوت دے گی۔

پنجاب پولیس کی اس کارروائی سے مسلم لیگی حکومت کا سوفٹ امیج چکنا چور ہوا، اب مزید گرفتاریوں سے حالات مزید خراب ہونگے، حکومت کو تمام افراد کو رہا کرنا چاہیے اور تمام فریقوں کی تحقیقاتی ٹریبونل کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے مگر حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سرد جنگ کا دور ختم ہو چکا ہے، اب نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ کا کوئی تصور نہیں ہے، ڈاکٹر طاہر القادری کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ عسکری مقتدرہ کی حمایت سے منتخب حکومت کا خاتمہ ممکن نہیں اس کا حل عام انتخابات ہیں، سیاسی معاملات کو انتظامی طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
Load Next Story