کراچی کے باسی عدم تحفظ کا شکار …
ایسے مخدوش حالات میں کراچی کے باسیوں کے ذہنوں میں یہ سوال اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ ابھرتا رہاہے
اس تلخ حقیقت میں دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والا شہر کراچی اور اس کے باسی دونوں ہی برسابرس سے لاقانونیت، عصبیت، مذہبی انتہاء پسندی، فرقہ واریت، سیاسی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے باعث عدمِ تحفظ کی کیفیت سے دو چار نظر آتے ہیں۔
ایسے مخدوش حالات میں کراچی کے باسیوں کے ذہنوں میں یہ سوال اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ ابھرتا رہاہے کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کونے والے اس شہر کے لوگوں کو کیوں ظلم و بربریت، بھتہ مافیا، لاقانونیت اور ناانصافی کے مضبوط پاٹوں میں پیس کر اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر روز مرنے اور زخم زخم جینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ کیا یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے جو اس ملک کی استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
اس ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی چوہدراہٹ کو ٹف ٹائم دینے والی ملک کی تیسری اہم سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو توڑنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جو بلاشبہ آج اس ملک کے غریب و متوسط طبقے کی نمایندگی کرنے والی واحد جماعت کی حیثیت سے نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت اختیار کرتی جارہی ہے۔
غالباً یہ ہی وہ سب سے اہم وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت، اس کی ساکھ اور اس کی سیاسی قوت کو نقصان پہنچانے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی شہرت کو جھوٹ اور بے ایمانی پر مبنی انٹرنیشنل رپورٹ جاری کرکے داغدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لہذا ایم کیو ایم کے قائد کا بار بار اس ضمن میں اس خدشے کا اظہار کرنا غلط نہیں کہ ایم کیو ایم اور خود الطاف حسین کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کا جال بُننا جارہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب گزشتہ برس سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کے خلاف غیر اعلانیہ طور پر موڑ دیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے کارکنان، ذمے داران اور ہمدردوں کی غیر قانونی گرفتاریوں اور بغیر مقدمہ چلائے لاپتہ کارکنوں کا ماورائے عدالت قتلِ عام ملکی نہ صرف ملکی اداروں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے بالعموم اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لیے بالخصوص باعثِ ندامت ہے کہ وہ اس کھلے ظلم اور لاقانونیت کے بدترین مظاہروں پر خاموش ہیں ان کی یہ پر اسرار خاموشی تحریک اور قائدِ تحریک ایم کیو ایم کے لیے آنے والے خطرات کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ایم کیو ایم نے مجبوراً اپنے تمام یونٹس پر غیر معینہ مدت کے لیے تالے ڈال دیے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب اس شہر کے قابل ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرِ تعلیم، قانون داں وکلاء، اساتذہ اور تاجروں کو چن چن کر دہشت گرد اپنی گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے نشانے پر عام شہریوں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے رینجرز اور پولیس والے بھی ہیں۔ لیکن ریاست اور حکومت ہے کہ گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے جب کہ سندھ کی حکومت ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر اپنی سیاسی دشمنیاں نکال رہی ہے جبھی تو مجرموں، بھتہ خوروں اور گینگ مافیا کے بجائے بے گناہ شہریوں کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔ ان پر تشدد کے تمام انسانیت سوز اور سفاکانہ طریقے آزمائے جارہے ہیں تا کہ ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کروایا جائے۔
میڈیا پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ اپریل میں کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے۔ یہ اس ملک کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں کہ آج سب جمہوریت اور سسٹم کے تحفظ میں قدر گم ہیں کہ انھیں انسانوں کی موت کے المیے کو جانچنے اور پرکھنے کی فرطت نہیں۔ کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے بے گناہوں کا قتل ایک المیہ قرار پاتا ہے لیکن سیکڑوں اور ہزاروں کے تعداد میں ہونے والے قتل اعداد و شمار ہوتے ہیں شہر کراچی کے باسی بھی آج اسی اعداد و شمار کی فضاء میں بوجھل دل کے ساتھ زندگی کے خطرات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
51 فی صد ووٹ، دوتہائی اکثریت، تین صوبوں کی مذمتی قرارداد کا بوجھ جمہوریت کے نام پر اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے حکومتِ وقت اور صوبۂ سندھ کے شہر کراچی میں روزانہ آٹھ دس اور کبھی پندرہ بیس افراد کا قتلِ عام جیسے روکنے کا احساس اربابِ اختیار کے ضمیروں کو نہیں جھنجوڑتا۔ یہاں تک کہ ملک بھر میں تیس چالیس افراد بم دھماکوں میں مرجائیں تو پھر بھی سیاسی رہنماؤں کے جلسے جلوسوں، غیر ملکی دوروں اور سیاسی و نجی سطح پر ہونے والی پر تکلف تقریبات کو روکنے کا خیال نہیں آتا اور نہ ہی انتخابی تیاریوں کو ملتوی کرنے کا شعور ان کے ذہنوں میں جاگتا ہے۔ ان سب حکمرانوں اور رہنماؤں کو اس بات پر یقین ہے کہ زبان، برادری اور طاقت و دولت کے بل بوتے پر ان کی نشت پکی ہے۔
انھیں اس بات سے کیا غرض کہ روزانہ کتنے لوگوں کے دروازوں پر موت دستک دے رہی ہے، کتنی ماؤں کی گودیں اجڑرہی ہیں، کتنی بیویاں بیوائیں بن رہی ہیںکتنے بچے یتم ہورہے ہیں، کتنی بہنیں اپنے بھائیوں کے جواں لاشے پر بین کررہی ہیں، کتنے باپ اپنے بوڑھے کندھوں پر اپنے بوڑھاپے کی لاٹھی کو اٹھاکر سفرِ آخرت کی جانب روانہ کررہے ہیں۔ مگر حکمران ہیں کہ اپنے حال میں مست ہیں، ملک میں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر غیر جمہوری رویے اپنا رہے ہیں۔ کبھی کبھی یہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویے دراصل وہ گٹھیا اور ظالمانہ اندازِ فکر نے جو ہمارے حکمرانوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ جب کہ دوسری جانب دنیا آج ہمیںشدید اور مسائل کے بھنور میں پھنسی غیر ترقی یافتہ قوم کی صورت پہچانتی ہے۔
ایک مہذب اور ترقی پذیر معاشرے کے قیام کی روشن تعبیر حاصل کرنے کے لیے جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی سفر کا آغاز اسی امید پر کرتی ہیں کہ ان کی کاوشوں سے ملک و قوم کو ترقی اور خوش حالی کے میدانوں میں کامیابی ملے گی۔ جب جمہوریت کا فیض اس وقت ہی عوام تک پہنچایا جاسکے گا جہاں قانون کا احترام کروایا جائے گا، عدل و انصاف میا کیا جائے گا۔ لیکن ہمارے ملک کے لیے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ یہاں کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات میں قانون کے احترام اور اقدار کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔
اقتدار کی مدت کو طول دینے کے لیے تمام پر اخلاقیات اور انسانیت کے مظاہروں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ سیاسی جلسے اپنے سیاسی مخالفین کو پھچاڑنے کے اکھاڑے بنادیے جاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو پہنچتا ہے اور وہ جمہوری نظام کا مقابلہ آمرانہ نظام میں ملنے والی سہولتوں سے کرنے لگتے ہیں۔ آج اگر پاکستانی عوام کو جمہوریت کی ٹرین میں سوار کروا کر منزل تک پہنچانا ہے تو پھر اس ملک کے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے، ورنہ عوام انھیں گدی سے اتارنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔
ایسے مخدوش حالات میں کراچی کے باسیوں کے ذہنوں میں یہ سوال اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ ابھرتا رہاہے کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کونے والے اس شہر کے لوگوں کو کیوں ظلم و بربریت، بھتہ مافیا، لاقانونیت اور ناانصافی کے مضبوط پاٹوں میں پیس کر اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر روز مرنے اور زخم زخم جینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ کیا یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے جو اس ملک کی استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
اس ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی چوہدراہٹ کو ٹف ٹائم دینے والی ملک کی تیسری اہم سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو توڑنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جو بلاشبہ آج اس ملک کے غریب و متوسط طبقے کی نمایندگی کرنے والی واحد جماعت کی حیثیت سے نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت اختیار کرتی جارہی ہے۔
غالباً یہ ہی وہ سب سے اہم وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت، اس کی ساکھ اور اس کی سیاسی قوت کو نقصان پہنچانے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی شہرت کو جھوٹ اور بے ایمانی پر مبنی انٹرنیشنل رپورٹ جاری کرکے داغدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لہذا ایم کیو ایم کے قائد کا بار بار اس ضمن میں اس خدشے کا اظہار کرنا غلط نہیں کہ ایم کیو ایم اور خود الطاف حسین کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کا جال بُننا جارہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب گزشتہ برس سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کے خلاف غیر اعلانیہ طور پر موڑ دیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے کارکنان، ذمے داران اور ہمدردوں کی غیر قانونی گرفتاریوں اور بغیر مقدمہ چلائے لاپتہ کارکنوں کا ماورائے عدالت قتلِ عام ملکی نہ صرف ملکی اداروں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے بالعموم اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لیے بالخصوص باعثِ ندامت ہے کہ وہ اس کھلے ظلم اور لاقانونیت کے بدترین مظاہروں پر خاموش ہیں ان کی یہ پر اسرار خاموشی تحریک اور قائدِ تحریک ایم کیو ایم کے لیے آنے والے خطرات کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ایم کیو ایم نے مجبوراً اپنے تمام یونٹس پر غیر معینہ مدت کے لیے تالے ڈال دیے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب اس شہر کے قابل ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرِ تعلیم، قانون داں وکلاء، اساتذہ اور تاجروں کو چن چن کر دہشت گرد اپنی گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے نشانے پر عام شہریوں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے رینجرز اور پولیس والے بھی ہیں۔ لیکن ریاست اور حکومت ہے کہ گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے جب کہ سندھ کی حکومت ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر اپنی سیاسی دشمنیاں نکال رہی ہے جبھی تو مجرموں، بھتہ خوروں اور گینگ مافیا کے بجائے بے گناہ شہریوں کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔ ان پر تشدد کے تمام انسانیت سوز اور سفاکانہ طریقے آزمائے جارہے ہیں تا کہ ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کروایا جائے۔
میڈیا پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ اپریل میں کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے۔ یہ اس ملک کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں کہ آج سب جمہوریت اور سسٹم کے تحفظ میں قدر گم ہیں کہ انھیں انسانوں کی موت کے المیے کو جانچنے اور پرکھنے کی فرطت نہیں۔ کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے بے گناہوں کا قتل ایک المیہ قرار پاتا ہے لیکن سیکڑوں اور ہزاروں کے تعداد میں ہونے والے قتل اعداد و شمار ہوتے ہیں شہر کراچی کے باسی بھی آج اسی اعداد و شمار کی فضاء میں بوجھل دل کے ساتھ زندگی کے خطرات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
51 فی صد ووٹ، دوتہائی اکثریت، تین صوبوں کی مذمتی قرارداد کا بوجھ جمہوریت کے نام پر اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے حکومتِ وقت اور صوبۂ سندھ کے شہر کراچی میں روزانہ آٹھ دس اور کبھی پندرہ بیس افراد کا قتلِ عام جیسے روکنے کا احساس اربابِ اختیار کے ضمیروں کو نہیں جھنجوڑتا۔ یہاں تک کہ ملک بھر میں تیس چالیس افراد بم دھماکوں میں مرجائیں تو پھر بھی سیاسی رہنماؤں کے جلسے جلوسوں، غیر ملکی دوروں اور سیاسی و نجی سطح پر ہونے والی پر تکلف تقریبات کو روکنے کا خیال نہیں آتا اور نہ ہی انتخابی تیاریوں کو ملتوی کرنے کا شعور ان کے ذہنوں میں جاگتا ہے۔ ان سب حکمرانوں اور رہنماؤں کو اس بات پر یقین ہے کہ زبان، برادری اور طاقت و دولت کے بل بوتے پر ان کی نشت پکی ہے۔
انھیں اس بات سے کیا غرض کہ روزانہ کتنے لوگوں کے دروازوں پر موت دستک دے رہی ہے، کتنی ماؤں کی گودیں اجڑرہی ہیں، کتنی بیویاں بیوائیں بن رہی ہیںکتنے بچے یتم ہورہے ہیں، کتنی بہنیں اپنے بھائیوں کے جواں لاشے پر بین کررہی ہیں، کتنے باپ اپنے بوڑھے کندھوں پر اپنے بوڑھاپے کی لاٹھی کو اٹھاکر سفرِ آخرت کی جانب روانہ کررہے ہیں۔ مگر حکمران ہیں کہ اپنے حال میں مست ہیں، ملک میں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر غیر جمہوری رویے اپنا رہے ہیں۔ کبھی کبھی یہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویے دراصل وہ گٹھیا اور ظالمانہ اندازِ فکر نے جو ہمارے حکمرانوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ جب کہ دوسری جانب دنیا آج ہمیںشدید اور مسائل کے بھنور میں پھنسی غیر ترقی یافتہ قوم کی صورت پہچانتی ہے۔
ایک مہذب اور ترقی پذیر معاشرے کے قیام کی روشن تعبیر حاصل کرنے کے لیے جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی سفر کا آغاز اسی امید پر کرتی ہیں کہ ان کی کاوشوں سے ملک و قوم کو ترقی اور خوش حالی کے میدانوں میں کامیابی ملے گی۔ جب جمہوریت کا فیض اس وقت ہی عوام تک پہنچایا جاسکے گا جہاں قانون کا احترام کروایا جائے گا، عدل و انصاف میا کیا جائے گا۔ لیکن ہمارے ملک کے لیے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ یہاں کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات میں قانون کے احترام اور اقدار کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔
اقتدار کی مدت کو طول دینے کے لیے تمام پر اخلاقیات اور انسانیت کے مظاہروں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ سیاسی جلسے اپنے سیاسی مخالفین کو پھچاڑنے کے اکھاڑے بنادیے جاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو پہنچتا ہے اور وہ جمہوری نظام کا مقابلہ آمرانہ نظام میں ملنے والی سہولتوں سے کرنے لگتے ہیں۔ آج اگر پاکستانی عوام کو جمہوریت کی ٹرین میں سوار کروا کر منزل تک پہنچانا ہے تو پھر اس ملک کے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے، ورنہ عوام انھیں گدی سے اتارنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔