کم عمری کی شادی بنیادی انسانی حقوق چھیننے کے مترادف ایکسپریس فورم
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے دائرہ کار میں لانے کیلیے بل اسمبلی میں پیش کیا جاچکا، شفیق رتیال
کم عمری کی شادی کی بڑی وجہ بچوں کی فیصلہ سازی میں شمولیت نہ ہونا ہے جو کہ ا ن کے بنیادی انسانی حقوق چھیننے کے مترادف ہے، اس سے سنگین معاشی و معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
دوران زچگی ماں، بچے کی موت سمیت نفسیاتی، ذہنی و جسمانی مسائل سرفہرست ہیں، صرف پنجاب میںچائلڈ میرج کی شرح 27 فیصد ہے، سندھ میں لڑکے، لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس، پنجاب میں لڑکی کی عمر 16 برس ہے، امتیاز ختم کرنے کے عدالتی حکم پر پنجاب حکومت نے ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کر دیا،اس ضمن میں حکومت کو سول سوسائٹی کی سفارشات پر بھی غور کرنا چاہیے،چائلڈ میرج کو قابل سزا اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
ان خیالات کا اظہارشرکا نے 'کم عمری کی شادی کی روک تھام اور حکومتی اقدامات' کے حوالے سے منعقدہ 'ایکسپریس فورم' میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سر انجام دیئے۔
آفیسر انچارج ہیڈ کوارٹر، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب شفیق رتیال نے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد حکومت چائلڈ میرج روک تھام ایکٹ میں ترمیم پر کام کر رہی ہے،اسمبلی میں بل پیش کیا جس کے مطابق چائلڈ میرج بچے کے تحفظ کا معاملہ ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اپلائڈ سائیکالوجی لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی ڈاکٹر مریم گُل نے کہا کہ ہر بچے کو اپنی پسند، شمولیت اور رائے کی آزادی ہے، اسے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر انسانوں کو میسر ہیں، اگر اس کے حقوق سلب کیے جائیں گے تو اس میں ذہنی اور جسمانی مسائل جنم لیں گے جس سے ہمارے سماجی مسائل میں اضافہ ہوگا، ہمیں لوگوں کو کم عمری کی شادی کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی دینی ہے۔
نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر برائے حقوق اطفال دنیا نے متفقہ طور پر تیار کیا ہے، پاکستان نے بھی اس پر دستخط اور توثیق کر رکھی ہے،بچوں کی ذہنی، جسمانی اور جنسی صحت کو یقینی بنانے کیلیے اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر کی روشنی میں قانون اور پالیسی سازی کی جائے اور عملدرآمد کا موثر میکنزم بنایا جائے۔
دوران زچگی ماں، بچے کی موت سمیت نفسیاتی، ذہنی و جسمانی مسائل سرفہرست ہیں، صرف پنجاب میںچائلڈ میرج کی شرح 27 فیصد ہے، سندھ میں لڑکے، لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس، پنجاب میں لڑکی کی عمر 16 برس ہے، امتیاز ختم کرنے کے عدالتی حکم پر پنجاب حکومت نے ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کر دیا،اس ضمن میں حکومت کو سول سوسائٹی کی سفارشات پر بھی غور کرنا چاہیے،چائلڈ میرج کو قابل سزا اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
ان خیالات کا اظہارشرکا نے 'کم عمری کی شادی کی روک تھام اور حکومتی اقدامات' کے حوالے سے منعقدہ 'ایکسپریس فورم' میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سر انجام دیئے۔
آفیسر انچارج ہیڈ کوارٹر، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب شفیق رتیال نے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد حکومت چائلڈ میرج روک تھام ایکٹ میں ترمیم پر کام کر رہی ہے،اسمبلی میں بل پیش کیا جس کے مطابق چائلڈ میرج بچے کے تحفظ کا معاملہ ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اپلائڈ سائیکالوجی لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی ڈاکٹر مریم گُل نے کہا کہ ہر بچے کو اپنی پسند، شمولیت اور رائے کی آزادی ہے، اسے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر انسانوں کو میسر ہیں، اگر اس کے حقوق سلب کیے جائیں گے تو اس میں ذہنی اور جسمانی مسائل جنم لیں گے جس سے ہمارے سماجی مسائل میں اضافہ ہوگا، ہمیں لوگوں کو کم عمری کی شادی کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی دینی ہے۔
نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر برائے حقوق اطفال دنیا نے متفقہ طور پر تیار کیا ہے، پاکستان نے بھی اس پر دستخط اور توثیق کر رکھی ہے،بچوں کی ذہنی، جسمانی اور جنسی صحت کو یقینی بنانے کیلیے اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر کی روشنی میں قانون اور پالیسی سازی کی جائے اور عملدرآمد کا موثر میکنزم بنایا جائے۔