پشاور میں دہشت گردی کی نئی واردات
صوبہ خیبرپختون خوا میں دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں
پشاور کے نواحی علاقے اسکیم چوک میں کوہاٹ روڈ پر پاک فضائیہ کی گاڑی کے قریب کار بم دھماکے میں 8 افراد جاں بحق اور پاک فضائیہ کے 6 ملازمین سمیت 25 زخمی ہو گئے۔
بعض اخباری اطلاعات کے مطابق اس حملے میں فضائیہ کے 3اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 23 سے زائد زخمی ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں کوہاٹ جانے والی مسافر بردار فلائنگ کوچ اور متعدد دکانیں تباہ جب کہ فضائیہ کی گاڑی سمیت متعدد گاڑیوں اور کئی دکانوں کو نقصان پہنچا۔ اس حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
قابل تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان کو ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے خاص طور پر صوبہ خیبرپختون خوا میں دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ دہشت گردوں نے ایک گھنائونی سازش کے تحت عسکری اداروں کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور ان کی مذمومانہ کوشش ہے کہ عسکری اداروں کو نقصان پہنچا کر انھیں کمزور کیا جائے۔
اگر عسکری ادارے کمزور پڑ جائیں تو ریاستی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ دہشت گرد مسلسل عسکری اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 16 اگست 2012ء کو انھوں نے کامرہ میں منہاس ایئر بیس پر حملہ کر دیا مگر سیکیورٹی کا منظم انتظام ہونے کے باعث تمام نو حملہ آور مارے گئے۔ اسی طرح مئی 2011ء میں بھی شدت پسندوں نے کراچی میں بحریہ کے مہران بیس پرحملہ کر کے 10 اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا۔
جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہو گئے تھے۔ 2009ء میں دہشت گردوں نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملہ کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں دسمبر 2007ء میں بھی دہشت گردوں نے کامرہ ائیر بیس پر خود کش کار بم دھماکے کے ذریعے ایک اسکول بس کو نشانہ بنایا تھا جس میں ائیر بیس ملازمین کے 5بچے زخمی ہو گئے تھے۔
ان تمام واقعات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ دہشت گرد نہ صرف انتہائی تربیت یافتہ ہیں بلکہ ان کے پاس جدید ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے اور کوئی طاقتور گروہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ وہ عسکری اداروں کی ریکی کرتے اور موقع ملتے ہی حملہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے بااختیار حلقوں کو اس جانب خصوصی طور پر توجہ دینا ہو گی کہ وہ کون لوگ ہیں جو انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک اُن اسباب کے خاتمے پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی جو دہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کی تربیت گاہوں اور پناہ گاہوں کے خلاف بھی کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ کراچی اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے جہاں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے وہاں معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
افغانستان کی جانب سے بھی دہشت گردی کے واقعات نے پاکستان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ دہشت گرد افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر مذموم کارروائیاں کرتے اور فرار ہو جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو افغان حکومت سے بھرپور احتجاج کرنا چاہیے کہ وہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی دراندازی کو روکے۔
گجرات میں بھی عسکری اداروں پر حملے سے یہ حقیقت ہوگئی تھی کہ بعض طاقتور قوتیں انتہا پسندوں کی معاونت کر رہی ہیں جنھیں عسکری اداروں کے تمام ٹھکانوں اور ان کی حرکات و سکنات کا علم ہوتا ہے۔ بعض ایسی معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ دہشت گردی میں چوری کی موٹر سائیکلیں اور کاریں بھی استعمال کی گئیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے موٹر سائیکلوں اور کاروں کی چوری کے واقعات روکنا بھی اشد ضروری ہے۔
دہشت گردوں کو بعض حلقے جنت کے خواب دکھا کر ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ایسے میں علمائے کرام پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے بھرپور تعاون کریں۔ حکومت دہشت گردی کے آیندہ واقعات کے انسداد کے لیے سیکیورٹی انتظامات کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کو بھی زیادہ سے زیادہ متحرک کرے۔ یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ علما کرام اور عوام کی مدد کے بغیر دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانا ممکن نہیں۔
بعض اخباری اطلاعات کے مطابق اس حملے میں فضائیہ کے 3اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 23 سے زائد زخمی ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں کوہاٹ جانے والی مسافر بردار فلائنگ کوچ اور متعدد دکانیں تباہ جب کہ فضائیہ کی گاڑی سمیت متعدد گاڑیوں اور کئی دکانوں کو نقصان پہنچا۔ اس حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
قابل تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان کو ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے خاص طور پر صوبہ خیبرپختون خوا میں دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ دہشت گردوں نے ایک گھنائونی سازش کے تحت عسکری اداروں کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور ان کی مذمومانہ کوشش ہے کہ عسکری اداروں کو نقصان پہنچا کر انھیں کمزور کیا جائے۔
اگر عسکری ادارے کمزور پڑ جائیں تو ریاستی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ دہشت گرد مسلسل عسکری اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 16 اگست 2012ء کو انھوں نے کامرہ میں منہاس ایئر بیس پر حملہ کر دیا مگر سیکیورٹی کا منظم انتظام ہونے کے باعث تمام نو حملہ آور مارے گئے۔ اسی طرح مئی 2011ء میں بھی شدت پسندوں نے کراچی میں بحریہ کے مہران بیس پرحملہ کر کے 10 اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا۔
جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد ہلاک ہو گئے تھے۔ 2009ء میں دہشت گردوں نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملہ کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں دسمبر 2007ء میں بھی دہشت گردوں نے کامرہ ائیر بیس پر خود کش کار بم دھماکے کے ذریعے ایک اسکول بس کو نشانہ بنایا تھا جس میں ائیر بیس ملازمین کے 5بچے زخمی ہو گئے تھے۔
ان تمام واقعات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ دہشت گرد نہ صرف انتہائی تربیت یافتہ ہیں بلکہ ان کے پاس جدید ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے اور کوئی طاقتور گروہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ وہ عسکری اداروں کی ریکی کرتے اور موقع ملتے ہی حملہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے بااختیار حلقوں کو اس جانب خصوصی طور پر توجہ دینا ہو گی کہ وہ کون لوگ ہیں جو انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک اُن اسباب کے خاتمے پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی جو دہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کی تربیت گاہوں اور پناہ گاہوں کے خلاف بھی کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ کراچی اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے جہاں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے وہاں معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
افغانستان کی جانب سے بھی دہشت گردی کے واقعات نے پاکستان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ دہشت گرد افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر مذموم کارروائیاں کرتے اور فرار ہو جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو افغان حکومت سے بھرپور احتجاج کرنا چاہیے کہ وہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی دراندازی کو روکے۔
گجرات میں بھی عسکری اداروں پر حملے سے یہ حقیقت ہوگئی تھی کہ بعض طاقتور قوتیں انتہا پسندوں کی معاونت کر رہی ہیں جنھیں عسکری اداروں کے تمام ٹھکانوں اور ان کی حرکات و سکنات کا علم ہوتا ہے۔ بعض ایسی معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ دہشت گردی میں چوری کی موٹر سائیکلیں اور کاریں بھی استعمال کی گئیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے موٹر سائیکلوں اور کاروں کی چوری کے واقعات روکنا بھی اشد ضروری ہے۔
دہشت گردوں کو بعض حلقے جنت کے خواب دکھا کر ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ایسے میں علمائے کرام پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے بھرپور تعاون کریں۔ حکومت دہشت گردی کے آیندہ واقعات کے انسداد کے لیے سیکیورٹی انتظامات کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کو بھی زیادہ سے زیادہ متحرک کرے۔ یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ علما کرام اور عوام کی مدد کے بغیر دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانا ممکن نہیں۔