رومی کون اور ایک شعری مجموعہ

اگر مجھ سے کوئی یہ سوال کرے تو برملا یہ کہنے کی حقدار ہوں کہ وہ شاعرزیادہ اچھے ہیں

nasim.anjum27@gmail.com

'' رومی کون ؟ '' یہ کتاب اردو ادب کے ممتاز شاعر، نثر نگار، نقاد اورکالم نگار عبد اللہ جاویدکی تصنیف ہے، رومی کون ؟ کے مصنف نے بے حد عرق ریزی اور تحقیق کے کٹھن مراحل سے گزر کر اسے مکمل کیا ہے۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

مذکورہ کتاب موضوع کے اعتبار سے ایک اہم کتاب ہے جوکہ 200 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، اس کی اشاعت اکادمی بازیافت کی مرہون منت ہے۔ انتساب کے بعد عبد اللہ جاویدکی تحریر بعنوان '' دو ملتجیانہ معروضات'' کے عنوان سے درج ہے۔ اپنے مضمون میں درج شعرکی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ مثنوی مولانا مولوی جلال الدین رومی کی پیشانی پر مندرجہ ذیل شعر چھپا ہو ا ملتا ہے۔

مثنوی مولوی معنوی

ہست قرآن در زبان پہلوی

عبد اللہ جاوید اپنی تحقیق کے حوالے سے یہ بات کہنے پر مجبور ہوئے کہ شاید مذکورہ شعر فارسی (پہلوی) زبان کے معروف شاعر جامی کا ہے، یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے، مثنوی اپنی جگہ ہے اورکلام پاک اپنی جگہ ہے، وہ قاری کے لیے مزید معلومات کے در وا کرتے ہیں کہ علامہ شبلی نعمانی نے سوانح مولانا روم میں مثنوی کے باب میں مذکورہ شعر کو عنوان نہیں بنایا، اگر چہ آگے چل کر مصرعہ ثانی کا ذکرکر دیا ہے، انہوں نے ایک حقیقت بھی بیان کی ہے اور اس کے ساتھ ایک بہترین مشورے سے بھی نوازا ہے کہ ایسے بھی لوگ مل جاتے ہیں جو یہ نہیں جانتے یا نہیں مانتے کہ ''دیوان شمس تبریزی '' درحقیقت مولانا / مولوی (پہلوی ) جلال الدین رومی کا دیوان ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ آئندہ اشاعتوں میں اس دیوان رومی بنام شمس تبریزی لکھا جائے /کہا جائے، معروف قلم کار محترمہ شہنازخانم عابدی نے اپنے شوہر نامدارکی محبت اور قدر دانی کے تحت ان کے انتقال کے بعد مصنف کی مرتب اور تصنیف کردہ مسودے کو پبلشنگ ادارے کے سپرد کیا، کئی کتابیں شائع ہوئیں، لیکن اب انہیں یہ صدمہ ہے کہ عبد اللہ جاوید تخلیقیت کی خوشی سے محفوظ نہ ہوسکے، انہوں نے اپنے مضمون کے ذریعے قارئین و ناقدین کو اس بات کی بھی آگاہی دی کہ عبد اللہ جاویدکی تحریرکردہ رفیق مطالعہ (Companion to the Study) کے عنوان سے چارکتابیں شائع ہوچکی ہیں اور یہ رواج انہوں نے ہی شروع کیا، چونکہ اردو ہندی میں رفیق مطالعہ کتب کا رواج نہ تھا جبکہ یہ سلسلہ یورپ، امریکا ، یو کے میں کامیابی سے جاری ہے۔

عبد اللہ جاوید نے بہت اہم موضوعات پر خامہ فرسانی کی ہے ، مت سہل ہمیں جانو ( آیے، میر پڑھتے ہیں) آگ کا دریا ایک مطالعہ، تنہائی کے سوسال ایک مطالعہ اور'' دی جوک ایک مطالعہ، ان کی زندگی میں ہی شائع ہوچکی تھی، اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ (آمین)

ممتاز شاعر اور افسانہ نگار اجمل اعجازکی دس کتابیں اشاعت کے مراحل سے گزر چکی ہیں، اب تک جو آخری کتاب ہے وہ ہے شعری مجموعہ ''کوئی ستارہ اچھال '' ، بچوں کے لیے ایک ناول '' اصلی خزانہ '' لکھ چکے ہیں ، ان کی زنبیل میں ڈرامے بھی موجود ہیں، جو '' بادل اور زمین '' کے عنوان سے کتابی صورت میں منظر عام پر آگئے ہیں۔ اجمل اعجازکی تخلیقات کے قارئین فیصلہ مشکل سے ہی کریں گے کہ وہ کس صنف میں اپنا کمال رکھتے ہیں، اس کے ساتھ مبصرین اور تنقید نگار تخلیقی صلاحیتوں کو پرکھ کر اپنی رائے پیش کردیں گے۔

اگر مجھ سے کوئی یہ سوال کرے تو برملا یہ کہنے کی حقدار ہوں کہ وہ شاعرزیادہ اچھے ہیں، ان کی شاعری ندرت خیال اور داخلی و خارجی احساس کی عکاس ہے، وہ دھیمے لہجے کے شاعر ہیں، لیکن ان کا کلام متاثرکن ہے،آج کل ان کی افسانہ نگاری میں تبدیلی رونما ہوئی ہے اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ ان کے افسانے احساس فکر اور مشاہدے کے تناظر میں لکھے گئے ہیں۔ معروف شاعر فیاض علی فیاض کا ایک متاثرکن مضمون بھی شامل کتاب ہے، ان کے اشعارکا انتخاب بھی قابل تعریف ہے۔

لہر ساحل سے لوٹے تو نشانی چھوڑ جاتی ہے

محبت مختصر بھی ہو کہانی چھوڑ جاتی ہے

شاعر نے دین ودنیا اور زندگی کے دکھ سکھ کو بے حد قرینے کے ساتھ شعری سانچے میں ڈھالا ہے۔

زندگی سوز بھی ہے ساز بھی ہے

کچھ حقیت بھی ہے کچھ مجاز بھی ہے

کار دنیا بھی فکر عقبی بھی

ذکر محبوب بھی، نماز بھی ہے


اپنوں کو یاد کرتے ہوئے ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں۔

جانے والے چلے گئے چپ چاپ

یاد کیوں عمر بھر ستاتی ہے

ہنستے ہنستے یہ آنکھ بھر آئی ہے

ندی ہر بند توڑ جاتی ہے

زندگی کو آسان بنانے کے لیے انہوں نے نفرتوں اور شکوے شکایتوں سے کناراکرلیا ہے کہ یہ ہی آسان نسخہ ہے۔

سب کی آواز میں آواز ملا لی جائے

اس طرح زندگی آسان بنالی جائے

اجمل اعجازکی شاعری میں معاشرتی تلخیاں پنہاں ہیں، جو زمانے نے سبق سکھایا، اس ہی رنگ سے ان کا زیادہ تر کلام رنگا ہوا ہے۔

شہرت و ناموری کچھ نہ مرے کام آئی

قبر سے میرے نام کی تختی بھی ہٹا لی جائے

غزل کا مقطع ہے جس میں تجربے کی آنچ اور دلی کیفیت کا عکس نمایاں ہے۔

کل میں خود کو نہیں پہچان سکوں گا اجمل

آج پھر اک نئی تصویر بنا لی جائے

شاعر کے کلام میں معنویت کی کئی پرتیں پنہاں ہیں۔

ہے جلنا اس کا مقدر تو آفتاب جلے

سرشت سرد ہے کیوں کر وہ ماہتاب جلے

لگی تھی آ گ جو بستی میں گھر جلا کے گئی

اثاثہ جل گیا میرا وہ میرے خواب جلے
Load Next Story