عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم
صدر ابراہیم رئیسی ایک وژنری رہنما تھے جنہوں نے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خدمت کیلئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا
ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونیوالے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو مشہد میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین مشہد میں روضہ امام علی رضا کے احاطے میں ہوئی۔
ابراہیم رئیسی اوران کے رفقا کی نماز جنازہ تہران میں ادا کی گئی تھی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر کی نماز جنازہ ہ پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں افراد نے شرکت کی۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، ایرانی وزیرخارجہ اور دیگر 6 افراد اتوار 19مئی کو ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ ایرانی صدر اور رفقا کے اعزاز میں 23مئی کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں، ایران میں باقاعدہ صدارتی انتخاب 28 جون کو ہوگا۔
صدر ابراہیم رئیسی ایک وژنری رہنما تھے جنہوں نے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خدمت کیلئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اپریل 2024ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا ، پاکستان اور ایران کے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط بنانے کا اعادہ کیا گیا تھا ۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور غزہ کے محصور عوام کیلئے صدر ابراہیم رئیسی کی خدمات تاریخ میںسنہرے حروف میں لکھی جائیں گی۔
سید ابراہیم رئیس الساداتی 14 دسمبر1961 کو مشہد کے نوگن ضلع میں ایک عالم دین کے ہاں پیدا ہوئے۔ والد کی رحلت کے وقت ان کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ ابتدائی تعلیم جوادیہ سکول سے حاصل کی اس کے بعد مدرسہ نواب اور مدرسہ آیت اللہ موسی نژاد میں دینی تعلیم حاصل کر تے رہے۔ 1975 میں معروف شیعہ علمی مرکز حوزہ علمہ قم میں داخل ہوئے اور مدرسہ علمیہ آیت اللہ بروجردی میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔
2001 میں مطھری یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں پاس ہوئے اور 2013 میں قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔3 اگست 2021 تا 19 مئی 2024 ء میں اپنی موت تک ایران کے آٹھویں صدر رہے۔ جو 2021 کے ایرانی صدارتی انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے ایران کے عدالتی نظام میں متعدد عہدوں پر خدمات انجام دیں، جیسے اٹارنی جنرل (2014-2016) اور ڈپٹی چیف جسٹس (2004-2014)۔ وہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں تہران کے پراسیکیوٹر اور ڈپٹی پراسیکیوٹر بھی رہے۔
وہ 2016 سے 2019 تک آستان قدس رضوی، (روضہ امام رضا) کے کسٹوڈین اور چیئرمین تھے، وہ جنوبی خراسان صوبہ سے ماہرین اسمبلی کونسل کے رکن بھی تھے۔2006 ء کے انتخابات میں پہلی بار منتخب ہوئے۔ وہ امام جمعہ مشہد اور امام رضا مزار کے پیش نماز مولانا احمد علم الہدی کے داماد تھے۔
رئیسی 2021 الیکشنز میں قدامت پسند پاپولر فرنٹ آف اسلامی انقلاب فورسز کے امیدوار کے طور پر صدر منتخب ہوئے، اس سے پہلے 2017 ء کے الیکشنز میں اعتدال پسندصدر حسن روحانی سے 57 سے 38.3 فیصد ہار گئے تھے، وہ پراسیکیوشن کمیٹی کے ممبر تھے، جو 1988 میں ایران میں ہزاروں سیاسی قیدیوں پر مقدمات چلانے کیلئے بنائی گئی تھی، اس کمیٹی کو حزب اختلاف کے گروپوں اور کچھ مغربی میڈیا ڈیتھ کمیٹی کا نام دیتے ہیں۔
وہ 1985 میں تہران کے نائب پراسیکیوٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور دار الحکومت منتقل ہو گئے۔ حسین علی منتظری نے 1988 میں ایرانی سیاسی قیدیوں کو پھانسی دینے میں ملوث چار افراد میں سے ایک رئیسی کا نام لیا تھا۔ دوسرے افراد میں مرتضی ایشراگی (تہران کے پراسیکیوٹر)، حسین علی نیری (جج) اور مصطفٰی پورمحمدی (ایون میں MOI کے نمائندے) تھے۔ 1988ء میں ایرانی سیاسی قیدیوں کو پھانسی دینا ایران بھر میں سیاسی قیدیوں پر ریاستی سرپرستی میں پھانسی دینے کا ایک سلسلہ تھا، جو 19 جولائی 1988 سے شروع ہوا تھا اور تقریباً پانچ ماہ تک جاری رہا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مجاہدین خلق کے حامی تھے، حالانکہ دیگر بائیں بازو کے دھڑوں کے حامیوں بشمول، فدائیان اور ایران کی کمیونسٹ پارٹی کے افراد کو بھی پھانسی دی گئی تھی۔ امام خمینی کی رحلت اور علی خامنہ ای کے سپریم لیڈر منتخب ہونے کے بعد، ریئسی کو چیف جسٹس محمد یزدی نے تہران کا پراسیکیوٹر مقرر کیا۔ 1989 سے 1994 تک پانچ سال اس عہدے پر فائز رہے۔ 1994 میں، وہ جنرل انسپکشن آفس کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔2004ء سے لے کر 2014 تک، ر یئسی ایران کے پہلے ڈپٹی چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، ان کی تقرری چیف جسٹس محمود ہاشمی شاہرودی نے کی تھی۔
انھوں نے بطور چیف جسٹس صادق لاریجانی کی پہلی مدت ملازمت میں اپنا منصب برقرار رکھا۔ بعد میں انھیں 2014 میں ایران کا اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا، یہ عہدہ 2016 تک برقرار رہا، جب انھوں نے آستان قدس رضوی کے چیئرمین بننے سے استعفا دیا۔وہ اپنے پیش رو عباس واعظ طبسی کی وفات کے بعد 7 مارچ 2016 کو آستان قدس رضوی کے چیئرمین بنے۔ رئیسی کو فروری 2017 میں پاپولر فرنٹ آف اسلامی انقلاب فورس (جامنا) کے صدارتی امیدواروں میں سے ایک کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
اسلامی انقلاب استحکام کے محاذ نے بھی ان کی کی حمایت کی۔انھوں نے باضابطہ طور پر 6 اپریل کو شائع ہونے والے ایک بیان میں اپنی نامزدگی کا اعلان کیا اور اسے ''ملک کی انتظامی انتظامیہ میں بنیادی تبدیلی'' ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ رئیسی کو متعدد ذرائع میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا پسندیدہ اور ممکنہ جانشین سمجھا جاتا رہا ہے۔2017ء کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد، رئیس کو 42، 382، 390 میں سے 15، 786،449 (38.30% ووٹ) ملے۔ وہ روحانی سے ہار گئے تھے اور دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
وہ یونیورسٹیوں کے اسلامائزیشن، انٹرنیٹ پر نظر ثانی اور مغربی ثقافت پر سنسرشپ کے بھی حامی تھے۔ ریئسی اقتصادی پابندیوں کو نعمت سمجھتے تھے۔رئیسی کہتے تھے ''میں مزاحمتی معیشت کی سرگرمی کو ملک میں غربت اور محرومی کے خاتمے کا واحد راستہ سمجھتا ہوں۔''اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں نامہ نگاروں کو جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تھا کہ '' اسرائیل کے سوا ہر ملک کیساتھ تعلقات استوار کریں گے۔''
رئیسی اپنی موت سے چند گھنٹے قبل آذربائیجان کی سرحد پر الہام علیوف کیساتھ تھے۔19 مئی کو رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے ان کا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد پر واقع شہر جلفا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا، وزیر خارجہ، حسین امیر عبد اللہیان اور کئی دیگر اہلکار اس حادثے میں جاںبحق ہو گئے۔اس طرح عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگیا ۔ رئیسی ایران کے دوسرے صدر ہیں جو اپنے عہدے پر فرائض کی انجام دہی کے دوران انتقال کر گئے، محمد علی رجائی کے بعد، جو 1981ء میں ایک بم دھماکے میں شہید ہوئے تھے۔
ابراہیم رئیسی اوران کے رفقا کی نماز جنازہ تہران میں ادا کی گئی تھی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر کی نماز جنازہ ہ پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں افراد نے شرکت کی۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، ایرانی وزیرخارجہ اور دیگر 6 افراد اتوار 19مئی کو ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ ایرانی صدر اور رفقا کے اعزاز میں 23مئی کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں، ایران میں باقاعدہ صدارتی انتخاب 28 جون کو ہوگا۔
صدر ابراہیم رئیسی ایک وژنری رہنما تھے جنہوں نے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خدمت کیلئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اپریل 2024ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا ، پاکستان اور ایران کے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط بنانے کا اعادہ کیا گیا تھا ۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور غزہ کے محصور عوام کیلئے صدر ابراہیم رئیسی کی خدمات تاریخ میںسنہرے حروف میں لکھی جائیں گی۔
سید ابراہیم رئیس الساداتی 14 دسمبر1961 کو مشہد کے نوگن ضلع میں ایک عالم دین کے ہاں پیدا ہوئے۔ والد کی رحلت کے وقت ان کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ ابتدائی تعلیم جوادیہ سکول سے حاصل کی اس کے بعد مدرسہ نواب اور مدرسہ آیت اللہ موسی نژاد میں دینی تعلیم حاصل کر تے رہے۔ 1975 میں معروف شیعہ علمی مرکز حوزہ علمہ قم میں داخل ہوئے اور مدرسہ علمیہ آیت اللہ بروجردی میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔
2001 میں مطھری یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں پاس ہوئے اور 2013 میں قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔3 اگست 2021 تا 19 مئی 2024 ء میں اپنی موت تک ایران کے آٹھویں صدر رہے۔ جو 2021 کے ایرانی صدارتی انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے ایران کے عدالتی نظام میں متعدد عہدوں پر خدمات انجام دیں، جیسے اٹارنی جنرل (2014-2016) اور ڈپٹی چیف جسٹس (2004-2014)۔ وہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں تہران کے پراسیکیوٹر اور ڈپٹی پراسیکیوٹر بھی رہے۔
وہ 2016 سے 2019 تک آستان قدس رضوی، (روضہ امام رضا) کے کسٹوڈین اور چیئرمین تھے، وہ جنوبی خراسان صوبہ سے ماہرین اسمبلی کونسل کے رکن بھی تھے۔2006 ء کے انتخابات میں پہلی بار منتخب ہوئے۔ وہ امام جمعہ مشہد اور امام رضا مزار کے پیش نماز مولانا احمد علم الہدی کے داماد تھے۔
رئیسی 2021 الیکشنز میں قدامت پسند پاپولر فرنٹ آف اسلامی انقلاب فورسز کے امیدوار کے طور پر صدر منتخب ہوئے، اس سے پہلے 2017 ء کے الیکشنز میں اعتدال پسندصدر حسن روحانی سے 57 سے 38.3 فیصد ہار گئے تھے، وہ پراسیکیوشن کمیٹی کے ممبر تھے، جو 1988 میں ایران میں ہزاروں سیاسی قیدیوں پر مقدمات چلانے کیلئے بنائی گئی تھی، اس کمیٹی کو حزب اختلاف کے گروپوں اور کچھ مغربی میڈیا ڈیتھ کمیٹی کا نام دیتے ہیں۔
وہ 1985 میں تہران کے نائب پراسیکیوٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور دار الحکومت منتقل ہو گئے۔ حسین علی منتظری نے 1988 میں ایرانی سیاسی قیدیوں کو پھانسی دینے میں ملوث چار افراد میں سے ایک رئیسی کا نام لیا تھا۔ دوسرے افراد میں مرتضی ایشراگی (تہران کے پراسیکیوٹر)، حسین علی نیری (جج) اور مصطفٰی پورمحمدی (ایون میں MOI کے نمائندے) تھے۔ 1988ء میں ایرانی سیاسی قیدیوں کو پھانسی دینا ایران بھر میں سیاسی قیدیوں پر ریاستی سرپرستی میں پھانسی دینے کا ایک سلسلہ تھا، جو 19 جولائی 1988 سے شروع ہوا تھا اور تقریباً پانچ ماہ تک جاری رہا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مجاہدین خلق کے حامی تھے، حالانکہ دیگر بائیں بازو کے دھڑوں کے حامیوں بشمول، فدائیان اور ایران کی کمیونسٹ پارٹی کے افراد کو بھی پھانسی دی گئی تھی۔ امام خمینی کی رحلت اور علی خامنہ ای کے سپریم لیڈر منتخب ہونے کے بعد، ریئسی کو چیف جسٹس محمد یزدی نے تہران کا پراسیکیوٹر مقرر کیا۔ 1989 سے 1994 تک پانچ سال اس عہدے پر فائز رہے۔ 1994 میں، وہ جنرل انسپکشن آفس کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔2004ء سے لے کر 2014 تک، ر یئسی ایران کے پہلے ڈپٹی چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، ان کی تقرری چیف جسٹس محمود ہاشمی شاہرودی نے کی تھی۔
انھوں نے بطور چیف جسٹس صادق لاریجانی کی پہلی مدت ملازمت میں اپنا منصب برقرار رکھا۔ بعد میں انھیں 2014 میں ایران کا اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا، یہ عہدہ 2016 تک برقرار رہا، جب انھوں نے آستان قدس رضوی کے چیئرمین بننے سے استعفا دیا۔وہ اپنے پیش رو عباس واعظ طبسی کی وفات کے بعد 7 مارچ 2016 کو آستان قدس رضوی کے چیئرمین بنے۔ رئیسی کو فروری 2017 میں پاپولر فرنٹ آف اسلامی انقلاب فورس (جامنا) کے صدارتی امیدواروں میں سے ایک کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
اسلامی انقلاب استحکام کے محاذ نے بھی ان کی کی حمایت کی۔انھوں نے باضابطہ طور پر 6 اپریل کو شائع ہونے والے ایک بیان میں اپنی نامزدگی کا اعلان کیا اور اسے ''ملک کی انتظامی انتظامیہ میں بنیادی تبدیلی'' ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ رئیسی کو متعدد ذرائع میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا پسندیدہ اور ممکنہ جانشین سمجھا جاتا رہا ہے۔2017ء کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد، رئیس کو 42، 382، 390 میں سے 15، 786،449 (38.30% ووٹ) ملے۔ وہ روحانی سے ہار گئے تھے اور دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
وہ یونیورسٹیوں کے اسلامائزیشن، انٹرنیٹ پر نظر ثانی اور مغربی ثقافت پر سنسرشپ کے بھی حامی تھے۔ ریئسی اقتصادی پابندیوں کو نعمت سمجھتے تھے۔رئیسی کہتے تھے ''میں مزاحمتی معیشت کی سرگرمی کو ملک میں غربت اور محرومی کے خاتمے کا واحد راستہ سمجھتا ہوں۔''اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں نامہ نگاروں کو جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تھا کہ '' اسرائیل کے سوا ہر ملک کیساتھ تعلقات استوار کریں گے۔''
رئیسی اپنی موت سے چند گھنٹے قبل آذربائیجان کی سرحد پر الہام علیوف کیساتھ تھے۔19 مئی کو رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے ان کا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد پر واقع شہر جلفا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا، وزیر خارجہ، حسین امیر عبد اللہیان اور کئی دیگر اہلکار اس حادثے میں جاںبحق ہو گئے۔اس طرح عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگیا ۔ رئیسی ایران کے دوسرے صدر ہیں جو اپنے عہدے پر فرائض کی انجام دہی کے دوران انتقال کر گئے، محمد علی رجائی کے بعد، جو 1981ء میں ایک بم دھماکے میں شہید ہوئے تھے۔