نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
بعض اوقات ایک گمنام شخص ایک ایجاد کر کے پوری انسانیت کی فلاح اور سہولت کا راستہ بنا دیتا ہے
کسی بزرگ کی محفل میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ اکثر فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کوئی چیز بلا مقصد اور بلا مصرف پیدا نہیں کی۔ میںیہ جاننا چاہتا ہوں۔ میں ایک کچی آباد ی میں رہتا ہوں۔
ہماری گلی میں ایک کچی نالی ہے، میں اکثر دیکھتا ہوں کہ اس نالی کے کنارے ٹوٹ جاتے ہیں اور گندہ پانی چھوٹے چھوٹے گھڈوں میں جمع ہو جاتا ہے ۔ ایک آدھ دن بعد ان میںکیڑے پیدا ہو جاتے ہیں ۔کئی بار میری سائیکل کا پہیہ اور راہ چلتے افراد یا جانوروں کے پاؤں کسی گھڈے میں پڑتے ہیں تو وہ کیڑے مر جاتے ہیں۔
میں یہ دریا فت کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے کیڑے جو غلیظ پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہیں مر جاتے ہیں، ان کی پیدائش میں اﷲ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے؟ بزرگ نے کہا کہ میں آپ کے سوال کا جواب بھی دوں گا لیکن دوسرے احباب کے سوال بھی سن لیں۔محفل میں موجود دوسرے لوگوں نے کئی اور موضوعات پر سوال کیے غر ضیکہ یہ محفل اس شخص کے سوال کا جواب آنے سے پہلے ہی برخاست ہو گئی۔
کچھ عرصہ بعد وہی شخص دوبارہ انھی بزرگ کی محفل میں پہنچا اور کہا کہ حضور میرے گھٹنے میں ایک ایسا زخم ہو گیا ہے جو کسی بھی دوا سے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ میں نے حکیم ، ڈاکٹر، ہومیوپیتھ اور جراح سب سے علاج کروا لیا لیکن زخم ٹھیک ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ڈاکٹرز کہتے ہیںکہ یہ زخم بہت زہریلا ہے اور تمھاری ٹانگ کاٹنا پڑے گی ورنہ زہر تمام جسم میں پھیل جائے گا۔
بزرگ نے اس کے زخم پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہ تم نے کچھ عرصہ پہلے ایک سوال پوچھا تھا کہ جو گندی نالی کے کیڑوں کے بارے میں تھا ۔ اس نے کہا ، جی ہاں۔ بزرگ بولے! کیا وہ کیڑے اب بھی ہیں۔ اس نے کہا جی ہاں ۔ بزرگ نے کہا !کہ تم وہاں جاؤ ایک کاغذ سے ان کیڑوں کو اٹھاؤ اور اپنے اس زخم پر ڈالو ۔ تمھارا زخم اتنا خراب ہو چکا ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی کوئی دوا اس پر کارگر نہیں ہو گی۔
گندے پانی کے کیڑوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ گندے پانی میں رہنے کے با وجود نہیں مرتے۔تمھارے زخم کے جراثیم بہت طاقت ور ہیں، ان کو یہی کیٹرے ختم کر سکتے ہیں ،گندے پانی کے یہ کیڑے اس ز خم کے جراثیموں کو چاٹ جائیں گے اور تمہارا گھٹنا ٹھیک ہو جائے گا۔اس آدمی نے یہی کیا اور کچھ عرصہ بعد اس کا زخم ٹھیک ہو گیا۔
میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو اس سوچ میں گم ہو گیا کہ ہمیں تو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ جب گندے پانی کے کیڑے کی اتنی اہمیت ہے کہ وہ انسانی اعضاء کو کٹنے سے بچا سکتا ہے تو دوسرے حشرات الارض چرند پرند اور درندوں کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اردگرد کام کرنے والے ساتھیوں اور عزیز اوقارب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تو نکھٹو ہے، وہ کسی کام کا نہیں، بے کار آدمی ہے!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس فرد کی اہمیت یا صلاحیت کو پہنچاننے سے قاصر ہیں یا ہمیں خود کو با صلاحیت ثابت کرنے کے لیے دوسرے کو کم تر ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے سوچیں تو بعض اوقات ایک فرد جسے ہم حقیر یا نچلے درجے کا ملازم سمجھتے ہیں بڑے سے بڑے آدمی بلکہ حکمرانوں کی جان تک بچانے میں کلیدی کردار ادا کردیتا ہے۔ بعض اوقات ایک گمنام شخص ایک ایجاد کر کے پوری انسانیت کی فلاح اور سہولت کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اگر گندے پانی کا کیٹرا اتنا اہم تو انسان کی حیثیت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیز بلا مقصد اور بلا مصرف پیدا نہیں کی، گندے پانی کے کیڑوں کی دنیا میں کتنی اہمیت ہے ۔ ذرا سوچئیے کہ اشرف المخلوقات کی اہمیت کیا ہو گی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں ہے قدرت کے کارخانے میں
ہماری گلی میں ایک کچی نالی ہے، میں اکثر دیکھتا ہوں کہ اس نالی کے کنارے ٹوٹ جاتے ہیں اور گندہ پانی چھوٹے چھوٹے گھڈوں میں جمع ہو جاتا ہے ۔ ایک آدھ دن بعد ان میںکیڑے پیدا ہو جاتے ہیں ۔کئی بار میری سائیکل کا پہیہ اور راہ چلتے افراد یا جانوروں کے پاؤں کسی گھڈے میں پڑتے ہیں تو وہ کیڑے مر جاتے ہیں۔
میں یہ دریا فت کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے کیڑے جو غلیظ پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہیں مر جاتے ہیں، ان کی پیدائش میں اﷲ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے؟ بزرگ نے کہا کہ میں آپ کے سوال کا جواب بھی دوں گا لیکن دوسرے احباب کے سوال بھی سن لیں۔محفل میں موجود دوسرے لوگوں نے کئی اور موضوعات پر سوال کیے غر ضیکہ یہ محفل اس شخص کے سوال کا جواب آنے سے پہلے ہی برخاست ہو گئی۔
کچھ عرصہ بعد وہی شخص دوبارہ انھی بزرگ کی محفل میں پہنچا اور کہا کہ حضور میرے گھٹنے میں ایک ایسا زخم ہو گیا ہے جو کسی بھی دوا سے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ میں نے حکیم ، ڈاکٹر، ہومیوپیتھ اور جراح سب سے علاج کروا لیا لیکن زخم ٹھیک ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ڈاکٹرز کہتے ہیںکہ یہ زخم بہت زہریلا ہے اور تمھاری ٹانگ کاٹنا پڑے گی ورنہ زہر تمام جسم میں پھیل جائے گا۔
بزرگ نے اس کے زخم پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہ تم نے کچھ عرصہ پہلے ایک سوال پوچھا تھا کہ جو گندی نالی کے کیڑوں کے بارے میں تھا ۔ اس نے کہا ، جی ہاں۔ بزرگ بولے! کیا وہ کیڑے اب بھی ہیں۔ اس نے کہا جی ہاں ۔ بزرگ نے کہا !کہ تم وہاں جاؤ ایک کاغذ سے ان کیڑوں کو اٹھاؤ اور اپنے اس زخم پر ڈالو ۔ تمھارا زخم اتنا خراب ہو چکا ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی کوئی دوا اس پر کارگر نہیں ہو گی۔
گندے پانی کے کیڑوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ گندے پانی میں رہنے کے با وجود نہیں مرتے۔تمھارے زخم کے جراثیم بہت طاقت ور ہیں، ان کو یہی کیٹرے ختم کر سکتے ہیں ،گندے پانی کے یہ کیڑے اس ز خم کے جراثیموں کو چاٹ جائیں گے اور تمہارا گھٹنا ٹھیک ہو جائے گا۔اس آدمی نے یہی کیا اور کچھ عرصہ بعد اس کا زخم ٹھیک ہو گیا۔
میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو اس سوچ میں گم ہو گیا کہ ہمیں تو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ جب گندے پانی کے کیڑے کی اتنی اہمیت ہے کہ وہ انسانی اعضاء کو کٹنے سے بچا سکتا ہے تو دوسرے حشرات الارض چرند پرند اور درندوں کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اردگرد کام کرنے والے ساتھیوں اور عزیز اوقارب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تو نکھٹو ہے، وہ کسی کام کا نہیں، بے کار آدمی ہے!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس فرد کی اہمیت یا صلاحیت کو پہنچاننے سے قاصر ہیں یا ہمیں خود کو با صلاحیت ثابت کرنے کے لیے دوسرے کو کم تر ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے سوچیں تو بعض اوقات ایک فرد جسے ہم حقیر یا نچلے درجے کا ملازم سمجھتے ہیں بڑے سے بڑے آدمی بلکہ حکمرانوں کی جان تک بچانے میں کلیدی کردار ادا کردیتا ہے۔ بعض اوقات ایک گمنام شخص ایک ایجاد کر کے پوری انسانیت کی فلاح اور سہولت کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اگر گندے پانی کا کیٹرا اتنا اہم تو انسان کی حیثیت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیز بلا مقصد اور بلا مصرف پیدا نہیں کی، گندے پانی کے کیڑوں کی دنیا میں کتنی اہمیت ہے ۔ ذرا سوچئیے کہ اشرف المخلوقات کی اہمیت کیا ہو گی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں ہے قدرت کے کارخانے میں