معاشی افق پر چھائے مایوسی کے بادل چھٹ گئے
پاکستان اور سعودی عرب اپنے محل وقوع کے اعتبار سے عالمی اہمیت رکھتی ہیں
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 172 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) رواں ماہ 131 اعشاریہ 9 ملین ڈالر سے بڑھ 358 اعشاریہ 84 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے، ایف ڈی آئی میں یہ ریکارڈ اضافہ پچھلے مہینے ہوا جوکہ 172 فیصد بنتا ہے۔
براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے ماحول کی فضا میں بہتری، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی مرہون منت ہے، قلیل عرصے میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے زیر اثر اٹھائے گئے اقدامات کی بدولت پاکستان اقتصادی راہ پر گامزن ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پچھلے 4 سال میں یہ سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری ہے، چین اس سال 177 اعشاریہ 37 ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، یو اے ای 51 اعشاریہ 93 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دوسرے اور کینیڈا 51 اعشاریہ 89 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کہہ چکے ہیں کہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے دوست ممالک امداد یا قرض نہیں بلکہ سرمایہ کاری کے ذریعے مدد کرنا چاہتے ہیں۔
بلاشبہ سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے، وزیر اعظم جہاں جا رہے ہیں، وہ بات کر رہے ہیں کہ ہمیں مالی امداد نہیں چاہیے، ہم سرمایہ کاری اور تجارت چاہتے ہیں۔ حکومتی سطح پر 7 ڈیسک قائم کیے جارہے ہیں، جن میں چائنا ڈیسک، قطر ڈیسک، یو اے ای ڈیسک، سعودی ڈیسک، یورپی یونین ڈیسک، امریکا ڈیسک اور فار ایسٹ ڈیسک شامل ہیں، یہ ڈیسک ایس آئی ایف سی کے اندر قائم کیے گئے ہیں، جن کی توجہ سرمایہ کاری لانے اور تجارت کے حجم کو بڑھانے پر مرکوز ہوگی، متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایجنسی نے 10 ارب ڈالر مختص کرنے کی خبر ریلیز کی ہے، سعودی عرب کے ساتھ بھی 5 ارب ڈالر کی بات چیت چل رہی ہے۔ وزیر اعظم کا چین کا دورہ کرنے والے ہیں اور یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان میں دوست ممالک کی جانب سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے معیشت پر بہترین اثرات مرتب ہوںگے، چین سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر کام کررہا ہے جب کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی پاکستان میں مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں۔ پاکستان نے قازغستان، ازبکستان، کرغیزستان، روس اور چین کو کیلے، گوشت اور سمندری غذا کی برآمد و ترسیل میں بھی اہم اور نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔
ناموافق حالات کے باوجود پاکستان میں متعدد شعبوں نے اپنی ترقی کی صلاحیت اور پاکستان کو توانائی کے خسارے کا سامنا ہے، قابل تجدید توانائی کے ذرایع میں بھی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ ماضی قریب میں ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں خاص طور پر موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز کی توسیع کے ساتھ نمایاں غیر ملکی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔ اس وقت بھی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں۔ علاوہ ازیں سڑکوں، پلوں اور شہری ترقی کے منصوبوں سمیت انفرا اسٹرکچر کی ترقی نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے نے ہمیشہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی بڑی افرادی قوت اور ایک بڑے کپاس پیدا کرنے والے ملک کے طور پر اس کی حیثیت سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی طرح بینکنگ اور مالیاتی خدمات کے شعبے نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے، یہ شعبہ دیگر صنعتوں کو سپورٹ کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کا خاطر خواہ پوٹینشل موجود ہے جب کہ معدنی وسائل بشمول کوئلہ، تانبا، سونا اور قیمتی پتھروں کی مائننگ کا شعبہ بھی بیرونی سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھی جائیں۔
پاکستان اور سعودی عرب اپنے محل وقوع کے اعتبار سے عالمی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک ملک اقتصادی بحران سے بحالی کی کوشش میں ہے جب کہ دوسرا ملک فوسلز ایندھن کے علاوہ بھی اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کاوشیں کر رہا ہے۔ ایک کے پاس معدنیاتی وسائل کے انبار ہیں جب کہ دوسرے ملک کے پاس ان معدنیات کو زمین سے نکالنے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دولت اور تجربہ ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی سعودی عرب کی دلچسپی ہمارے ملک کے معدنیاتی منظر نامے کو کافی تبدیل کرسکتی ہے۔
سعودی عرب اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ جس کی مالیت ایک کھرب ڈالرز سے زائد ہے، اس کے ساتھ اب وہ پاکستان کی مائننگ انڈسٹری کی ترقی میں تعاون کے لیے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔ معدنیات جیسے کاپر لیتھیم بیٹریز کے لیے ضروری ہیں اور توانائی کی منتقلی اور قابلِ تجدید معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مخصوص معدنیات بشمول تانبے کے حصول کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ انھیں قابلِ تجدید توانائی کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔
تاہم ان میں سے بہت سی معدنیات ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو جغرافیائی سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں جس کی وجہ سے وہاں کان کنی میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بھی تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں جس نے سعودی عرب کی توجہ حاصل کی، وہ پاکستان کے وسائل کو عالمی تناظر میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لیے ایک اچھی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتا ہے۔ سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کان کنی کو اہم سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک سرمایہ کاری کے 13 اہم شعبہ جات میں سے کان کنی میں سرمایہ کاری ایک کلیدی اقدام ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان دونوں کو مل کرکام کرنے سے مشترکہ فوائد حاصل ہوں گے جب کہ اس سے پاکستان کی کان کنی کی مہارت اور صلاحیتوں کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ ریکوڈک، تانبے اور سونے کی کان کنی کا یہ پروجیکٹ بلوچستان کے معدنیات سے مالامال علاقے میں واقع ہے جو کہ Teethe Magmatic Arc کا حصہ ہے، اگر سعودی سرمایہ کو پاکستان کے مائننگ سیکٹر میں متعارف کروائیں گے تو یہ متوقع طور پر پاکستان کو معدنیاتی وسائل پر مبنی معیشت کی اہمیت اجاگر کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔ حالیہ تاریخ میں پہلی بار یہ دونوں ممالک مالیاتی امداد یا کمرشل شراکت داری کے بغیر صرف اقتصادی وعدوں کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔
دوسری جانب پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی کاروبار مستحکم ہورہا ہے، اسٹاک مارکیٹ دراصل معیشت کے پیش آیند حالات کا بیرو میٹر ہوتا ہے، اگر حالات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو رہے ہوں، تو اس کا اظہار سب سے پہلے اسٹاک مارکیٹ انڈکس میں ہوتا ہے، اسٹاک مارکیٹ انتہائی حساس جگہ ہوتی ہے، جس میں پیش آیند حالات کو سمجھنے اور ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، ملک میں اسٹاک مارکیٹ ہی معاشی سرگرمیوں کی پیمائش اور معیشت کی سمت کا تعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان کے زراعت اور IT سیکٹرز میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جنھیں فروغ دے کر ہم فوری طور پر ایکسپورٹس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں ایران اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کے ساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید فروغ دینا ہوگا۔
مستقبل کا سوچیں تو یوں پاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہوسکتا ہے جن میں کان کنی کے علاوہ دیگر اہم اقدامات بھی شامل ہوسکتے ہیں جیسے قومی ایئرلائن کی نجکاری، زراعت، فارمنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے امکانات بھی روشن ہوں گے۔ یہ شراکت داری پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تبدیلی کے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے جس میں مائننگ سیکٹر ممکنہ طور پر اس تبدیلی میں سب سے آگے ہے۔
اب قوم ایک اچھے اور روشن مستقبل کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ وطن عزیز کا مستقبل روشن اور امید افزا ہے جس میں عوام کے لیے ترقی، خوشحالی اور استحکام کی یقین دہانی ہے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے ملک کے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ پاکستان بھی اپنی مصنوعات دوست ممالک سمیت عالمی منڈی تک پہنچائے گا جس سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، بلاشبہ پاکستان کی معیشت کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔
براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے ماحول کی فضا میں بہتری، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی مرہون منت ہے، قلیل عرصے میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے زیر اثر اٹھائے گئے اقدامات کی بدولت پاکستان اقتصادی راہ پر گامزن ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پچھلے 4 سال میں یہ سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری ہے، چین اس سال 177 اعشاریہ 37 ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، یو اے ای 51 اعشاریہ 93 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دوسرے اور کینیڈا 51 اعشاریہ 89 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کہہ چکے ہیں کہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے دوست ممالک امداد یا قرض نہیں بلکہ سرمایہ کاری کے ذریعے مدد کرنا چاہتے ہیں۔
بلاشبہ سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے، وزیر اعظم جہاں جا رہے ہیں، وہ بات کر رہے ہیں کہ ہمیں مالی امداد نہیں چاہیے، ہم سرمایہ کاری اور تجارت چاہتے ہیں۔ حکومتی سطح پر 7 ڈیسک قائم کیے جارہے ہیں، جن میں چائنا ڈیسک، قطر ڈیسک، یو اے ای ڈیسک، سعودی ڈیسک، یورپی یونین ڈیسک، امریکا ڈیسک اور فار ایسٹ ڈیسک شامل ہیں، یہ ڈیسک ایس آئی ایف سی کے اندر قائم کیے گئے ہیں، جن کی توجہ سرمایہ کاری لانے اور تجارت کے حجم کو بڑھانے پر مرکوز ہوگی، متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایجنسی نے 10 ارب ڈالر مختص کرنے کی خبر ریلیز کی ہے، سعودی عرب کے ساتھ بھی 5 ارب ڈالر کی بات چیت چل رہی ہے۔ وزیر اعظم کا چین کا دورہ کرنے والے ہیں اور یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان میں دوست ممالک کی جانب سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے معیشت پر بہترین اثرات مرتب ہوںگے، چین سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر کام کررہا ہے جب کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی پاکستان میں مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں۔ پاکستان نے قازغستان، ازبکستان، کرغیزستان، روس اور چین کو کیلے، گوشت اور سمندری غذا کی برآمد و ترسیل میں بھی اہم اور نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔
ناموافق حالات کے باوجود پاکستان میں متعدد شعبوں نے اپنی ترقی کی صلاحیت اور پاکستان کو توانائی کے خسارے کا سامنا ہے، قابل تجدید توانائی کے ذرایع میں بھی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ ماضی قریب میں ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں خاص طور پر موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز کی توسیع کے ساتھ نمایاں غیر ملکی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔ اس وقت بھی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں۔ علاوہ ازیں سڑکوں، پلوں اور شہری ترقی کے منصوبوں سمیت انفرا اسٹرکچر کی ترقی نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے نے ہمیشہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی بڑی افرادی قوت اور ایک بڑے کپاس پیدا کرنے والے ملک کے طور پر اس کی حیثیت سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی طرح بینکنگ اور مالیاتی خدمات کے شعبے نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے، یہ شعبہ دیگر صنعتوں کو سپورٹ کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کا خاطر خواہ پوٹینشل موجود ہے جب کہ معدنی وسائل بشمول کوئلہ، تانبا، سونا اور قیمتی پتھروں کی مائننگ کا شعبہ بھی بیرونی سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھی جائیں۔
پاکستان اور سعودی عرب اپنے محل وقوع کے اعتبار سے عالمی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک ملک اقتصادی بحران سے بحالی کی کوشش میں ہے جب کہ دوسرا ملک فوسلز ایندھن کے علاوہ بھی اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کاوشیں کر رہا ہے۔ ایک کے پاس معدنیاتی وسائل کے انبار ہیں جب کہ دوسرے ملک کے پاس ان معدنیات کو زمین سے نکالنے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دولت اور تجربہ ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی سعودی عرب کی دلچسپی ہمارے ملک کے معدنیاتی منظر نامے کو کافی تبدیل کرسکتی ہے۔
سعودی عرب اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ جس کی مالیت ایک کھرب ڈالرز سے زائد ہے، اس کے ساتھ اب وہ پاکستان کی مائننگ انڈسٹری کی ترقی میں تعاون کے لیے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔ معدنیات جیسے کاپر لیتھیم بیٹریز کے لیے ضروری ہیں اور توانائی کی منتقلی اور قابلِ تجدید معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مخصوص معدنیات بشمول تانبے کے حصول کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ انھیں قابلِ تجدید توانائی کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔
تاہم ان میں سے بہت سی معدنیات ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو جغرافیائی سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں جس کی وجہ سے وہاں کان کنی میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بھی تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں جس نے سعودی عرب کی توجہ حاصل کی، وہ پاکستان کے وسائل کو عالمی تناظر میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لیے ایک اچھی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتا ہے۔ سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کان کنی کو اہم سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک سرمایہ کاری کے 13 اہم شعبہ جات میں سے کان کنی میں سرمایہ کاری ایک کلیدی اقدام ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان دونوں کو مل کرکام کرنے سے مشترکہ فوائد حاصل ہوں گے جب کہ اس سے پاکستان کی کان کنی کی مہارت اور صلاحیتوں کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ ریکوڈک، تانبے اور سونے کی کان کنی کا یہ پروجیکٹ بلوچستان کے معدنیات سے مالامال علاقے میں واقع ہے جو کہ Teethe Magmatic Arc کا حصہ ہے، اگر سعودی سرمایہ کو پاکستان کے مائننگ سیکٹر میں متعارف کروائیں گے تو یہ متوقع طور پر پاکستان کو معدنیاتی وسائل پر مبنی معیشت کی اہمیت اجاگر کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔ حالیہ تاریخ میں پہلی بار یہ دونوں ممالک مالیاتی امداد یا کمرشل شراکت داری کے بغیر صرف اقتصادی وعدوں کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔
دوسری جانب پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی کاروبار مستحکم ہورہا ہے، اسٹاک مارکیٹ دراصل معیشت کے پیش آیند حالات کا بیرو میٹر ہوتا ہے، اگر حالات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو رہے ہوں، تو اس کا اظہار سب سے پہلے اسٹاک مارکیٹ انڈکس میں ہوتا ہے، اسٹاک مارکیٹ انتہائی حساس جگہ ہوتی ہے، جس میں پیش آیند حالات کو سمجھنے اور ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، ملک میں اسٹاک مارکیٹ ہی معاشی سرگرمیوں کی پیمائش اور معیشت کی سمت کا تعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان کے زراعت اور IT سیکٹرز میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جنھیں فروغ دے کر ہم فوری طور پر ایکسپورٹس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں ایران اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کے ساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید فروغ دینا ہوگا۔
مستقبل کا سوچیں تو یوں پاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہوسکتا ہے جن میں کان کنی کے علاوہ دیگر اہم اقدامات بھی شامل ہوسکتے ہیں جیسے قومی ایئرلائن کی نجکاری، زراعت، فارمنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے امکانات بھی روشن ہوں گے۔ یہ شراکت داری پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تبدیلی کے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے جس میں مائننگ سیکٹر ممکنہ طور پر اس تبدیلی میں سب سے آگے ہے۔
اب قوم ایک اچھے اور روشن مستقبل کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ وطن عزیز کا مستقبل روشن اور امید افزا ہے جس میں عوام کے لیے ترقی، خوشحالی اور استحکام کی یقین دہانی ہے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے ملک کے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ پاکستان بھی اپنی مصنوعات دوست ممالک سمیت عالمی منڈی تک پہنچائے گا جس سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، بلاشبہ پاکستان کی معیشت کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔