چوہدری پرویز الٰہی کی خاموش رہائی
ایک سال میں چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے
تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہی تقریباً ایک سال کی قید کے بعد رہا ہو گئے ہیں۔ ضمانتیں منظور ہونے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا ہے۔ ورنہ ضمانتیں تو انھیں پہلے بھی ملی تھیں لیکن ان کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی تھی کیونکہ کسی اور کیس میں گرفتاری ڈال دی جاتی تھی۔ ایک دفعہ تو عدالت نے ایک پولیس افسر کو حکم دیا کہ انھیں بحفاظت گھر پہنچا دیا جائے۔ لیکن وہ گھر نہیں پہنچ سکے تھے۔ کسی اور شہر اور صوبے کی پولیس راستے میں سے انھیں لے گئی تھی۔ لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آجکل اپنے گھر میں آرام کر رہے ہیں۔
دوران قید چوہدری پرویز الٰہی کی چوہدری شجاعت حسین اور ان کے بیٹوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں۔ لیکن ان ملاقاتوں میں کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا تھا۔کہا جاتا ہے کہ خاندان کے بڑوں کے درمیان تو کوئی اختلافات نہیں ہیں، البتہ بچوں کی لڑائیں ہیں جن میں سب بزرگ اپنے اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چوہدری مونس الٰہی کے حوالے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ''سیاست اپنی اپنی''۔ آج چوہدری سالک حسین اور چوہدری شافع کا بھی یہی موقف ہے کہ ''سیاست اپنی اپنی''۔
بہر حال آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں، حالیہ سیاسی کھیل میں چوہدری شجاعت حسین کے بچے فاتح نظر آرہے ہیں۔ انھوں نے گجرات کی سیاست پر اپنی گرفت خاصی مضبوط کرلی ہے ۔کل تک یہ سمھجا جاتا تھا کہ سالک اور شافع کو گجرات کی سیاست میں کون جانتا ہے، ان کی گجرات میں کوئی سیٹ نہیں ہے لیکن اب گجرات کی سیاست میں سالک اور شافع چھائے ہوئے ہیں۔ چوہدری وجاہت جو کل تک چوہدری پرویز الٰہی کا دم بھرتے تھے، آج وہی چوہدری سالک کے ساتھ ہیں، ان کے بیٹے موسیٰ الہی نے چوہدری پرویز الٰہی کے مدمقابل ضمنی الیکشن لڑا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کو ہرا کر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔
ایک سال میں چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت کھیل ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ رہائی کے بعد ان کی خاموشی نے بھی سب کو حیران کررکھا ہے۔ ورنہ وہ عدالت میں پیشی پر بھی آتے تھے تو میڈیا سے بات ضرور کرتے تھے۔ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کا ا علان ضرور کرتے تھے۔ لیکن رہائی کے بعد انھوں نے میڈیا سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ ورنہ جس چوہدری پرویز الٰہی کو سب جانتے ہیں، وہ تو جیل سے جلوس کے ہمراہ گھر آتے اور کارکنوں سے خطاب کرتے، میڈیا سے الگ بات کرتے۔
وہ تحریک انصاف کے صدر ہیں ، پوری تحریک انصاف ان کے استقبال کے لیے آتی۔ایسی بھی خبریں ہیں کہ تحریک انصاف کے صف اول کی قیادت جس میں بیرسٹر گوہر عمر ایوب، اسد قیصر اور دیگرشامل ہیں، انھوں نے بھی چوہدری پرویز الٰہی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ انھیں اڈیالہ میں بانی تحریک انصاف سے ملنے کا بھی پیغام آیا ہے۔ لیکن ابھی چوہدری پرویز الٰہی نے اس پر بھی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔
وہ جب سے جیل سے آئے ہیں۔ انھوں نے نہ تو کوئی سیاسی ملاقات کی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی سرگرمی کی ہے۔ وہ خاموشی سے اپنے گھر میں موجود ہیں۔اس خاموشی نے بہت سی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔کیا خاموشی رہائی کی شرائط میں شامل ہے؟ لیکن کب تک اور کتنی خاموشی ہے؟ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ابھی دو تین ہفتے کی خاموشی ہے۔ باقی کا فیصلہ پھر کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ خاموشی سے کیا حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نقصان بھی کوئی نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا کہ اتنی لمبی قید کے بعد کچھ وقت تو درکارتھا۔
فیملی کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔ آرام کرنا تھا، صحت کے معاملات تھے۔ اور بھی کئی معاملات تھے۔ جب سرگرم ہوں گے تو کون ان خاموشی کے ایام کے بارے میں پوچھے گا۔ سیاسی سرگرمیاں چھا جائیں گی۔ اس لیے خاموشی کا کوئی خاص نقصان نہیں۔ وقتی طور پر چہ موگوئیاں ہو رہی ہیں۔ لوگ سوال کر رہے ہیں۔ لیکن ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ جب بات کریں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن اگر خاموشی کسی مفاہمت کی وجہ سے ہے تو پھر بعد میں بھی بولنا مشکل ہو جائے گا۔ مفاہمت ایک دفعہ ہو جائے تو توڑنا مشکل ہو جاتی ہے۔ لمبی خاموشی کے بعد بولنا ایسا ہی ہے جیسے دوبارہ سیاست شروع کرنا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ چوہدری مونس الٰہی کی مشکلات ابھی موجود ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان بہت فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ کیسے کم ہوں گے، کم از کم میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔
کچھ لوگ ان کے بیرون جانے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ صحت کے مسائل کو سامنے رکھا جائے تو ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی کے بعد حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال کے منظر عام پر آنے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ بانی تحریک انصاف نے انھیں منظر عام پر آکر پنجاب کی سیاست سنبھالنے کا کہا ہے۔
فیصل وواڈا صاحب کا تبصرہ تھا کہ ان دونوں کو پرویز الٰہی کے خوف سے منظر عام پر لایا جا رہا ہے کہ کہیں پرویز الٰہی پنجاب کی تحریک انصا ف کی سیاست قابو نہ کر لیں۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی کی خاموشی کے بعد حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال کے منظر عام پر آنے کی باتیں بھی خاموشی ہو گئی ہیں۔ لیکن کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کے اندر ان خاموشی پر باتیں ہورہی ہیں اور یہ بھی سوچا جارہا ہے اگر وہ متحرک ہو جاتے تب صورتحال کیا ہوگی۔
دوران قید چوہدری پرویز الٰہی کی چوہدری شجاعت حسین اور ان کے بیٹوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں۔ لیکن ان ملاقاتوں میں کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا تھا۔کہا جاتا ہے کہ خاندان کے بڑوں کے درمیان تو کوئی اختلافات نہیں ہیں، البتہ بچوں کی لڑائیں ہیں جن میں سب بزرگ اپنے اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چوہدری مونس الٰہی کے حوالے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ''سیاست اپنی اپنی''۔ آج چوہدری سالک حسین اور چوہدری شافع کا بھی یہی موقف ہے کہ ''سیاست اپنی اپنی''۔
بہر حال آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں، حالیہ سیاسی کھیل میں چوہدری شجاعت حسین کے بچے فاتح نظر آرہے ہیں۔ انھوں نے گجرات کی سیاست پر اپنی گرفت خاصی مضبوط کرلی ہے ۔کل تک یہ سمھجا جاتا تھا کہ سالک اور شافع کو گجرات کی سیاست میں کون جانتا ہے، ان کی گجرات میں کوئی سیٹ نہیں ہے لیکن اب گجرات کی سیاست میں سالک اور شافع چھائے ہوئے ہیں۔ چوہدری وجاہت جو کل تک چوہدری پرویز الٰہی کا دم بھرتے تھے، آج وہی چوہدری سالک کے ساتھ ہیں، ان کے بیٹے موسیٰ الہی نے چوہدری پرویز الٰہی کے مدمقابل ضمنی الیکشن لڑا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کو ہرا کر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔
ایک سال میں چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت کھیل ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ رہائی کے بعد ان کی خاموشی نے بھی سب کو حیران کررکھا ہے۔ ورنہ وہ عدالت میں پیشی پر بھی آتے تھے تو میڈیا سے بات ضرور کرتے تھے۔ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کا ا علان ضرور کرتے تھے۔ لیکن رہائی کے بعد انھوں نے میڈیا سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ ورنہ جس چوہدری پرویز الٰہی کو سب جانتے ہیں، وہ تو جیل سے جلوس کے ہمراہ گھر آتے اور کارکنوں سے خطاب کرتے، میڈیا سے الگ بات کرتے۔
وہ تحریک انصاف کے صدر ہیں ، پوری تحریک انصاف ان کے استقبال کے لیے آتی۔ایسی بھی خبریں ہیں کہ تحریک انصاف کے صف اول کی قیادت جس میں بیرسٹر گوہر عمر ایوب، اسد قیصر اور دیگرشامل ہیں، انھوں نے بھی چوہدری پرویز الٰہی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ انھیں اڈیالہ میں بانی تحریک انصاف سے ملنے کا بھی پیغام آیا ہے۔ لیکن ابھی چوہدری پرویز الٰہی نے اس پر بھی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔
وہ جب سے جیل سے آئے ہیں۔ انھوں نے نہ تو کوئی سیاسی ملاقات کی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی سرگرمی کی ہے۔ وہ خاموشی سے اپنے گھر میں موجود ہیں۔اس خاموشی نے بہت سی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔کیا خاموشی رہائی کی شرائط میں شامل ہے؟ لیکن کب تک اور کتنی خاموشی ہے؟ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ابھی دو تین ہفتے کی خاموشی ہے۔ باقی کا فیصلہ پھر کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ خاموشی سے کیا حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نقصان بھی کوئی نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا کہ اتنی لمبی قید کے بعد کچھ وقت تو درکارتھا۔
فیملی کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔ آرام کرنا تھا، صحت کے معاملات تھے۔ اور بھی کئی معاملات تھے۔ جب سرگرم ہوں گے تو کون ان خاموشی کے ایام کے بارے میں پوچھے گا۔ سیاسی سرگرمیاں چھا جائیں گی۔ اس لیے خاموشی کا کوئی خاص نقصان نہیں۔ وقتی طور پر چہ موگوئیاں ہو رہی ہیں۔ لوگ سوال کر رہے ہیں۔ لیکن ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ جب بات کریں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن اگر خاموشی کسی مفاہمت کی وجہ سے ہے تو پھر بعد میں بھی بولنا مشکل ہو جائے گا۔ مفاہمت ایک دفعہ ہو جائے تو توڑنا مشکل ہو جاتی ہے۔ لمبی خاموشی کے بعد بولنا ایسا ہی ہے جیسے دوبارہ سیاست شروع کرنا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ چوہدری مونس الٰہی کی مشکلات ابھی موجود ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان بہت فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ کیسے کم ہوں گے، کم از کم میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔
کچھ لوگ ان کے بیرون جانے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ صحت کے مسائل کو سامنے رکھا جائے تو ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی کے بعد حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال کے منظر عام پر آنے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ بانی تحریک انصاف نے انھیں منظر عام پر آکر پنجاب کی سیاست سنبھالنے کا کہا ہے۔
فیصل وواڈا صاحب کا تبصرہ تھا کہ ان دونوں کو پرویز الٰہی کے خوف سے منظر عام پر لایا جا رہا ہے کہ کہیں پرویز الٰہی پنجاب کی تحریک انصا ف کی سیاست قابو نہ کر لیں۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی کی خاموشی کے بعد حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال کے منظر عام پر آنے کی باتیں بھی خاموشی ہو گئی ہیں۔ لیکن کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کے اندر ان خاموشی پر باتیں ہورہی ہیں اور یہ بھی سوچا جارہا ہے اگر وہ متحرک ہو جاتے تب صورتحال کیا ہوگی۔