نیند کی پُراسرار بیماری
ہزارہا تجربات کے بعد بھی پراسرار نیند کی وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا۔
آج کل روس کے ماہر سائنس داں نیند کی ایک ایسی پراسرار بیماری کے اسباب معلوم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں
جس سے متاثر ہونے والے افراد ایک آدھ گھنٹے یا ایک آدھ دن نہیں بلکہ پورے پورے ہفتے مسلسل سوتے رہتے ہیں۔ یہ واقعات سوویت یونین دور کے ایک بھوتوں والے قصبے میں مقیم افراد کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ یہ قصبہ پہلے ہی غیرآباد ہوچکا ہے، یہاں گنتی کے افراد ہی رہائش پذیر ہیں جنہیں اپنی زندگی کی بقا کے لیے بڑی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ لوگ اس پراسرار نیند میں مبتلا ہوکر ہر وقت سوتے رہتے ہیں تو روزی روٹی کب اور کیسے کمائیں گے؟
بالکل یہی کیفیت قزاقستان کے قریب واقع ایک گائوں کی بھی جہاں اب گنتی کے لوگ ہی رہتے ہیں۔ روس کے علاقےKrasnogorsk اور قزاقستان کے علاقے کالاچی کے درجنوں لوگ بھی اس پراسرار نیند کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں جو انہیں پورا ہفتہ ہی سلائے رکھتی ہے۔ اگر یہ لوگ جاگتے بھی ہیں تو ہر وقت اونگھتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی نیند کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ اس بیماری میں مبتلا ایک مقامی بوڑھے کو تو مُردہ سمجھ کر زندہ دفن کردیا گیا تھا، مگر جب وہ زندہ نکلا تو پھر یہاں بے چینی پھیل گئی اور ماہرین نے اس وبائی مرض کے بارے میں تحقیق شروع کی تب یہ انکشاف ہوا کہ یہاں کے لوگ مسلسل سوتے رہتے ہیں۔ دوران تحقیق ماہرین نے یہ بھی پتا چلایا کہ یہ بیماری یورینیم کی ایک ایسی سرنگ کے قریب واقع علاقوں میں پھیل رہی ہے جو اب استعمال میں نہیں رہی ہے۔
پراسرار نیند کی یہ بیماری پہلے اچانک مئی 2013میں منظر عام پر آئی جس کے بعد اس نے 2014کے نئے سال میں اپنا جلوہ دکھایا اور پھر مئی 2014 میں اس حوالے سے کئی کیسز سامنے آئے۔ یہاں کے بعض افراد خاص طور سے بوڑھے افراد تو ہر وقت اپنا بیگ تیار رکھتے ہیں کہ کہیں انہیں فوری طور پر اسپتال نہ لے جانا پڑے۔ عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نیند کی اس پراسرار بیماری کا سبب قریب ہی واقع یورینیم کی وہ کان ہے جو اب استعمال میں نہیں رہی ہے۔ لیکن جب ماہرین نے اس حوالے سے تحقیق کی تو انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جو یورینیم کی کان اور نیند کی بیماری کے درمیان کوئی تعلق قائم کرسکے۔
پراسرار نیند کے مریضوں پر لگ بھگ 7,000تجربات کیے جاچکے ہیں۔ اس دوران ہر طرح کے ٹیسٹ کیے گئے جن میں مقامی وڈکا شراب کا تجزیہ اور تاب کاری کا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی علاقے کی مٹی، پانی اور ہوا کو بھی چیک کیا گیا اور متاثرہ افراد کا خون، بال اور ناخن بھی ٹیسٹ ہوئے۔ لیکن ابھی تک کوئی ایسا نتیجہ سامنے نہیں آیا جو اس بیماری کی وجوہ پر روشنی ڈال سکے۔
بچے اس بیماری سے زیادہ متاثر ہوئے۔ انہیں خوف ناک خواب دکھائی دیتے ہیں، وہ واہموں اور فریب نظر کا شکار بھی رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کمزوری بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ ہر وقت غنودگی کی کیفیت میں دکھائی دیتے ہیں، یہاں تک کہ اس مرض میں مبتلا بچوں کی یادداشت بھی متاثر ہوگئی ہے۔ دوسری جانب بالغوں کی کیفیت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ ان کے سامنے مکمل اندھیرا چھاجاتا ہے۔
کالاچی سے تعلق رکھنے والی پچاس سالہ خاتون Marina Felk نے اخباری نمائندوں کو بتایا:''میں حسب معمول علی الصبح گایوں کا دودھ دوہ رہی تھی کہ یکایک میرے سامنے اندھیرا چھا گیا اور سب کچھ غائب ہوگیا، ہوش آیا تو میں اسپتال کے ایک وارڈ میں تھی، مجھے دیکھ کر نرسوں نے مسکراتے ہوئے کہا:''خوش آمدید سلیپنگ پرنسز، آخرکار تم بیدار ہوگئیں!''
مجھے کچھ بھی یاد نہیں تھا، جب کہ مجھے بتایا گیا کہ میں پورے دو دن اور دو راتیں سوتی رہی تھی۔ میرے وارڈ میں موجود ایک نرس نے مجھے بتایا کہ جب کبھی اس نے مجھے جگانے کی کوشش کی تو میں مسلسل یہی کہتی رہی:''مجھے اپنی گایوں کا دودھ دوہنا ہے۔''
تیس سالہ Alexey Gom نیند کی اس پراسرار بیماری کا اس وقت شکار ہوا جب وہ اپنے رشتے داروں سے ملنے کالاچی گیا تھا۔
اس نے کہا:''میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی ساس کو دیکھنے اور ان کی مزاج پرسی کرنے گیا تھا۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور اس کے صفحات کھولنے شروع کیے، کیوں کہ مجھے اپنا کام جلدی نمٹانا تھا۔ بس اسی وقت مجھ پر اس بیماری کا حملہ ہوگیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کا بٹن بند کردیا ہے۔ میری آنکھ اسپتال میں کھلی۔ میری بیوی اور میری ساس میرے بستر کے پاس کھڑی تھیں۔ ڈاکٹروں نے میرے کئی ٹیسٹ لیے اور بتایا کہ میرے ساتھ کوئی گڑبڑ نہیں ہے، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں تیس گھنٹے سے زیادہ عرصے تک سوتا رہا تھا۔ مگر اس کا سبب کوئی ڈاکٹر معلوم نہ کرسکا۔''
سوویت دور میں Krasnogorsk یورینیم کی خفیہ سرنگ والا قصبہ تھا، مگر یہ سرنگ عرصہ ہوا بند ہوچکی ہے۔ اس سرنگ کو اور اس میں ہونے والے کام کو براہ راست ماسکو سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ یہ قصبہ کسی زمانے میں 6,500 افراد کا گھر تھا، اب وہاں بہ مشکل 130 افراد بستے ہیں جنہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
لوکل کمیونٹی کونسل کے سربراہ الیگزینڈر ریٹس نے بتایا:''ہماری دکانوں پر آپ کو سب کچھ مل جائے گا: گوشت، کنڈینسڈ ملک، یوگوسلاویہ کے بنے ہوئے جوتے، ایک کان کن یہاں ہر سال تین نئی کاریں خرید سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی دو نرسریاں بھی ہیں اور دونوں میں سوئمنگ پول ہیں۔''
کچھ مقامی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے درجۂ حرارت کے اچانک بڑھنے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، لیکن اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔
کچھ سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ یہاں کی کان سے یورینیم گیس بھاپ بن کر اڑتی ہے، جب کہ دوسروں کا دعویٰ ہے کہ یہ گیس مذکورہ بالا یورینیم کی کان سے رس رس کر مقامی دریائوں کے پانی میں شامل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نیند کی یہ پراسرار بیماری پیدا ہوئی ہے۔
یہ بیماری امریکا میں پھیلی 'Bin Laden itch' نامی بیماری سے ملتی جلتی ہے جس میں متاثرہ افراد کی جلد پر سرخ دھبے پڑگئے تھے۔ مقامی افراد اس اندیشے کا اظہار کررہے ہیں کہ کہیں یہ بیماری بھی اسی طرح کی بیماری نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔
اس خطے کے ایک ماہر ڈاکٹر کا یہ بھی کہنا ہے:''جب مریض نیند سے جاگتا ہے تو اسے کچھ یاد نہیں ہوتا۔ یہ کہانی ہر بار ایک ہی ہوتی ہے۔ اس میں متاثرہ فرد کمزور ہوجاتا ہے، وہ سست روی کے ساتھ ری ایکشن ظاہر کرتا ہے اور پھر گہری نیند سوجاتا ہے۔ افسوس کہ ابھی تک ہم نہ تو اس بیماری کی نوعیت جان سکے اور نہ اس کے اسباب کا پتا چلاسکے ہیں۔ ہم نے انفیکشنز کو نظر انداز کرتے ہوئے خون کو بھی چیک کیا اور ریڑھ کی ہڈی کے پانی کو بھی، مگر یہ سب ٹھیک نکلے۔ دوسرے پہلوئوں پر بھی غور کیا گیا، مگر سب کچھ ٹھیک ہے البتہ اس بیماری کے اسباب معلوم نہ ہوسکے۔ یہ لوگ پورے ہفتے سوتے ہیں، کیوں؟ جیسے ہی اس کا سبب معلوم ہوگا، ہم اس سے بچائو کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں گے۔''
جس سے متاثر ہونے والے افراد ایک آدھ گھنٹے یا ایک آدھ دن نہیں بلکہ پورے پورے ہفتے مسلسل سوتے رہتے ہیں۔ یہ واقعات سوویت یونین دور کے ایک بھوتوں والے قصبے میں مقیم افراد کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ یہ قصبہ پہلے ہی غیرآباد ہوچکا ہے، یہاں گنتی کے افراد ہی رہائش پذیر ہیں جنہیں اپنی زندگی کی بقا کے لیے بڑی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ لوگ اس پراسرار نیند میں مبتلا ہوکر ہر وقت سوتے رہتے ہیں تو روزی روٹی کب اور کیسے کمائیں گے؟
بالکل یہی کیفیت قزاقستان کے قریب واقع ایک گائوں کی بھی جہاں اب گنتی کے لوگ ہی رہتے ہیں۔ روس کے علاقےKrasnogorsk اور قزاقستان کے علاقے کالاچی کے درجنوں لوگ بھی اس پراسرار نیند کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں جو انہیں پورا ہفتہ ہی سلائے رکھتی ہے۔ اگر یہ لوگ جاگتے بھی ہیں تو ہر وقت اونگھتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی نیند کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ اس بیماری میں مبتلا ایک مقامی بوڑھے کو تو مُردہ سمجھ کر زندہ دفن کردیا گیا تھا، مگر جب وہ زندہ نکلا تو پھر یہاں بے چینی پھیل گئی اور ماہرین نے اس وبائی مرض کے بارے میں تحقیق شروع کی تب یہ انکشاف ہوا کہ یہاں کے لوگ مسلسل سوتے رہتے ہیں۔ دوران تحقیق ماہرین نے یہ بھی پتا چلایا کہ یہ بیماری یورینیم کی ایک ایسی سرنگ کے قریب واقع علاقوں میں پھیل رہی ہے جو اب استعمال میں نہیں رہی ہے۔
پراسرار نیند کی یہ بیماری پہلے اچانک مئی 2013میں منظر عام پر آئی جس کے بعد اس نے 2014کے نئے سال میں اپنا جلوہ دکھایا اور پھر مئی 2014 میں اس حوالے سے کئی کیسز سامنے آئے۔ یہاں کے بعض افراد خاص طور سے بوڑھے افراد تو ہر وقت اپنا بیگ تیار رکھتے ہیں کہ کہیں انہیں فوری طور پر اسپتال نہ لے جانا پڑے۔ عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نیند کی اس پراسرار بیماری کا سبب قریب ہی واقع یورینیم کی وہ کان ہے جو اب استعمال میں نہیں رہی ہے۔ لیکن جب ماہرین نے اس حوالے سے تحقیق کی تو انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جو یورینیم کی کان اور نیند کی بیماری کے درمیان کوئی تعلق قائم کرسکے۔
پراسرار نیند کے مریضوں پر لگ بھگ 7,000تجربات کیے جاچکے ہیں۔ اس دوران ہر طرح کے ٹیسٹ کیے گئے جن میں مقامی وڈکا شراب کا تجزیہ اور تاب کاری کا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی علاقے کی مٹی، پانی اور ہوا کو بھی چیک کیا گیا اور متاثرہ افراد کا خون، بال اور ناخن بھی ٹیسٹ ہوئے۔ لیکن ابھی تک کوئی ایسا نتیجہ سامنے نہیں آیا جو اس بیماری کی وجوہ پر روشنی ڈال سکے۔
بچے اس بیماری سے زیادہ متاثر ہوئے۔ انہیں خوف ناک خواب دکھائی دیتے ہیں، وہ واہموں اور فریب نظر کا شکار بھی رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کمزوری بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ ہر وقت غنودگی کی کیفیت میں دکھائی دیتے ہیں، یہاں تک کہ اس مرض میں مبتلا بچوں کی یادداشت بھی متاثر ہوگئی ہے۔ دوسری جانب بالغوں کی کیفیت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ ان کے سامنے مکمل اندھیرا چھاجاتا ہے۔
کالاچی سے تعلق رکھنے والی پچاس سالہ خاتون Marina Felk نے اخباری نمائندوں کو بتایا:''میں حسب معمول علی الصبح گایوں کا دودھ دوہ رہی تھی کہ یکایک میرے سامنے اندھیرا چھا گیا اور سب کچھ غائب ہوگیا، ہوش آیا تو میں اسپتال کے ایک وارڈ میں تھی، مجھے دیکھ کر نرسوں نے مسکراتے ہوئے کہا:''خوش آمدید سلیپنگ پرنسز، آخرکار تم بیدار ہوگئیں!''
مجھے کچھ بھی یاد نہیں تھا، جب کہ مجھے بتایا گیا کہ میں پورے دو دن اور دو راتیں سوتی رہی تھی۔ میرے وارڈ میں موجود ایک نرس نے مجھے بتایا کہ جب کبھی اس نے مجھے جگانے کی کوشش کی تو میں مسلسل یہی کہتی رہی:''مجھے اپنی گایوں کا دودھ دوہنا ہے۔''
تیس سالہ Alexey Gom نیند کی اس پراسرار بیماری کا اس وقت شکار ہوا جب وہ اپنے رشتے داروں سے ملنے کالاچی گیا تھا۔
اس نے کہا:''میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی ساس کو دیکھنے اور ان کی مزاج پرسی کرنے گیا تھا۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور اس کے صفحات کھولنے شروع کیے، کیوں کہ مجھے اپنا کام جلدی نمٹانا تھا۔ بس اسی وقت مجھ پر اس بیماری کا حملہ ہوگیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کا بٹن بند کردیا ہے۔ میری آنکھ اسپتال میں کھلی۔ میری بیوی اور میری ساس میرے بستر کے پاس کھڑی تھیں۔ ڈاکٹروں نے میرے کئی ٹیسٹ لیے اور بتایا کہ میرے ساتھ کوئی گڑبڑ نہیں ہے، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں تیس گھنٹے سے زیادہ عرصے تک سوتا رہا تھا۔ مگر اس کا سبب کوئی ڈاکٹر معلوم نہ کرسکا۔''
سوویت دور میں Krasnogorsk یورینیم کی خفیہ سرنگ والا قصبہ تھا، مگر یہ سرنگ عرصہ ہوا بند ہوچکی ہے۔ اس سرنگ کو اور اس میں ہونے والے کام کو براہ راست ماسکو سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ یہ قصبہ کسی زمانے میں 6,500 افراد کا گھر تھا، اب وہاں بہ مشکل 130 افراد بستے ہیں جنہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
لوکل کمیونٹی کونسل کے سربراہ الیگزینڈر ریٹس نے بتایا:''ہماری دکانوں پر آپ کو سب کچھ مل جائے گا: گوشت، کنڈینسڈ ملک، یوگوسلاویہ کے بنے ہوئے جوتے، ایک کان کن یہاں ہر سال تین نئی کاریں خرید سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی دو نرسریاں بھی ہیں اور دونوں میں سوئمنگ پول ہیں۔''
کچھ مقامی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے درجۂ حرارت کے اچانک بڑھنے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، لیکن اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔
کچھ سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ یہاں کی کان سے یورینیم گیس بھاپ بن کر اڑتی ہے، جب کہ دوسروں کا دعویٰ ہے کہ یہ گیس مذکورہ بالا یورینیم کی کان سے رس رس کر مقامی دریائوں کے پانی میں شامل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نیند کی یہ پراسرار بیماری پیدا ہوئی ہے۔
یہ بیماری امریکا میں پھیلی 'Bin Laden itch' نامی بیماری سے ملتی جلتی ہے جس میں متاثرہ افراد کی جلد پر سرخ دھبے پڑگئے تھے۔ مقامی افراد اس اندیشے کا اظہار کررہے ہیں کہ کہیں یہ بیماری بھی اسی طرح کی بیماری نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔
اس خطے کے ایک ماہر ڈاکٹر کا یہ بھی کہنا ہے:''جب مریض نیند سے جاگتا ہے تو اسے کچھ یاد نہیں ہوتا۔ یہ کہانی ہر بار ایک ہی ہوتی ہے۔ اس میں متاثرہ فرد کمزور ہوجاتا ہے، وہ سست روی کے ساتھ ری ایکشن ظاہر کرتا ہے اور پھر گہری نیند سوجاتا ہے۔ افسوس کہ ابھی تک ہم نہ تو اس بیماری کی نوعیت جان سکے اور نہ اس کے اسباب کا پتا چلاسکے ہیں۔ ہم نے انفیکشنز کو نظر انداز کرتے ہوئے خون کو بھی چیک کیا اور ریڑھ کی ہڈی کے پانی کو بھی، مگر یہ سب ٹھیک نکلے۔ دوسرے پہلوئوں پر بھی غور کیا گیا، مگر سب کچھ ٹھیک ہے البتہ اس بیماری کے اسباب معلوم نہ ہوسکے۔ یہ لوگ پورے ہفتے سوتے ہیں، کیوں؟ جیسے ہی اس کا سبب معلوم ہوگا، ہم اس سے بچائو کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں گے۔''