وزیراعظم کو عدلیہ میں کالی بھیڑیں نظر آتی ہیں تو ریفرنس دائر کردیں سپریم کورٹ
اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم کو بتادیں عدلیہ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں،ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں، جسٹس اطہر
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
خیبرپختونخواہ حکومت کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل کے پی کے نے سماعت لائیو نشر کرنے کی درخواست کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لائیو اسٹریم کی حمایت کی تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک ٹیکنیکل کیس ہے اس میں عوامی مفاد یا دلچپسی کا معاملہ نہیں۔
بینچ نے مشاورت کے بعد براہ راست نشریات کی درخواست چار ایک کے تناسب سے مسترد کردی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے، پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، اگر پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کردے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں : 8 فروری کو ملک میں بڑا ڈاکا مارا گیا، عمران خان کا چیف جسٹس سے مکالمہ
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ وزیراعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا تھا؟
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ الفاظ موجود ججز کےلئے استعمال نہیں کئے گئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم صاحب کو بتا دیں عدلیہ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں ہیں، اگر وزیراعظم صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ میں کالی بھیڑیں ہیں تو انکے خلاف ریفرنس فائل کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم صاحب کو بتادیں ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جو حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔
وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 100 ملین روپے کی کرپشن پر نیب کو کارروائی کا کہا گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے، اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنا نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کی تحقیقات کی بات کی، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنا دیا جاسکتا ہے، ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں، کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، آپ تو آرڈیننس جاری کرکے درخواست گزار کے ساتھ جاملے ہیں، کیا آرڈیننس کے ذریعے قانون میں تبدیلی کسی خاص فرد کیلئے ہے، کیا آرڈیننس لاکر پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو نیچا نہیں دکھایا گیا۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ آئی بی اور حساس ادارے میرا پیچھا کررہے ہیں، مجھے دو دفعہ جہاز سے اتارا گیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواب میں کہا کہ ایسی باتیں ناکریں، کہیں ایسا نا ہوکہ آپ کے خلاف بھی سینیٹ میں تقریریں شروع ہوجائیں، کیا کسی سیاستدان نے نیب کیسز بھگتنے کے بعد کبھی پریس کانفرنس کی ہے کہ اس کیساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا۔
عدالت نے نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جون تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
خیبرپختونخواہ حکومت کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل کے پی کے نے سماعت لائیو نشر کرنے کی درخواست کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لائیو اسٹریم کی حمایت کی تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک ٹیکنیکل کیس ہے اس میں عوامی مفاد یا دلچپسی کا معاملہ نہیں۔
بینچ نے مشاورت کے بعد براہ راست نشریات کی درخواست چار ایک کے تناسب سے مسترد کردی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے، پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، اگر پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کردے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں : 8 فروری کو ملک میں بڑا ڈاکا مارا گیا، عمران خان کا چیف جسٹس سے مکالمہ
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ وزیراعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا تھا؟
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ الفاظ موجود ججز کےلئے استعمال نہیں کئے گئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم صاحب کو بتا دیں عدلیہ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں ہیں، اگر وزیراعظم صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ میں کالی بھیڑیں ہیں تو انکے خلاف ریفرنس فائل کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم صاحب کو بتادیں ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جو حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔
وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 100 ملین روپے کی کرپشن پر نیب کو کارروائی کا کہا گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے، اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنا نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کی تحقیقات کی بات کی، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنا دیا جاسکتا ہے، ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں، کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، آپ تو آرڈیننس جاری کرکے درخواست گزار کے ساتھ جاملے ہیں، کیا آرڈیننس کے ذریعے قانون میں تبدیلی کسی خاص فرد کیلئے ہے، کیا آرڈیننس لاکر پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو نیچا نہیں دکھایا گیا۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ آئی بی اور حساس ادارے میرا پیچھا کررہے ہیں، مجھے دو دفعہ جہاز سے اتارا گیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواب میں کہا کہ ایسی باتیں ناکریں، کہیں ایسا نا ہوکہ آپ کے خلاف بھی سینیٹ میں تقریریں شروع ہوجائیں، کیا کسی سیاستدان نے نیب کیسز بھگتنے کے بعد کبھی پریس کانفرنس کی ہے کہ اس کیساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا۔
عدالت نے نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جون تک ملتوی کردی۔