عطیہ فیضی… بُلبلِ ہزار داستان
اس کا اب تک سوائے آرٹس کونسل کے کسی ادارے نے کوئی فرض ادا کیا ہے
عطیہ فیضی رحمین اپنے دور کی ایک نامور شخصیت رہی ہیں جن کا ادب، ثقافت اور آرٹس سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ اس تاریخ ساز شخصیت سے بہت کم لوگوں کو آگاہی حاصل رہی ہے۔
زیادہ تر لوگوں نے بس اس شخصیت کا نام ہی سنا ہے، وہ اس شخصیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، تاریخ کے جھروکوں میں عطیہ فیضی کا بڑا چرچا رہا ہے۔ وہ کون تھیں، کیا تھیں اور ایک زمانے میں کتنے نامور لوگ ان کے دیوانے تھے، اس بات کا علم بہت ہی کم لوگوں کو ہے۔
جتنے بھی لوگ آرٹس کونسل سے وابستہ ہیں وہ لوگ عطیہ فیضی رحمین کے نام سے واقف ضرور ہیں مگر اس نامور خاتون کی شخصیت سے کسی کو کبھی دلچسپی نہیں رہی، ہاں اتنا ضرور ہے کہ آرٹس کونسل کراچی جب بھی نام آتا ہے تو عطیہ فیضی کا نام بھی احساس کے پردے پر جگمگاتا ضرور ہے کیونکہ آرٹس کونسل کے عقب میں ایک عطیہ فیضی ہال بھی ہے۔ فیض صاحب کی شہرت بھی عطیہ کے نام سے جڑی تو وہ بھی مشہور ہوتے چلے گئے تھے مگر ان کی شہرت عطیہ ہی کی مرہون منت تھی۔ عطیہ فیضی کے والد برطانوی حکومت میں کمشنر کے عہدے پر فائز تھے۔
ان کی اس دور کے نامور ادیبوں اور شاعروں سے بھی بڑی وابستگی رہی تھی اور خاص طور پر مولانا شبلی نعمانی سے بڑی گہری دوستی اور بے تکلفی بھی تھی۔ عطیہ خوبصورت خاتون تھیں جب کہ تہذیب بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ شعر و ادب کے ساتھ موسیقی کی بھی بڑی دلدادہ تھیں، سُر اور لے کا بھی بڑا شعور رکھتی تھیں، کوئی غزل پسند آ جاتی تو وہ اس کی دھن بنا کر گنگنایا کرتی تھیں اور اپنے گھر کی محفلوں میں گایا بھی کرتی تھیں، وہ اپنے دور کی بہت ہی ماڈرن اورلبرل خاتون تھیں، سُروں کی انھیں بڑی پہچان تھی جب کہ بہت سے راگوں اور راگنیوں کا بھی انھیں شعور حاصل تھا۔ نجی محفل میں جب بھی کوئی غزل گاتی تھیں تو ایک سماں باندھ دیتیں۔
لوگ ان کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی آواز کے بھی دیوانے تھے۔ وہ خاصی سوشل خاتوں تھیں، وہ اکثر اپنے گھر اور گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ محفل برپا کرتی تھیں اور اس معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، ان پارٹیوں کا بڑے بڑے لوگوں میں کئی روز تک چرچا رہتا تھا لیکن ان کی شخصیت ایک کھلی کتاب نہیں تھی ، وہ ایک پراسرار شخصیت کے طور پر بھی مشہور تھیں۔ ان کی شخصیت میں ایک سحر تھا جو لوگوں کو ان کی طرف کھینچنے کی ترغیب دیتا تھا، عطیہ کے ساتھ ایک نوجوان فیضی کا نام اس وقت جڑا تھا جب عطیہ باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہندوستان واپس آئی تھیں۔ عطیہ کو اردو ادب کے ساتھ انگریزی ادب پر بھی عبور حاصل تھا۔
عطیہ اردو، فارسی انگریزی اور فرانسیسی زبان پر بھی بڑا عبور رکھتی تھیں، انھیں مرزا غالب، میر تقی میر اور بہت سے جید شعرا کے اشعار ازبر تھے اور وہ اپنی محفلوں میں اور دوستوں کے درمیان موقع محفل کے حساب سے بھی خوب استعمال کرتی تھیں، انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی ان کو عبور حاصل تھا، وہ ایک طلسماتی شخصیت کہلائی جاتی تھیں ۔ ان کے قریب وہی جا سکتا تھا جو ان کے مزاج اور معیار کی کسوٹی پر پورا ہوتا تھا۔
عطیہ کو ان کے چاہنے والوں کی طرف سے بے تحاشا خطوط بھی موصول ہوتے تھے جن میں شدت کے ساتھ چاہت کا اظہار ہوا کرتا تھا، بعض لوگوں نے عطیہ کو اپنے دور کی ملکہ قلوپطرہ کا خطاب بھی دے دیا تھا۔ عطیہ کی داستان بھی ایک ایسی ہی ملکہ کی طرح زبان زد و خاص و عام رہی ہے۔
بمبئی میں جب ودھویں کے چاند کی رات ہوتی تھی تو عطیہ اکثر و بیشتر اپنی طرف سے ایک خوبصورت پارٹی کا اہتمام کیا کرتی تھی جس میں عطیہ کی ہم جولیاں سفید لباس پہن کر اس تقریب میں شرکت کیا کرتی تھیں، ساحل سمندر پر سجائی جانے والی اس تقریب میں نوجوان لڑکیاں، عورتیں موتیا اور چمپا کے پھولوں کے گجرے پہن کر شامل ہوتی تھیں، کان کی بالیوں میں بھی چنبیلی کے پھول پروئے ہوتے تھے، بالوں کے جوڑے میں بھی سفید پھولوں کے ہار لپٹے ہوئے ہوتے اور پھر ساز کی سنگت کے ساتھ ساحل سمندر پر چاندنی کے گیت گائے جاتے تھے، چاند اور چکور کی محبت کے قصے دہرائے جاتے تھے۔
ساحل سمندر پر یوں لگتا تھا کہ جیسے پریاں آ کے چہل پہل کر رہی ہوں۔ عطیہ کی زندگی میں بمبئی کا ایک بزنس مین اتنے قریب آ گیا تھا کہ عطیہ نے بھی اپنا دل اسے دے دیا تھا۔ اس کا نام فیضی تھا، وہ ایک بزنس مین بھی تھا اور ایک مشہور مصور اور پینٹر بھی تھا۔ فیضی کے آرٹ نے عطیہ کا دل موہ لیا تھا۔ دونوں کی چند ملاقاتوں نے شادی کا روپ دھار لیا تھا اور وہ عطیہ جو ہزاروں دلوں کی دھڑکن اور ہزاروں لوگوں کا خواب ہوا کرتی تھی، فیضی کے گلے کا ہار بن گئی تھی۔
فیضی کی محبت نے عطیہ کو بھی دیوانہ کر دیا تھا اور فیضی کے آرٹ نے عطیہ کے دل پر ایسی دستک دی تھی کہ عطیہ بھی فیضی کی صورت اور اس کے آرٹ کی اسیر ہوگئی تھی۔ پھر دونوں نے زندگی بھر ٹوٹ کر محبت کی، دونوں نے شادی کر لی، تقسیم ہند کے بعد عطیہ اپنے شوہر فیضی کے ساتھ پاکستان آگئی تھیں، باقی کی زندگی پاکستان ہی میں گزری تھی۔ عطیہ فیضی کی زندگی کا اختتام بھی پاکستان ہی میں ہوا، لندن میں عطیہ کی ملاقات علامہ اقبال سے بھی ہوئی تھی اور پھر کافی عرصے تک علامہ اقبال اور عطیہ کے درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔
علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کی بھی عطیہ سے ایک زمانے میں گہری واقفیت رہی ہے۔ عطیہ فیضی پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، اقبال اور عطیہ کے خطوط کو ایک زمانے میں بڑی ہوا دی گئی تھی۔ علامہ اقبال کی ملاقات لندن میں 1905 میں عطیہ سے ہوئی تھی۔ پھر یہ سلسلہ ایک طویل عرصے تک قائم رہا تھا۔ ان خطوط کا بھی مختلف انداز سے چرچا کیا جاتا رہا ہے، بعض تحریروں میں بہت کچھ نمک مرچ لگا کر اور بہت کچھ رنگین بیان کر کے پیش کیا گیا ہے۔
ان قصوں میں کتنا سچ ہے اور کتنی رنگ آمیزی ہے اس کا فیصلہ کسی نے بھی کہیں بھی حتمی انداز سے نہیں کیا ہے لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ عطیہ فیضی ادب، ثقافت اور آرٹ کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام ہے، کراچی میں عطیہ فیضی کے نام سے ایک آرٹ گیلری کا آغاز 1991 میں کیا گیا تھا۔ اس عمارت کو ایوان رفعت کا نام دیا گیا ہے۔
اس سے وابستہ ایک آڈیٹوریم اور چار آرٹ گیلریز بھی ہیں۔ آڈیٹوریم اٹھارہ سو نشستوں پر مشتمل ہے۔ عطیہ فیضی سے متعلق کچھ نوادرات بھی کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس محفوظ ہیں جو عطیہ فیضی کی شان دار شخصیت کا عکس ہیں۔ یہ عمارت کچھ سست رفتاری کا شکار ضرور ہوئی ہے اور اب بڑی تیزی سے آخری مراحل کی طرف جا رہی ہے۔ امید ہے جلد ہی اس کی تکمیل مکمل ہو کر ایک اور تاریخ رقم کرے گی۔ پھر جو نوادرات ہیں ان کو اس تاریخ ساز عمارت ہی میں منتقل کر دیا جائے گا۔
نئی نسل کو عطیہ فیضی کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا اب تک سوائے آرٹس کونسل کے کسی ادارے نے کوئی فرض ادا کیا ہے۔آرٹس کونسل کراچی کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے عطیہ فیضی کی شخصیت کے کردار کو نمایاں کرنے میں اپنا بہتر کردار ادا کیا ہے۔ عطیہ فیضی کی شخصیت ایک نایاب کردار کی شاندار داستان ہے جسے بلبلِ ہزار داستان کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
زیادہ تر لوگوں نے بس اس شخصیت کا نام ہی سنا ہے، وہ اس شخصیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، تاریخ کے جھروکوں میں عطیہ فیضی کا بڑا چرچا رہا ہے۔ وہ کون تھیں، کیا تھیں اور ایک زمانے میں کتنے نامور لوگ ان کے دیوانے تھے، اس بات کا علم بہت ہی کم لوگوں کو ہے۔
جتنے بھی لوگ آرٹس کونسل سے وابستہ ہیں وہ لوگ عطیہ فیضی رحمین کے نام سے واقف ضرور ہیں مگر اس نامور خاتون کی شخصیت سے کسی کو کبھی دلچسپی نہیں رہی، ہاں اتنا ضرور ہے کہ آرٹس کونسل کراچی جب بھی نام آتا ہے تو عطیہ فیضی کا نام بھی احساس کے پردے پر جگمگاتا ضرور ہے کیونکہ آرٹس کونسل کے عقب میں ایک عطیہ فیضی ہال بھی ہے۔ فیض صاحب کی شہرت بھی عطیہ کے نام سے جڑی تو وہ بھی مشہور ہوتے چلے گئے تھے مگر ان کی شہرت عطیہ ہی کی مرہون منت تھی۔ عطیہ فیضی کے والد برطانوی حکومت میں کمشنر کے عہدے پر فائز تھے۔
ان کی اس دور کے نامور ادیبوں اور شاعروں سے بھی بڑی وابستگی رہی تھی اور خاص طور پر مولانا شبلی نعمانی سے بڑی گہری دوستی اور بے تکلفی بھی تھی۔ عطیہ خوبصورت خاتون تھیں جب کہ تہذیب بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ شعر و ادب کے ساتھ موسیقی کی بھی بڑی دلدادہ تھیں، سُر اور لے کا بھی بڑا شعور رکھتی تھیں، کوئی غزل پسند آ جاتی تو وہ اس کی دھن بنا کر گنگنایا کرتی تھیں اور اپنے گھر کی محفلوں میں گایا بھی کرتی تھیں، وہ اپنے دور کی بہت ہی ماڈرن اورلبرل خاتون تھیں، سُروں کی انھیں بڑی پہچان تھی جب کہ بہت سے راگوں اور راگنیوں کا بھی انھیں شعور حاصل تھا۔ نجی محفل میں جب بھی کوئی غزل گاتی تھیں تو ایک سماں باندھ دیتیں۔
لوگ ان کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی آواز کے بھی دیوانے تھے۔ وہ خاصی سوشل خاتوں تھیں، وہ اکثر اپنے گھر اور گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ محفل برپا کرتی تھیں اور اس معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، ان پارٹیوں کا بڑے بڑے لوگوں میں کئی روز تک چرچا رہتا تھا لیکن ان کی شخصیت ایک کھلی کتاب نہیں تھی ، وہ ایک پراسرار شخصیت کے طور پر بھی مشہور تھیں۔ ان کی شخصیت میں ایک سحر تھا جو لوگوں کو ان کی طرف کھینچنے کی ترغیب دیتا تھا، عطیہ کے ساتھ ایک نوجوان فیضی کا نام اس وقت جڑا تھا جب عطیہ باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہندوستان واپس آئی تھیں۔ عطیہ کو اردو ادب کے ساتھ انگریزی ادب پر بھی عبور حاصل تھا۔
عطیہ اردو، فارسی انگریزی اور فرانسیسی زبان پر بھی بڑا عبور رکھتی تھیں، انھیں مرزا غالب، میر تقی میر اور بہت سے جید شعرا کے اشعار ازبر تھے اور وہ اپنی محفلوں میں اور دوستوں کے درمیان موقع محفل کے حساب سے بھی خوب استعمال کرتی تھیں، انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی ان کو عبور حاصل تھا، وہ ایک طلسماتی شخصیت کہلائی جاتی تھیں ۔ ان کے قریب وہی جا سکتا تھا جو ان کے مزاج اور معیار کی کسوٹی پر پورا ہوتا تھا۔
عطیہ کو ان کے چاہنے والوں کی طرف سے بے تحاشا خطوط بھی موصول ہوتے تھے جن میں شدت کے ساتھ چاہت کا اظہار ہوا کرتا تھا، بعض لوگوں نے عطیہ کو اپنے دور کی ملکہ قلوپطرہ کا خطاب بھی دے دیا تھا۔ عطیہ کی داستان بھی ایک ایسی ہی ملکہ کی طرح زبان زد و خاص و عام رہی ہے۔
بمبئی میں جب ودھویں کے چاند کی رات ہوتی تھی تو عطیہ اکثر و بیشتر اپنی طرف سے ایک خوبصورت پارٹی کا اہتمام کیا کرتی تھی جس میں عطیہ کی ہم جولیاں سفید لباس پہن کر اس تقریب میں شرکت کیا کرتی تھیں، ساحل سمندر پر سجائی جانے والی اس تقریب میں نوجوان لڑکیاں، عورتیں موتیا اور چمپا کے پھولوں کے گجرے پہن کر شامل ہوتی تھیں، کان کی بالیوں میں بھی چنبیلی کے پھول پروئے ہوتے تھے، بالوں کے جوڑے میں بھی سفید پھولوں کے ہار لپٹے ہوئے ہوتے اور پھر ساز کی سنگت کے ساتھ ساحل سمندر پر چاندنی کے گیت گائے جاتے تھے، چاند اور چکور کی محبت کے قصے دہرائے جاتے تھے۔
ساحل سمندر پر یوں لگتا تھا کہ جیسے پریاں آ کے چہل پہل کر رہی ہوں۔ عطیہ کی زندگی میں بمبئی کا ایک بزنس مین اتنے قریب آ گیا تھا کہ عطیہ نے بھی اپنا دل اسے دے دیا تھا۔ اس کا نام فیضی تھا، وہ ایک بزنس مین بھی تھا اور ایک مشہور مصور اور پینٹر بھی تھا۔ فیضی کے آرٹ نے عطیہ کا دل موہ لیا تھا۔ دونوں کی چند ملاقاتوں نے شادی کا روپ دھار لیا تھا اور وہ عطیہ جو ہزاروں دلوں کی دھڑکن اور ہزاروں لوگوں کا خواب ہوا کرتی تھی، فیضی کے گلے کا ہار بن گئی تھی۔
فیضی کی محبت نے عطیہ کو بھی دیوانہ کر دیا تھا اور فیضی کے آرٹ نے عطیہ کے دل پر ایسی دستک دی تھی کہ عطیہ بھی فیضی کی صورت اور اس کے آرٹ کی اسیر ہوگئی تھی۔ پھر دونوں نے زندگی بھر ٹوٹ کر محبت کی، دونوں نے شادی کر لی، تقسیم ہند کے بعد عطیہ اپنے شوہر فیضی کے ساتھ پاکستان آگئی تھیں، باقی کی زندگی پاکستان ہی میں گزری تھی۔ عطیہ فیضی کی زندگی کا اختتام بھی پاکستان ہی میں ہوا، لندن میں عطیہ کی ملاقات علامہ اقبال سے بھی ہوئی تھی اور پھر کافی عرصے تک علامہ اقبال اور عطیہ کے درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔
علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کی بھی عطیہ سے ایک زمانے میں گہری واقفیت رہی ہے۔ عطیہ فیضی پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، اقبال اور عطیہ کے خطوط کو ایک زمانے میں بڑی ہوا دی گئی تھی۔ علامہ اقبال کی ملاقات لندن میں 1905 میں عطیہ سے ہوئی تھی۔ پھر یہ سلسلہ ایک طویل عرصے تک قائم رہا تھا۔ ان خطوط کا بھی مختلف انداز سے چرچا کیا جاتا رہا ہے، بعض تحریروں میں بہت کچھ نمک مرچ لگا کر اور بہت کچھ رنگین بیان کر کے پیش کیا گیا ہے۔
ان قصوں میں کتنا سچ ہے اور کتنی رنگ آمیزی ہے اس کا فیصلہ کسی نے بھی کہیں بھی حتمی انداز سے نہیں کیا ہے لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ عطیہ فیضی ادب، ثقافت اور آرٹ کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام ہے، کراچی میں عطیہ فیضی کے نام سے ایک آرٹ گیلری کا آغاز 1991 میں کیا گیا تھا۔ اس عمارت کو ایوان رفعت کا نام دیا گیا ہے۔
اس سے وابستہ ایک آڈیٹوریم اور چار آرٹ گیلریز بھی ہیں۔ آڈیٹوریم اٹھارہ سو نشستوں پر مشتمل ہے۔ عطیہ فیضی سے متعلق کچھ نوادرات بھی کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس محفوظ ہیں جو عطیہ فیضی کی شان دار شخصیت کا عکس ہیں۔ یہ عمارت کچھ سست رفتاری کا شکار ضرور ہوئی ہے اور اب بڑی تیزی سے آخری مراحل کی طرف جا رہی ہے۔ امید ہے جلد ہی اس کی تکمیل مکمل ہو کر ایک اور تاریخ رقم کرے گی۔ پھر جو نوادرات ہیں ان کو اس تاریخ ساز عمارت ہی میں منتقل کر دیا جائے گا۔
نئی نسل کو عطیہ فیضی کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا اب تک سوائے آرٹس کونسل کے کسی ادارے نے کوئی فرض ادا کیا ہے۔آرٹس کونسل کراچی کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے عطیہ فیضی کی شخصیت کے کردار کو نمایاں کرنے میں اپنا بہتر کردار ادا کیا ہے۔ عطیہ فیضی کی شخصیت ایک نایاب کردار کی شاندار داستان ہے جسے بلبلِ ہزار داستان کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔