لارڈمیکالے غلط نہیں تھا

پاکستان کے عوام کو اتنے خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ اب ان کا اتحاد اور یک جہتی مشکل سے قائم ہوگا

پچھلے کالم میں لارڈ میکالے کے'ہندوستان میں نظام تعلیم کے متعلق' انگریزی زبان کے حق میں دیے گئے دلائل پر بات ہو رہی تھی۔

لارڈ میکالے آگے لکھتے ہیں کہ ''دوسری مثال شاید اب بھی ہمارے نظروں کے سامنے ہے' پچھلے 120برسوں میں ایک قوم جو اسی طرح وحشی تھی' جس طرح ہمارے آباء و اجداد صلیبی جنگوں سے قبل تھے 'جہالت کے اندھیروں سے نکل کر مہذب قوموں میں شمار ہونے لگے ہیں۔

میری مراد روس سے ہے 'اب اس ملک میں بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ موجود ہے' جو کسی بھی طرح پیرس اور لندن کے دانشور حلقوں سے کم ترنہیں'یہ امید رکھنے کی وجوہات موجود ہیں کہ روس کی یہ وسیع سلطنت جو شاید ہمارے انگریز آباء و اجداد کے زمانے میں برطانوی ہند کی ریاست پنجاب سے پیچھے تھا، اب برطانیہ اور فرانس کے ہم پلہ ہوگیا ہے 'آخر یہ تبدیلی کیسے آئی؟

روسی قیادت قومی تعصب اور برتری کے احساس کا شکار نہیں ہوئی اور نہ ہی انھوں نے ماسکو کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ذہن میں قدیم روسی روایات اورسینٹ نکولس کی جھوٹی عظمت کی کہانیاں اتاریں ' انھوں نے روسی نوجوانوں کو وہ زبانیں پڑھائیں جن میں علوم کے خزانے چھپے ہوئے تھے 'اس طرح ان تمام علوم تک ان نوجوانوں کی رسائی ہو گئی 'مغربی یورپ کی زبانیں سیکھنے کے بعد ہی روس تہذیب یا فتہ ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ' جس طرح مغربی علوم نے وحشی تاتاریوں اور منگولوںکو مہذب بنایا، اسی طرح وہ ہندوستانیوں کو بھی تہذیب اور علوم کے خزانوں سے مالامال کر نے میں مددگار ثابت ہوں گی ''۔

ہم جو بھی محسوس کریں لیکن اس رائے میں ایک وزن ہے اور یہ باتیں حقائق کے منافی نہیں ہیں' اصل میں میکالے کا فیصلہ اس دور کے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی رائے کا عکاس تھا ' ایک ہندوستانی علم دوست شخصیت اور بنگالی سماجی کارکن راجہ رام موہن رائے نے میکالے کے مقالے(Minutes) لکھنے سے دس برس قبل ہندوستان کے گورنر جنرل کو ایک اپیل بھیجی تھی کہ' برطانوی حکومت جو رقم ہندوستان میں تعلیم کی ترویج کے لیے دے رہی ہے۔

اس کو سنسکرت اور عربی پر خرچ کرنے کے بجائے اس رقم سے ہندوستانیوں کو مغربی ملکوں میں پڑھائے جانے والے سائنسی اور دیگر علوم پڑھائے جائیں' اصل میں 19ویں صدی کے یہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ان ہندی مستشرقین پر تنقید کی جو سنسکرت' عربی اور فارسی زبان کی ترویج چاہتے تھے۔

1822میں انھوں نے ''اینگلو ہندو اسکول'' کی بنیاد رکھی جہاں پر جزوی تعلیم انگریزی میں دی جاتی تھی ' راجہ رام موہن رائے نے گورنر جنرل لارڈ امرسٹ پر زور دیا کہ وہ انگریزی تعلیم کو وسعت دیں۔میکالے کی '' تعلیم کے بارے میں مقالے'' (Minutes on Education)کے بارے میں کرسٹوفر بائیلی کے خیالات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا'ان کا خیال ہے کہ یہ تاثر انتہائی غلط ہے کہ میکالے نے سنسکرت 'فارسی یا کسی اور مقامی زبان کو انگریزی کے مقابلے میں کم تر گرداننے کی کو شش کی ہے۔


ان منٹس نے برصغیر میں انگریزی زبان کی توسیع کے بارے میں بھی کوئی خاص حکمت عملی نہیں دکھائی 'انگریزی کا استعمال میکالے کے کلکتہ آنے سے قبل ہی برصغیر میں شروع ہو چکا تھا 'بنگال میں تو کمرشل ایجنٹ 1835 سے بھی 50سال قبل سے انگریزی زبان استعمال کرتے تھے۔ اپنے مقالے میںپونم اوپادھائے نے زور دیا ہے کہ میکالے نے اصل میں رام موہن رائے کے ان خیالات کو مناسب الفاظ میں پیش کیا ہے جن میں انھوں نے یورپ کے علو م کی ترویج کی بات کی تھی۔

میکالے نے اصل میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مشرقی زبانوں کی ترویج ضرور ہونی چائیے' ان کا زور اس بات پر تھا کہ'' دہلی مدرسے میں عربی'' اور'' بنارس کالج میں سنسکرت'' لازمی طور پر پڑھائی جانی چائیے 'ان کا خیال تھا کہ انگریزی کے آنے سے مشرقی زبانوں میں بھی قوت آجائے گی' وہ اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ ہندوستان میں زیادہ تر تعلیم مشرقی زبانوں میں ہی دی جائے گی 'ان سب کے کہنے کے باوجود کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ میکالے ماڈرن ازم یا جدت پسندی کے بہت بڑے وکیل تھے۔

ان کے خیال میں ماڈرن ازم صرف انگریزی تعلیم سے نہیں آئے گا بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ انگریزی ماڈرن کلچر اور انصاف کا نظام نافذ کیا جائے۔ میکالے نے ہندوستان کے بعض افراد کے لیے ایک مستقل ورثہ چھوڑا ہے 'ان لوگوں میں بنگال کے بھولے ناتھ چندر گھوش اور آر سی دت'یوپی کے سرسید احمد خان ' دادا بھائی نورو جی'مغربی ہندوستان کے مشہور لبرل اور میکالے کے سب سے بڑے ترجمان جی ڈبلیو لیٹنر (G.W.Leitner) شامل تھے 'ان تمام نے جدیدیت کی حمایت کی' لیکن کسی نے بھی قدیم طرز تعلیم کی قیمت پر نئی طرز کی حمایت نہیں کی 'ان تمام لوگوں نے قدیم طرز تعلیم اور جدید طرز کے درمیان ایک توازن کے قیام پر زور دیا' یہ بات بہت اہم ہے کہ جیسا کہ باربرا میٹکاف نے اپنی کتاب ''Islamic Revival in British India:Deoband1867-1900'' میں لکھا ہے کہ جدیدیت کی تحریک اتنی تیز تھی کہ دارالعلوم دیو بند اور دارالعلوم ندوۃ علماء جیسے مذہبی تعلیمی ادارے بھی اس سے صرف نظر نہ کر سکے۔

اوپر دیے گئے حقائق کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لارڈمیکالے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ آج بھی ہمارے بعض دانشور اور علماء جب بھی تعلیمی یا معاشی نظام کی بات آتی ہے تو لارڈ میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں'وہ اپنی تمام نا اہلیوں کا ملبہ میکالے کے سر پر ڈالنے کی کو شش کرتے ہیں ورنہ انگریز کو گئے 70سال ہوگئے ہیں' ہم نے نیا نظام تعلیم کیا بنانا تھا' پرانے نظام کا بھی حلیہ بگاڑ دیا ۔سرکاری اسکولوںکا حال تو نہ پوچھئے۔ نہ سلیبس کا پتہ نہ انتظامی اور تعلیمی استعداد لیکن یہ جو درجنوں قسم کا تعلیمی نظام یہاں رائج ہے۔

فرقہ وارانہ اور تجارتی بنیادوں پر قائم مدرسوں نے وفاق پاکستان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ ہر مدرسے میں اپنے فرقے کے سوا دوسرے فرقوں کو غلط قرار دیا جاتا ہے 'قسم قسم کے انگریزی میڈیم اسکولوں میں نہ جانے کہاں کہاں کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو جو نصاب پڑھایا جارہا ہے، اس میں بھی قومی اتحاد، رواداری، برداشت، ڈسپلن کا نام و نشان نہیں ہے۔اس نصاب کا نتیجہ پاکستان میں بسنے والی قوموں، زبانوں اور کلچر سے بیگانی، باہمی نفرت کی صورت میں سامنے آچکا ہے ۔

پاکستان کے عوام کو اتنے خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ اب ان کا اتحاد اور یک جہتی مشکل سے قائم ہوگا 'کیا یہ تباہی اور بربادی میکالے نے ہمارے اوپر مسلط کی ہے یا یہ ہماری اپنی کوتاہیوں ، خود غرضیوں، تعصبات اور مفادات کا نتیجہ ہے۔بعض دانشوروں کی یہ رائے اہمیت رکھتی ہے کہ ہر بچے کو ایف اے' ایف ایس سی تک یکساں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹری'انجینئرنگ 'دینی تعلیم'کمپیوٹر یا کسی اور خصوصی شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہونی چائیے 'ایف ایس سی یا ایف اے کرنے کے بعد کم از کم طالب علم کا شعورکچھ تو پختہ ہوچکا ہوگا۔

جماعت اسلامی بھی میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہے'اسی طرح پشتو زبان کی علمبردار اے این پی نے پختون زلمے وغیرہ چھوڑ کر (National Youth Organisation) نام رکھ دیا۔ تحریک انصاف کی حکومتوں نے خیبر پختونخوا میں سائنسی تعلیم عام کرنے کے کون سے کام کیے ہیں' ان حالات میں میرا سوال یہ ہے کہ میکالے نے کیا غلط کیا تھا؟ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز انھوں نے 1835میں دی تھی اور وہی بات آج ہم 2017میںبھی کر رہے ہیں۔
Load Next Story