سانحہ ماڈل ٹاؤن اور وزیراعلیٰ پنجاب کے فیصلے
حکومت پنجاب کا فیصلہ درست ہے لیکن اگر وزیراعلیٰ پنجاب یہی فیصلہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے فوراً بعد کر لیتے تو بہتر ہوتا
KABUL:
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آزادانہ تحقیقات کے لیے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ اور اپنے پرسنل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ رانا ثنااللہ نے وزیراعلیٰ کو استعفیٰ بھجوادیا ہے جسے انھوں نے فوری طور پر منظور کرلیا ہے جب کہ ڈاکٹر توقیر شاہ کو او ایس ڈی بنادیا گیا ہے۔ ہنگامی پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ لاہور میں ہونے والے افسوسناک واقعے پر ابھی تک میرا دل رنجیدہ ہے۔
عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا جس سے حقائق عوام کے سامنے آئیں گے۔ اس سے قبل اعلیٰ پولیس افسروں کو بھی اپنے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے۔ حکومت پنجاب کا فیصلہ درست ہے لیکن اگر وزیراعلیٰ پنجاب یہی فیصلہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے فوراً بعد کر لیتے تو بہتر ہوتا۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں جو وضاحت کی کہ رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ انصاف کے حصول پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ ان کا کہنا درست ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ متاثرہ فریق کا مؤقف کیا ہے۔ متاثرہ فریق نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ متاثرہ فریق نے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے درخواست بھی جمع کرا رکھی ہے۔
یوں دیکھا جائے تو تحریک منہاج القرآن حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انھیں بھی مطمئن کیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ شفاف اور آزادنہ تحقیقات کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے عدالت عالیہ پر پورا اعتماد ہے ، اگر کوئی عدالتی کمیشن سے مطمئن نہیں تو وہ سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن کی تبدیلی کے لیے درخواست دے سکتاہے اور اگر سپریم کورٹ اس واقعے میں سوموٹونوٹس لے تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی سوموٹو نوٹس یا جوڈیشل کمیشن کی تبدیلی کی درخواست سے پہلے حکومت خود یہ قدم اٹھائے۔ ویسے بھی طاہر القادری کا مطالبہ جوائنٹ انویسٹی گیشن کا ہے۔ اگر یہ مطالبہ مان لیا جائے تو صورت حال میں بہتری آ سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ منہاج القرآن والے آج بھی کہیں تو میں فاتحہ خوانی کے لیے سر کے بل جانے کے لیے تیار ہوں۔تحریک منہاج القرآن کے منتظمین کو وزیراعلیٰ پنجاب کی درخواست پر غور کرنا چاہیے۔
بہرحال سانحہ لاہور کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔ یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے۔ اس کے اصل ذمے دار ضرور سامنے آنے چاہئیں اور انھیں قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ ادھر پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سانحہ کے گرفتار بے گناہ افراد پر درج پرچے خارج کرائے اور ان پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کرے جنھوں نے عام، بے گناہ افراد کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا۔ ہمارے خیال میں یہ سانحہ ہماری سیاسی قیادت، انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو رونما ہونے سے نہیں روکا جا سکے گا اور خدشہ یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ اس طرح کا کوئی اور سانحہ رونما ہو گیا تو اس کا ردعمل ناقابل تصور ہو گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آزادانہ تحقیقات کے لیے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ اور اپنے پرسنل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ رانا ثنااللہ نے وزیراعلیٰ کو استعفیٰ بھجوادیا ہے جسے انھوں نے فوری طور پر منظور کرلیا ہے جب کہ ڈاکٹر توقیر شاہ کو او ایس ڈی بنادیا گیا ہے۔ ہنگامی پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ لاہور میں ہونے والے افسوسناک واقعے پر ابھی تک میرا دل رنجیدہ ہے۔
عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا جس سے حقائق عوام کے سامنے آئیں گے۔ اس سے قبل اعلیٰ پولیس افسروں کو بھی اپنے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے۔ حکومت پنجاب کا فیصلہ درست ہے لیکن اگر وزیراعلیٰ پنجاب یہی فیصلہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے فوراً بعد کر لیتے تو بہتر ہوتا۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں جو وضاحت کی کہ رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ انصاف کے حصول پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ ان کا کہنا درست ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ متاثرہ فریق کا مؤقف کیا ہے۔ متاثرہ فریق نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ متاثرہ فریق نے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے درخواست بھی جمع کرا رکھی ہے۔
یوں دیکھا جائے تو تحریک منہاج القرآن حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انھیں بھی مطمئن کیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ شفاف اور آزادنہ تحقیقات کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے عدالت عالیہ پر پورا اعتماد ہے ، اگر کوئی عدالتی کمیشن سے مطمئن نہیں تو وہ سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن کی تبدیلی کے لیے درخواست دے سکتاہے اور اگر سپریم کورٹ اس واقعے میں سوموٹونوٹس لے تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی سوموٹو نوٹس یا جوڈیشل کمیشن کی تبدیلی کی درخواست سے پہلے حکومت خود یہ قدم اٹھائے۔ ویسے بھی طاہر القادری کا مطالبہ جوائنٹ انویسٹی گیشن کا ہے۔ اگر یہ مطالبہ مان لیا جائے تو صورت حال میں بہتری آ سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ منہاج القرآن والے آج بھی کہیں تو میں فاتحہ خوانی کے لیے سر کے بل جانے کے لیے تیار ہوں۔تحریک منہاج القرآن کے منتظمین کو وزیراعلیٰ پنجاب کی درخواست پر غور کرنا چاہیے۔
بہرحال سانحہ لاہور کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔ یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے۔ اس کے اصل ذمے دار ضرور سامنے آنے چاہئیں اور انھیں قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ ادھر پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سانحہ کے گرفتار بے گناہ افراد پر درج پرچے خارج کرائے اور ان پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کرے جنھوں نے عام، بے گناہ افراد کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا۔ ہمارے خیال میں یہ سانحہ ہماری سیاسی قیادت، انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو رونما ہونے سے نہیں روکا جا سکے گا اور خدشہ یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ اس طرح کا کوئی اور سانحہ رونما ہو گیا تو اس کا ردعمل ناقابل تصور ہو گا۔