بھارت اور ایٹمی معاملات

2008ء میں امریکا نے بھارت سے سول نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ کر لیا

پاکستان کو بھارت کی ان سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔

بھارتی شہر میسور کے نواح میں قائم ''یورینیم ہیکسا فلورائڈ پلانٹ'' میں یورینیم کی افزودگی کی رفتار تیز تر کرنے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں۔ بھارت نے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کے لیے خفیہ تیاریاں شروع کر دی ہیں تا کہ تھرمو نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کی جائے۔ بھارت کے دفاعی تحقیقاتی گروپ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو چین اور پاکستان کے مقابلے میں اسلحے کی دوڑ کا سامنا ہے۔ بھارت میں چونکہ قبل ازیں ایٹمی پلانٹوں کے حادثات بھی منظرعام پر آتے رہے ہیں اس لیے میڈیا کی طرف سے بھارت کی ایٹمی تیاریوں کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور ایٹمی پلانٹوں کے ناقص انتظامات پر کڑی نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔


بھارت اپنے جوہری پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کی رفتار دو گنا بڑھانا چاہتا ہے تا کہ اسے اپنی ایٹمی آبدوزوں کے بیڑے کے لیے جوہری ہتھیاروں کی وافر تعداد میسر آ سکے۔ بھارت کا یہ ایٹمی پلانٹ جنوبی ہند میں میسور کے قریب ہے جو آئندہ سال یعنی 2015ء تک اپنی مکمل پیداواری استعداد کے ساتھ کام شروع کر دیگا۔ بھارت نے اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس پاکستان کسی ایٹمی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا کیونکہ یہ دونوں ملکوں میں کسی کے لیے بھی بہتر نہیں ہے۔

2008ء میں امریکا نے بھارت سے سول نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ کر لیا۔ پاکستان نے بھی جوابی طور پر امریکا سے ایسا ہی معاہدہ کرنے کے لیے کہا لیکن پاکستان کا مطالبہ درخود اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ بھارت سے کیے گئے امریکی معاہدے میں یہ شرط بطور خاص رکھی گئی تھی کہ بھارت اس معاہدے کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال نہیں کریگا ۔ اب بھارت اپنے میسور پلانٹ کی توسیع کے جو منصوبے بنا رہا ہے اس پر بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا کوئی کنٹرول نہیں ہے جس سے کہ صورتحال میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کو بھارت کی ان سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔
Load Next Story