کراچی کا تخلیقی سفر

شہرکی تعمیراتی خوبصورتی میں آرٹ کے شعبے سے مدد لے کر تہذیب و ثقافت کے ان گوشوں کو اجاگرکیا جائے گا

Warza10@hotmail.com

برطانوی راج میں گذری پتھر سے بننے والی ''اینگلو مغلیہ'' عمارت انگریز آرکیٹیکٹ جیمس وائنس اور پارسی سول انجینئر جہانگیر سیٹھنا کی شبانہ روز محنت سے 1930 میں جارج ہفتم کے دورے کے موقع پر شہر کے بلدیاتی نظام کو موثر طور پر چلانے کے لیے کراچی میونسپلٹی کے حوالے کی گئی۔

یہ پر شکوہ عمارت اس وقت شہر کے قلب بند روڈ پر تعمیر کی گئی، جو شہرکی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ اس بات کی ضامن بنائی گئی کہ اس عمارت سے شہرکی تزئین و آرائش اور شہر کے بلدیاتی نظام کو موثر طور سے چلانے کی نہ صرف منصوبہ سازی کی جائے گی بلکہ شہر کی ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے مختلف ذرائع سے فنڈنگ کر کے ادب و آرٹ کے پھیلاؤ کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے گا، تاکہ شہرکی تعمیراتی خوبصورتی میں آرٹ کے شعبے سے مدد لے کر تہذیب و ثقافت کے ان گوشوں کو اجاگرکیا جائے گا، جوکہ برصغیرکی تاریخ کا گم گشتہ کردار سمجھے جانے لگے ہیں۔

انہی مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے 1933 میں باقاعدہ کراچی میونسپل کمیٹی کے باضابطہ انتخابات کرائے گئے اور منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ووٹوں سے پہلی مرتبہ کراچی واسی جمشید نوسروانجی پہلے میئر منتخب قرار پائے۔

جمشید نسروانجی مہتا شب و روز محنت کے عادی تھے، وہ اپنی علمی، ادبی اور ثقافتی مصروفیت اور دلچسپی کی بنیاد پر'' بابائے شہر کراچی'' بھی کہلائے، انہیں آرام سے زیادہ دن رات کام کرنے کا جنون تھا۔ جمشید نسروانجی علم و ادب سے خاص شغف رکھتے تھے یہی وجہ رہی کہ ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والے علم وادب، آرٹ اور ثقافت کے شعبے کے افراد نے اپنا مسکن کراچی کو بنایا اور آرٹ و فن کے ہر شعبے کو ترقی دلوانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔

کراچی میں قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں لکھنؤ اسکول آف آرٹس کے استاد سجاد حسین کے معروف مصور لیاقت حسین اور سنگتراشی کے معروف سنگتراش افسر مدد نقوی کے علاوہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ مصور صادقین ،علی امام ، شاکر علی، بشیر مرزا،آذر ذوبی، اور بعد کی نسل کے انیس ناگی، اقبال مہدی، جمیل نقش اور رابعہ زبیری نے آرٹ کے فن کو اتنی وسعت دی کہ ان کے پیشرو مشکور رضا، مہر افروز، ناہید رضا اور دیگر نوجوان آرٹسٹ ان کے فن سے سیکھنے کی امنگ کے ترجمان بنے اور آج بھی آرٹ کی تہذیبی رچاؤکے محافظ کا کردار ادا کررہے ہیں۔

یہ کراچی کے تہذیبی ماحول کا وہ دور تھا جہاں ہر طرف مطالعہ اور علم حاصل کرنے کی لگن کے رسیا آرٹ اور فنون کے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کی مہارت دکھا رہے تھے، سنگ تراش پتھرکوگوہر اور مصور اپنے تخلیقی عمل سے رنگوں کی دنیا سے شہرکو خوبصورت کرنے کی ہر سبیل میں جتے ہوئے تھے، ایسے میں جمشید نوسروانجی ایسے صاحب علم میئر کراچی فنکاروں اور تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتے تھے، تھیو فیسیکل ہال علمی ادبی اور سیاسی شعور کی وہ جگہ تھی جو ریڈیو پاکستان کے صدا کاروں کی صداؤں سے شہر میں '' سُر سارنگ'' بکھیر کرکراچی شہر کو لے اور دھن میں مست رکھا کرتی تھی، ڈینسو ہال کی ثقافتی تعمیر اور ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارات کراچی شہر کی تہذیبی علامات ہوا کرتے تھے۔


میونسپلٹی جہاں شہر کے '' بلدیاتی مسائل'' کے حل میں دن رات جتی رہتی تھی وہیں میونسپلٹی ادب و فن اور فنون کے شعبوں میں تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی سر گرداں رہا کرتی تھی، میونسپلٹی کی جانب سے جہاں شہر کے گلی محلوں میں رات کی تاریکی میں روشنی پہنچانے کا انتظام کیا جاتا تھا، وہیں اس بات کا خیال بھی رکھا جاتا تھا کہ کوئی طالب علم اور علم کا رسیا میونسپلٹی کے بلب فیوز نہ ہونے پر پڑھائی سے محروم نہ ہوجائے، جمشید نوسروانجی نے برطانوی عہد میں میونسپلٹی کو جدید خطوط پر استوار کر کے شہر کے تمام گلے شکوے ختم کر دیے تھے تبھی تو کراچی شہر نے جمشید نوسروانجی کو '' بابائے شہر'' کا خطاب دیا تھا، جس کو تقسیم کے بعد بھی آنے والوں نے جِلا بخشی۔

تقسیمِ ہند کے بعد ماہی گیروں کے کولاچی کو کراچی کے نام سے نئے وطن کا دارالخلافہ محض اس بنیاد پر بنایا گیا کہ یہاں جمشید نوسروانجی کے اقدامات نے کراچی کو جدید دنیا کا ترقی یافتہ شہر بنایا تھا جہاں جدید طرزکی تعمیرات اور تماتر ثقافتی سرگرمیاں میونسپلٹی کے فنڈز سے اپنی سبک رفتار سے جاری و ساری رہا کرتی تھیں، کراچی میں ترقی پسند سوچ اور جمہوری ذہنوں کی آبیاری میں کھڈہ مارکیٹ لیاری کے عبداللہ کالج کا وہ تعلیمی ماحول تھا جس کی ترقی کے لیے ترقی پسند ادیب و شاعر فیض احمد فیض اور ڈاکٹر م ۔ ر حسان نے شبانہ روز محنت سے طلبہ میں جمہوری اور ترقی پسند سوچ پیدا کی۔

اس ابتلا اور بربادی کے دور میں بھی کراچی میونسپل کارپوریشن میں آرٹ اور ثقافت کا درد رکھنے والے آرٹسٹ عاطف علی اور آرٹ کے فروغ میں آگروی تہذیب کے سپوت رضا حیدر میونسپل کے فنڈز سے نامساعد حالات میں بھی آرٹ کے فروغ میں جتے ہوئے ہیں، مجھ سمیت سلطان نقوی، ندیم زبیری، مسرور احسن اور محمد علی نقوی کو بھلا لگا کہ کراچی کے آرٹ کو فروغ دینے کی سبیل فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں نکالی گئی اور 15 مئی کو کراچی کے اہم اسلامی مرکز میں نئے آرٹسٹوں کے فن کی حوصلہ افزائی کے لیے فن پاروں اور تخلیقات کی نمائش، کے ایم سی کے رضا حیدر کے تعاون سے کی گئی، جس میں مرکزکے نگراں عاطف علی نے پورے ملک کے آرٹسٹوں کے فن پاروں کو جمع کرنے میں دن رات ایک کیا اور 150 سے زائد فن پارے نمائش میں رکھے جو کہ کراچی کی اس خانمہ خراب صورتحال اور ''فتنہ گری'' میں ایک حوصلہ مند کوشش اور جستجو ہے، اسی طرح کی دوسری نمائش کا انعقاد بھی کے ایم سی کے تعاون سے فریئر ہال میں کیا گیا جو کہ آرٹ کے فروغ کے لیے ایک احسن قدم ہے۔

فیڈرل بی ایریا کے فن تعمیر والے مرکز میں کے ایم سی کے رضا حیدر اور عاطف علی کی جانب سے انتظامات کے باوجود یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ شاندار طرز تعمیر اور کشادہ رقبے پر پھیلے اس مرکز میں کے ایم۔ سی نے اب تک نجانے کیوں اس کی تزئین و آرائش جدید خطوط پر نہیں کی ہے حالانکہ فیڈرل بی ایریا کے مکینوں کی تہذیب و تمدن کی لگن میں یہ مرکز جدید آسائشات کے ساتھ ثقافت و تہذیب کی شاندار علامت بن سکتا ہے جس پر کے ایم سی کے ذمہ داران پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے اسے ایک ایسا نشان ثانیہ بنا سکتے ہیں جو نئے آرٹسٹوں اور فیڈرل بی ایریا کے بچوں کی تہذیبی تربیت میں ایک شاندار کردار ادا کر سکتا ہے۔

امید ہے کہ آگرہ اور فتح پور سیکری کے فن تعیر والی مٹی کے سپوت رضا حیدر اس مذکورہ مرکزکی جدید تزئین و آسائش میں اپنے محکمانہ اثر و رسوخ استعمال کرکے اس مرکزکو آرٹ کے شہ پاروں اور عوام کی دلچسپی کا مرکز بنائیں گے تاکہ کراچی کا موجودہ بلدیاتی ادارہ جمشید نوسروانجی کی طرح کراچی کا مان رہے۔

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں
Load Next Story