قدیم مسلم طرز تعمیر میں ہر گھر کے صحن میں حوض اور فوارہ نظر آتا ہے

اُندلس پر قبضے کے بعد فاتح عیسائیوں نے مسلمانوں کے لیے ’مدجن‘ لفظ کا استعمال شروع کیا جس کے معنی ’پالتو‘ ہے

5 ہزار مربع میٹر کے رقبے پر پھیلی عظیم الشان مسجد کو مسلمانوں کی شکست کے بعد چرچ میں بدل دیا گیا جسے خلیفہ ابو یعقوب یوسف نے 1172ء میں تعمیر کرایا تھا، اُندلس کے سفر کا دلچسپ ا حوال ۔ فوٹو : فائل

قســـط اول

بچپن میں علامہ اقبال کی نظم مسجد قرطبہ پڑھنے کے بعد سے سرزمینِ اندلس دیکھنے کی خواہش تھی۔ 2018 میں الحمداللہ یہ خواہش پوری ہوئی۔ ہمارے سفر کا آغاز تاریخی شہر اشبیلیہ سے ہوتا ہے۔

اشبیلیہ کو 712 عیسوی میں بربر مسلمانوں نے فتح کیا تھا جو کہ مغرب سے حملہ آور ہوئے تھے۔ مغرب عربی میں شمالی افریقہ کے علاقے کو کہا جاتا ہے جو الجزائر، مراکش، تیونس ، لیبیا اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔

یہاں کے باشندوں کی نسل بربر کہلاتی ہے جو کہ دس ہزار قبلِ مسیح سے ان علاقوں میں رہ رہی ہے۔ طارق بن زیاد جس نے 711 عیسوی میں اسپین پر مغرب یعنی موجودہ مراکش کی جانب سے حملہ کیا تھا وہ بربر نسل سے تھا۔ افریقہ اور اسپین کے درمیان اس مقام پر پانی کی پتلی گذرگاہ ہے جو کہ بحر اوقیانوس (اٹلانٹک اوشن) اور بحر روم (میڈیٹیرینین سی) کو آپس میں ملاتی ہے۔ اس مقام پر افریقہ اور یورپ کا درمیانی فاصلہ صرف پندرہ کلومیٹر کے لگ بھگ رہ جاتا ہے۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں طارق بن زیاد نے اپنی کشتیاں جلائی تھیں اور کہا تھا کہ یہ جگہ اب ہماری ہے، ہم مارے گئے تو یہیں دفن ہو نگے، ورنہ فاتح کی صورت یہاں رہیں گے۔ اس جگہ واقع پہاڑ کا نام اس بہادر کے نام پر آج بھی 'جبل الطارق' ہے۔ اسی طرح یوسف بن تاشفین بھی بربر شاہی حکمران سلسلے المرابطون کا ایک نمایاں نام رہا ہے۔

چھ جولائی، 2018 کو فرینکفرٹ سے اشبیلیہ کے لیے راین ایر کی فلائیٹ لی۔ راین ایر سستی ایر لائن ہے۔ 1984 میں آئر لینڈ میں قائم ہوئی تھی۔ نام اپنے بانی کے نام پر راین ہے۔ چھ جولائی 2018 کی اس ایرلائن کی ٹکٹ فرینکفرٹ سے اشبیلیہ کے لیے خریدی تھی۔ کوئی سامان بک نہیں کرا سکتے، فلائیٹ میں پانی تک خود خریدنا ہوگا۔

فلائیٹ دور رن وے پر لینڈ ہو گی اور آگے پیدل چل کر جانا ہوگا، یہ ایر لائن اپنے اخراجات کم سے کم رکھتی ہے، اسی لئے ٹکٹ بھی باقی فضائی کمپنیوں سے بہت سستا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاز کی ساری نشستیں بھری ہوتی ہیں۔راین ایر کا نشان قدیم ترین سازوں میں سے ایک شمار کیا جانے والا ' ہارپ ہے' یہی ساز آئر لینڈ کے سرکاری نشان پر بھی نظر آتا ہے۔ برصغیر میں یہی ساز 'سُر منڈل' کی شکل میں موجود ہے جسے ہماری کلاسیکل موسیقی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہارپ بادشاہوں کے درباروں کی زینت ہوا کرتا تھا۔ اس ساز کی موجودگی کا پتہ 3500 قبلِ مسیح میں بھی ملتا ہے۔

وادیِ نیل کے مقبروں میں بھی اس ساز کی تصاویر ملی ہیں۔ فضا سے اُترتے شہرکے خدوخال نظر آنے لگے تھے، زیتون کے باغات پھیلے ہوئے تھے۔ گھروں کے صحنوں میں سوئمنگ پول نظر آرہے تھے۔ اندلس کے سفر میں دیکھا کہ حوض مسلم دور کا تحفہ ہے۔ پانی کے راستے بنائے گئے تھے جن سے باغات اور فصلیں سیراب ہوتی تھیں۔ انہیں آبی گزرگاہوں کو گھروں کے اندر لاکر حوض اور فواروں کو پانی فراہم کیا گیا تھا۔ کیا خوبصورت طرزِ تعمیر ہے جس میں گھرکے وسط میں باغ، حوض، فوارہ اور اس کے گرد رہائشی سہولتیں۔

سفر سے پہلے ہی کار بک کر لی تھی کہ اندلس کے پانچ روز کے سفر میں ہمارے ساتھ رہے گی۔ سو ائر پورٹ سے کار حاصل کرلی۔ کرائے پر دینے والی کمپنی کی ملازمہ ہم سے اور پیسے لینے کی چکر میں تھی۔ آپ سفر کی انشورنس کرائیں، گاڑی خراب ہوجائے تو اس کو لانے کے لیے ٹرک آجائے گا، اسکی علیحدہ انشورنس کرا لیں، غرض ہر بے یقینی کا توڑ انشورنس کے تحت کروا لیں۔ کچھ ہم اس کے چکر میں آگئے اور کچھ اس سے معافی چاہی کہ کچھ تو اللہ پر بھی انحصار رکھیں۔

گلی 'آلنسو کاریلو' میں اٹھائیس نمبر کے گھر کا ایک کمرہ ائر-بی-ان- بی سے بک کیا تھا۔ ہسپانی زبان میں سٹریٹ کو گلی ہی کہا جاتا ہے، اب پتہ نہیںیہ لفظ کہاں سے آیا، کسی وقت اس پر تحقیق کریں گے۔ مریم نام کی خاتون گھر کی مالکہ تھی، اس نے ای میل پر بتا دیا تھا کہ گھر کی چابی گلی میں لگے بجلی کے میٹر کے ڈبے میں رکھی ہوگی۔

اس بات سے ہی بڑی اپنائیت کا احساس ہوگیا۔ راستے میں سڑک کے کنارے کھجور کے درخت ایستادہ تھے۔ کھجور اسپین کا پودا نہ تھا بلکہ پہلے اموی خلیفہ عبدالرحمن اول کے بارے میں کہتے ہیں کہ اُس نے کھجور کو اسپین میں متعارف کرایا۔ بنو عباس نے جب اموی خاندان کا قتلِ عام کیا تھا تو ایک نوعمر لڑکا عبدالرحمان نامی جان بچا کر بغداد سے بھاگا۔ عباسیوں کی تمام کوششوں کے باوجود اس نے اسپین میں ایسی عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی جو تعمیرات کے حسن میں آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

عبدالرحمن اول نے اسپین میں کھجور کا ایک درخت لگوایا اوراس نے چند شعرعربی میں اس درخت کے بارے میں لکھے۔ وہ شعر پیرس میں لوو کے عجائب گھر میں عربی میں لکھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہی عجائب گھر جس میں مونا لیزا کی تصویر لگی ہے، ایک مسکراہٹ جو کہتے ہیں کہ کچھ خاص ہے۔

اسی عجائب گھر میں اس نظم کے شعر ہیں جو اپنے وطن سے دور ایک حاکم نے لکھے تھے، عام سے شعر، نہیں بلکہ بہت خاص شعر۔ مونا لیزا کی مسکراہٹ کو ماند کرتا ایک احساس۔ بے وطنی حاکم اور فقیر سب کے لیے ایک سی ہوتی ہے۔ اداسی کا بادل ایسا کہ سب کو ڈھانپ لے، کسی امتیاز کے بغیر۔

علامہ اقبال نے بال جبریل میں ایک نظم 'عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت' پر نوٹ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ اشعار، جو عبدالرحمن اوّل کی تصنیف سے ہیں، تاریخ المقری میں درج ہیں۔ علامہ کی نظم اردو میں ان اشعار کا آزاد ترجمہ ہے۔ علامہ اقبال نے ان عربی اشعار کا ترجمہ اپنی نظم 'عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت' میں کچھ یوں کیا ہے:

میری آنکھوں کا نْور ہے تْو مغرب کی ہَوا نے تجھ کو پالا

میرے دل کا سرور ہے تْو پردیس میں ناصبور ہوں مَیں

اپنی وادی سے دْور ہوں مَیں پردیس میں ناصبور ہے تْو

میرے لیے نخل طور ہے تْو غربت کی ہَوا میں بار وَر ہو

صحراے عرب کی حور ہے تْو ساقی تیرا نمِ سحرہو

اس نظم کے دوسرے بند میں علامہ اقبال نے اپنے تاثرات یوں بیان کیے ہیں۔

عالَم کا عجیب ہے نظارہ اْٹھتا نہیں خاک سے شرارہ

دامانِ نِگہ ہے پارہ پارہ صْبحِ غْربت میں اور چمکا

ہمّت کو شناوری مبارک ٹْوٹا ہْوا شام کا ستارہ

پیدا نہیں بحر کا کنارہ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے

ہے سوزِ دْروں سے زندگانی مومن کا مقام ہر کہیں ہے


 

اشبیلیہِ اندلس کا سب سے بڑا شہر اور دارلحکومت ہے۔ یہ وادی الکبیر میں واقع ہے جہاں سے دریا وادی الکبیر بہتا ہے۔ یہ سپین کا دوسرا طویل ترین دریا ہے اور صرف یہی دریا ہے جس میں جہاز رانی ہو سکتی ہے۔دریائے الکبیر کے کنارے مسلم الموحدون بادشاہوں کا بنا ہوا مینارِزر ابھی تک قائم ہے۔ اس کا نام زر یعنی سونے کی دھات کے نام پر اس لیے ہے کہ اس کی تعمیر میں ایسے اجزاء استعمال کیے گئے تھے کہ اس کا پانی میں سنہرا عکس بنتا ہے۔

یہ قید خانے کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے، جبکہ اس کو دریا میں بھاری زنجیریں ڈال کر دشمن بحری جہازوں کے لیے رکاوٹ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ زنجیر کے اگلے سرے کے لیے دریا کے دوسرے کنارے پر بنی عمارت وقت کی شکست وریخت کا شکار ہو کر تباہ ہوچکی ہے۔کمرے میں سامان رکھ کر شہر کے قابل دید مقامات کی طرف چل نکلے۔ اشبیلیہ کی یونیورسٹی کے پاس گاڑی پارک کی اور پیدل اس علاقے میں نکل پڑے۔ اس علاقے میں سیاحوں کے لیے گھوڑوں کی بگھیاں بکثرت تھیں۔ گھوڑوں سے سپین میں محبت کافی ہے۔ راہ میں ایسے کلب بھی نظر آئے جہاں گھوڑوں کے مختلف کرتب دکھائے جاتے ہیں۔

اشبیلیہ یونیورسٹی میں طالبعلموں کا ایک مجمع تھا۔ طالبعلم اورانکے خاندان اکٹھے تھے۔ خوب رونق تھی، شاید تعلیم مکمل کرنے کی تقریب تھی۔ سب خوش تھے، خوش لباس، خوبصورت، کھلکھلاتے، مسکراتے۔ اندلس کا حسن ایک جگہ اکٹھا تھا۔ صدیوں کے مختلف قومیتوں کے خون کی آمیزش، حرارت، رنگ اور روشنی ایک جگہ پر تھی۔

اندلس کے طرز ِتعمیر میں محراب اور قوس کی بہتات نظر آتیں ہیں۔ یہ اس دور میں ریاضی میں مہارت کی آئینہ دار ہیں۔ جیومیڑیکل اشکال، تناسب، منقش اشکال اور ڈیزائن سب دیکھنے کے قابل ہیں۔کسی بھی شہر میں جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہو، وہاں آپ کو سٹریٹ آرٹسٹ ضرور نظر آئیں گے۔ اشبیلیہ میں بھی سٹریٹ آرٹسٹ مختلف جگہوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔مگر اس تمام چمک کے ساتھ ساتھ غربت بھی نظر آتی ہے۔

گھومتے پھرتے شام ہوگئی۔ اور اندلس کی شام جہاں حسن بھی تھا اورحُزن بھی۔ مکان چوباروں والے، چند پر بانس کی تیلیوں کے پردے، چوبارے، چلمن۔ گلی میں قدیم فانوسوں کی قطار روشنی کے ہالے بنا رہی تھی، سونی گلیاں اور ایک مسافر جو اپنی برسوں کی خواہش کی تکمیل کے سفر پر تھا۔ حسن اور حُزن یکجا، کون اس کی مار سہہ سکتا ہے، مسافر کی روح وہیں برسوں سے پھر رہی تھی، آوارہ ، بے اماں، بے سکوں۔ اور اب صدیوں پھرتی رہے گی آوارہ، بے اماں، بے سکوں۔ گھومتے پھرتے رات ہوگئی تھی۔ رات کے کھانے کے لیے حلال ریسٹورنٹ کی تلاش تھی۔ سیاحوں کے علاقے میں ایک عرب ریسٹورنٹ ملا، وہاں رات کا کھانا کھایا۔ کھانا مزے کا نہ تھا، اکثر ایسی جگہوں پر یہ مسلہ ہو جاتا ہے کیونکہ اگر گاہگ باقاعدگی سے نہ آتے ہوں تو کھانے کے معیار کی طرف اتنی توجہ نہیں دی جاتی۔ سبق یہی ہے کہ سیاحتی علاقے سے کھانا نہ کھایا جائے، مہنگا ہونے کے ساتھ اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ معیار کمتر درجے کا ہو گا ہے۔

اگلے روز ہم صبح سویرے اشبیلیہ کے محل 'القصر' کے سامنے پہنچ گئے۔ وہاں سیاحوں کی ایک لمبی قطار ٹکٹ خریدنے کے لیے کھڑی تھی۔ ہم نے اس قطار سے بچنے کے لیے فوراً وہیں کھڑے کھڑے انٹرنیٹ سے آن لائن ٹکٹ خریدی اور محل میں داخل ہو گئے۔

یہ شاہی محل ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے۔ اسے بنو عباد کے شاہی خاندان نے تعمیر کرایا تھا۔ اندلس میں بنو اُمیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ خاندان برسر اقتدار آیا تھا۔ بغداد میں بنو اُمیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عبدالرحمن اول نے قرطبہ کی خلافت کی بنیاد رکھی۔ اس سلطنت کا شمالی افریقہ بھی حصہ رہا۔ 756 عیسوی سے لیکر 929 عیسوی تک یہاں کا حکمران امیرِ قرطبہ کہلاتا تھا۔ 929 عیسوی میں عبدالرحمن سوم نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور سو اپنا لقب امیر سے خلیفہ میں بدل لیا۔1009 سے 1031 تک اس علاقے میں خانہ جنگی رہی، تاریخ اسے فتنہِ اندلس کے نام سے جانتی ہے۔

اس دور میں محلاتی سازشیں اپنے عروج پر تھیں اورکئی شہزادوں کے قتل کا باعث بنیں۔ اس خانہ جنگی کے باعث 1031 عیسوی میں قرطبہ کی خلافت کا خاتمہ ہوا اور سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ ان ٹکڑوں کے مختلف خاندان حکمران بن گئے جو آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ ان آپس کی جنگوں میں مسلمان حکمران ایک دوسرے کے خلاف پڑوسی عیسائی حکمرانوں کی مدد لیتے رہتے تھے۔ بنو عباد نے اشبیلیہ پر 1023 عیسوی سے 1091 عیسوی تک حکمرانی کی اور اشبیلیہ کا محل انہوں نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ محل عیسائی فتح کے بعد عیسائی حکمرانوں نے مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اپنی رہائش کے لیے استعمال کیا، مگر اب بھی اس محل میں اسلامی/عربی/مورش طرز تعمیر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یہ طرزِ تعمیر مدجن بھی کہلاتا ہے۔

مدجن کا لفظ ہتک آمیز ہے کیونکہ اسپین کے فاتح عیسائی اسے پالتو کے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ اور عیسائی فتح کے بعد وہ مسلمان جو اسپین میں رہے ان کے لئے یہ ہتک آمیز لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ اشبیلیہ کا محل اقوام متحدہ کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ ایک عالیشان عمارت ہے جس کے نقش ونگار نے صدیوں کا سفر برداشت کیا ہے۔ یہ عمارت اور اس کے باغات اپنے ہنرمندوں، معماروں، نقش گروں اور اْس زمانے کے فنون کا آئینہ دار ہے۔

القصر میں دوسری شاہی عمارات کی طرح ایک عالیشان باغ بھی ہے، جس کی سیرابی کے لیے پانی کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس باغ کے وسط میں ایک عمارت میں ایک فوارہ بھی بنا ہے۔ القصر کے باغ میں ہمیں کچھ 'مہمان' بطخوں اور موروں کی شکل میں مل گئے جو ہمارے بسکٹوں میں شریک ہوئے۔

اندلس میں مسلمانوں نے کئی چیزیں متعارف کروائیں، ان میں پانی کا انتظام ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ نہروں اور آبی راہوں سے پانی سے باغات سیراب کیے گئے۔ گھروں اور عمارتوں کے صحن میں حوض ایک ضروری عنصر تھا۔ اس کے علاوہ حمام بنائے گئے۔ دونوں اقسام کے حمام ملتے ہیں جو شاہی اور عوام کے استعمال کی خاطر بنائے گئے۔

القصر سے نکلتے ہوئے دیکھا کہ درمیانی صحن میں چھوٹے چھوٹے سے پرندے لگاتار دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔ کچھ دائیں سے بائیں دائرے میں اڑتے اور کچھ اس سے مخالف بائیں سے دائیں دائرے میں اڑتے۔ بچپن میں سکول جاتے ہوئے چوبرجی کے چوک سے گذرتے تھے تو وہاں پر ابابیلوں کو یونہی بے چین اڑتا پاتے تھے، وہی منظر تھا۔ شاید صدیوں سے یہ پرندہ بے چین ہے ، چونچوں سے کنکر دوبارہ گرانے کے لیے۔

القصر سے متصل ہی اشبیلیہ کا چرچ ہے، دنیا کا تیسرا بڑا چرچ ؛ عالیشان، پروقار، دیکھنے کے قابل۔ یہ عمارت اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔

مگر یہ چرچ ہمیشہ چرچ نہ تھا۔ یہ ایک عالیشان مسجد تھی جس کی تعمیر الموحد خلیفہ ابو یعقوب یوسف نے 1172 عیسوی میں شروع کروائی تھی۔ 15 ہزار سکوئر میٹر سے وسیع رقبے پر تعمیر اس مسجد کا نقشہ مقامی آرکیٹیکٹ احمد بن باصو اور سسلی کے رہائشی آرکیٹیکٹ ابو لیث الثقلی نے بنایا تھا، قبلہ رو کھڑی عمارت، جس کے ساتھ وضو خانے کا حوض اور ایک بلند و بالا مینار تھا۔ وہ مینار کہ جس کی اونچائی سے موذن کی آواز پوری وادی الکبیر میں گونجتی تھی۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ بے شک اللہ سب سے بڑا ہے۔

یہ مینار 350 فٹ کے قریب اونچا ہے اور آج بھی اشبیلیہ کی پہچان کے طور پر کھڑا ہے، سیدھا، اونچا، بلند و بالا، فخر کے ساتھ مگر افسردہ۔ مسجد کو چرچ بنا لیا گیا، قبلہ روعمارت کو بدل دیا گیا، صلیبیں پیوست ہوئیں، عیسائیت کی مذہبی تصاویر اور مجسمے مسجد میں جابجا لگا دیے گئے۔ مگر یہ مینار کھڑا رہا، ایک شان کے ساتھ ، ایک افسردگی گو اس کے چہار جانب تھی۔ اور ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ اس کے گرد طواف کرتے ہیں، بے چین، دائروں میں بے قراری سے اڑتے ہوئے، اپنی تیز آوازوں سے اپنی موجودگی کا اغساس دلاتے، حکم کے انتظارمیں۔ مگر حکم نہیں آتا؛ چیخوں، سینہ کوبی، ماتم ، آنسووں، خون کی ندیوں، غم زدہ چہروں اور مسلسل فریادوں کے باوجود۔

حکم نہیں آتا، کیونکہ جب تک میدان کارزار میں آترنے کا عزم صمیم نہ ہو، رب کی مدد نہیں آیا کرتی۔ عام اصول ہمیشہ قائم رہتا ہے، صدیوں سے جاری و ساری، عمومیت کے ساتھ۔اصول کہ جرم ضعیفی کی سزا ہولناک ہے۔ ہولناک؛ کسی معافی ، کسی رحم، کسی درگزر کے بغیر۔ چیخوں، سینہ کوبی کے باوجود، ماتم سے قطع نظر، آنسووں کی قطاروں کے باوجود، خون کی نہروں کے باوجود، اداس آنکھوں، غم زدہ چہروں کی فریادوں کے باوجود۔ ہولناک، جسم سے بڑھ کی روح کو تارتار کرتی ہولناکی۔

اور اس مسجد کا مینار اب بھی کھڑا ہے۔ اذان کی جگہ چرچ کی گھنٹیاں اب وادی الکبیر میں گونجتی ہیں۔ اور ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ اس کا طواف کرتے ہیں؛ بے چین، بیقرار، اونچی چیخوں میں ماتم و گریہ زن۔

اشبیلیہ میں تیسری عمارت جو عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے اس میں مقامی قدیم تاجروں کے پرانے تجارتی مخطوطا ت محفوظ ہیں۔ اس میں ہسپانوی سلطنت کے اُس وقت کے نو دریافت شدہ براعظم امریکہ کے ساتھ تجارتی دستاویزات سنبھال گئی ہیں۔ کولمبس جس نے امریکہ دریافت کیا تھا ، اس کی جہازرانی کے مہمات کی سرپرستی ہسپانوی سلطنت نے کی تھی۔اس عمارت کا انگریزی میں نام ہے

General Archive of the Indies

ہم گھوم پھر رہے تھے کہ ایک دیوار کی چھاوں میں تین دوست بلیاں آرام کرتی نظر آئیں۔ ہم اجنبیوں کو انہوں نے بڑے غور سے دیکھا، ایسے ہی جیسے ہم انہیں غور سے دیکھ رہے تھے۔

سہ پہر ہو چلی تھی، بھوک بھی خوب لگ رہی تھی، مگر کل شام کا تجربہ تھا کہ سیاحتی مقام پر کھانا اتنا اچھا نہیں ہوتا۔ رات جو ایک عرب ریسٹورنٹ میں بیف سٹیک کھایا تھا بالکل اچھا نہ تھا سو گوگل میپ پر کوئی دور کی حلال کھانے کی جگہ ڈھونڈنی شروع کی۔ ایک کباب شاپ دور کی مسافت پر ملی۔ ڈھونڈنے اور پہنچنے میں مزید وقت لگ گیا، مگر وہاں پہنچے تو سرگودھا میانی کے علاقے کا یاسین اس دکان میں ملازم تھا۔ اْس نے زبردست باسمتی چاول، سبزی اور بیف ہمارے ذائقے کا تیار کیا، سو بڑا مزا رہا۔

کمرے سے صبح نکلتے سامان گاڑی میں رکھ لیا تھا، سو کھانا کھا کر قرطبہ کے لیے روانہ ہوئے۔ اشبیلیہ سے قرطبہ کا سفر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا ہے۔

(جاری ہے)

 
Load Next Story