اسرائیل نے غزہ جنگ بندی کے امریکی روڈ میپ کو منظور کرلیا
حماس نے بھی چند مطالبات کے پورا ہونے کی صورت میں امریکی روڈ میپ پر رضامندی ظاہر کردی
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ایک معاون نے تصدیق کی کہ جنگی کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے امریکا کے سہ نکاتی تجاویز کو قبول کرلیا۔
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو ایک انٹرویو میں نیتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے چیف ایڈوائزر اوفیر فالک نے کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی تجویز "ایک ڈیل تھی جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اگرچہ یہ کوئی اچھی ڈیل نہیں لیکن اسرائیل ان تمام قیدیوں کو رہا کرنا چاہتا تھا۔
خارجہ پالیسی کے چیف ایڈوائزر اوفیر فالک نے مزید بتایا کہ ابھی اس روڈ میپ کی بہت ساری تفصیلات پر کام کرنا باقی ہے۔ لہذا اس پر عمل درآمد کے آغاز سے متعلق فی الوقت کچھ کہنا مشکل ہوجائے گا۔
نیتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے چیف ایڈوائزر نے خبردار کیا کہ حالات بشمول یرغمالیوں کی بازیابی اور حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی اسرائیلی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کا جنگ کے آغاز سے یہی اصرار رہا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے تک لڑائی میں صرف عارضی توقف پر بات کرے گا جب کہ حماس نے ہمیشہ یہی شرط رکھی ہے کہ مستقل جنگ بندی کے بغیر وہ اسرائیلی یرغمالی کو رہا نہیں کریں گے۔
اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر خارجہ یائر لپیڈ نے بھی نیتن یاہو کو جنگ بندی کا معاہدہ کرنے پر اپنی سیاسی حمایت کی پیشکش کی ہے۔
اسرائیل کے اکثریت سیاسی اور سماجی رہنما غزہ میں حماس کی حکومت قائم رہنے دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔ جس میں وزیراعظم نیتن یاہو بھی شامل ہیں۔
ان تمام رہنماؤں کا مطالبہ رہا ہے کہ غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرکے علاقے کو یا تو فوجی کنٹرول میں دیدیا جائے یا فلسطین اتھارٹی کو یہاں حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔
امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک اور کئی اسرائیلی رہنما بھی فلسطین اتھارٹی کو غزہ کا انتظام دینے کے حق میں ہیں لیکن نیتن یاہو غزہ میں طویل عرصے تک اسرائیلی فوج کی موجودگی کے حق میں ہیں۔
اسرائیلی رہنماؤں کے ان اختلافات کے درمیان امریکی صدر جوبائیڈن نے دو روز قبل غزہ میں مستقل جنگ بندی اور تعمیر و ترقی کا ایک روڈ میپ پیش کیا۔
حماس نے امریکی صدر جوبائیڈن کے روڈ میپ کا خیرمقدم کیا تھا۔ سینیئر رہنما اسامہ حمدان نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ جوبائیڈن کی تقریر میں مثبت خیالات شامل تھے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک جامع معاہدے کے فریم ورک کے اندر عمل میں آئے جو ہمارے مطالبات کو پورا کرے۔
حماس کے رہنما نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے مکمل اور یقینی خاتمے، اسرائیل کی تمام غاصب افواج کے انخلاء، فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے امداد کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ میں مستقل جنگ بندی کے لیے روڈ میپ پیش کیا تھا جو تین مراحل پر مشتمل تھا۔
پہلے مرحلے میں جنگ بندی اور آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا، دوسرے مرحلے میں اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کرنا شامل تھا۔
امریکی صدر کے روڈ میپ پر جنگ بندی کے دیگر ثالثوں قطر اور مصر نے فریقین (اسرائیل اور حماس) پر زور دیا تھا کہ صدر جو بائیڈن کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق معاہدے کو جلد از جلد حتمی شکل دیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے غزہ کے بعد اب رفح پر بھی بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 36 ہزار 500 سے تجاوز ہوگئی جب کہ 82 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی، UNRWA نے گزشتہ روز بتایا کہ رفح میں اس کی تمام 36 پناہ گاہیں اب خالی پڑی ہیں جہاں 14 لاکھ افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔
اونرا (UNRWA) کے ترجمان نے مزید بتایا کہ رفح پر اسرائیلی بمباری کے بعد سے کم از کم 10 لاکھ فلسطینی کیمپ چھوڑ کر خان یونس اور اس کے آس پاس علاقوں میں جا چکے ہیں جہاں پہلے ہی 7 لاکھ افراد پناہ گزین ہیں۔
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو ایک انٹرویو میں نیتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے چیف ایڈوائزر اوفیر فالک نے کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی تجویز "ایک ڈیل تھی جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اگرچہ یہ کوئی اچھی ڈیل نہیں لیکن اسرائیل ان تمام قیدیوں کو رہا کرنا چاہتا تھا۔
خارجہ پالیسی کے چیف ایڈوائزر اوفیر فالک نے مزید بتایا کہ ابھی اس روڈ میپ کی بہت ساری تفصیلات پر کام کرنا باقی ہے۔ لہذا اس پر عمل درآمد کے آغاز سے متعلق فی الوقت کچھ کہنا مشکل ہوجائے گا۔
نیتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے چیف ایڈوائزر نے خبردار کیا کہ حالات بشمول یرغمالیوں کی بازیابی اور حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی اسرائیلی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کا جنگ کے آغاز سے یہی اصرار رہا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے تک لڑائی میں صرف عارضی توقف پر بات کرے گا جب کہ حماس نے ہمیشہ یہی شرط رکھی ہے کہ مستقل جنگ بندی کے بغیر وہ اسرائیلی یرغمالی کو رہا نہیں کریں گے۔
اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر خارجہ یائر لپیڈ نے بھی نیتن یاہو کو جنگ بندی کا معاہدہ کرنے پر اپنی سیاسی حمایت کی پیشکش کی ہے۔
اسرائیل کے اکثریت سیاسی اور سماجی رہنما غزہ میں حماس کی حکومت قائم رہنے دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔ جس میں وزیراعظم نیتن یاہو بھی شامل ہیں۔
ان تمام رہنماؤں کا مطالبہ رہا ہے کہ غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرکے علاقے کو یا تو فوجی کنٹرول میں دیدیا جائے یا فلسطین اتھارٹی کو یہاں حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔
امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک اور کئی اسرائیلی رہنما بھی فلسطین اتھارٹی کو غزہ کا انتظام دینے کے حق میں ہیں لیکن نیتن یاہو غزہ میں طویل عرصے تک اسرائیلی فوج کی موجودگی کے حق میں ہیں۔
اسرائیلی رہنماؤں کے ان اختلافات کے درمیان امریکی صدر جوبائیڈن نے دو روز قبل غزہ میں مستقل جنگ بندی اور تعمیر و ترقی کا ایک روڈ میپ پیش کیا۔
حماس نے امریکی صدر جوبائیڈن کے روڈ میپ کا خیرمقدم کیا تھا۔ سینیئر رہنما اسامہ حمدان نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ جوبائیڈن کی تقریر میں مثبت خیالات شامل تھے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک جامع معاہدے کے فریم ورک کے اندر عمل میں آئے جو ہمارے مطالبات کو پورا کرے۔
حماس کے رہنما نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے مکمل اور یقینی خاتمے، اسرائیل کی تمام غاصب افواج کے انخلاء، فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے امداد کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ میں مستقل جنگ بندی کے لیے روڈ میپ پیش کیا تھا جو تین مراحل پر مشتمل تھا۔
پہلے مرحلے میں جنگ بندی اور آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا، دوسرے مرحلے میں اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کرنا شامل تھا۔
امریکی صدر کے روڈ میپ پر جنگ بندی کے دیگر ثالثوں قطر اور مصر نے فریقین (اسرائیل اور حماس) پر زور دیا تھا کہ صدر جو بائیڈن کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق معاہدے کو جلد از جلد حتمی شکل دیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے غزہ کے بعد اب رفح پر بھی بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 36 ہزار 500 سے تجاوز ہوگئی جب کہ 82 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی، UNRWA نے گزشتہ روز بتایا کہ رفح میں اس کی تمام 36 پناہ گاہیں اب خالی پڑی ہیں جہاں 14 لاکھ افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔
اونرا (UNRWA) کے ترجمان نے مزید بتایا کہ رفح پر اسرائیلی بمباری کے بعد سے کم از کم 10 لاکھ فلسطینی کیمپ چھوڑ کر خان یونس اور اس کے آس پاس علاقوں میں جا چکے ہیں جہاں پہلے ہی 7 لاکھ افراد پناہ گزین ہیں۔