ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور
کہتے تھے کہ ضرور کسی بیرونی ہاتھ نے ہمارے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے۔۔۔۔
جب 1857ء کی رستاخیز میں وہ جو دلی کو انگریزوں سے رہائی دلانے کے لیے بہت جوش و خروش سے آئے تھے انھوں نے چند مہینے اپنا زور دکھایا پھر مار کھا کر تتر بتر ہو گئے۔ شہر پر پھر فرنگیوں کی اجارہ داری ہو گئی۔ اب جو شہر میں افراتفری پھیلی اس کا نقشہ ان خطوط میں نظر آتا ہے جو ان دنوں غالبؔ نے اپنے احباب کو لکھے تھے۔ ایک خط میں اس افراتفری کو اس نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے ؎
روز اس شہر میں ایک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے
عجب صورت احوال ہے۔ غالب نے تب اپنے شہر کے احوال کو بیان کرتے ہوئے جو شعر لکھا تھا وہ اب ہمیں اپنے شہر کے سلسلہ میں صحیح نظر آتا ہے۔ روز اس شہر میں کوئی نیا گل کھلتا ہے' کوئی نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے' کوئی نئی قیامت برپا ہوتی ہے۔ کتنے عرصے تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ یہ ساری کارستانی ہمارے دشمنوں کی ہے۔ سو اگر کسی بازار میں یا کسی مسجد میں یا کسی اجتماع میں کوئی بم پھٹتا تھا تو ایسی توجیہہ کرنے والے فوراً باہر کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
کہتے تھے کہ ضرور کسی بیرونی ہاتھ نے ہمارے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے۔ مسلمان تو مسلمان کا خون نہیں بہا سکتا اور پھر مسجد میں جا کر بم پھاڑے یا گولی چلائے بھلا یہ تصور میں آنے والی بات ہے۔ اور بیرونی ہاتھ کی کارستانیوں کی تفصیلات کا قصہ انھوں نے اس طرح مختصر کیا کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے۔ تھوڑے عرصے تک یہ اصطلاح خوب چلی۔ پھر توجہ یہود و ہنود سے گزر کر امریکا کی طرف ہو گئی۔ جو بم پھٹتا' جو خودکش حملہ ہوتا کہا جاتا کہ یہ سب امریکا کا کھیل ہے۔
مگر تابکے۔ بیرونی ہاتھ تو مشکل ہی سے نظر آتا تھا اندرونی ہاتھ تواتر سے نظر آنے لگے۔ ویسے کیا عجب ہے کہ بیرونی ہاتھ یہ دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے ہوں کہ اندرونی ہاتھ ہم سے بڑھ کر ہاتھ دکھا رہے ہیں تو چلو انھیں کو اپنی کارستانی کرنے دو۔
تو اس کے بعد ہم نے یہ دیکھا کہ مسلمان مسلمان سے خوفزدہ ہے۔ اور ایک شاعر نے عجب شعر لکھا ؎
رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان
امت سید لولاک سے خوف آتا ہے
یہ افتخار عارف ہیں۔ ان کی یہ غزل اس طرح شروع ہوتی ہے ؎
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
اس خوف نے شہر میں بلکہ شہروں میں عجب گل کھلایا۔ جس دفتر میں قدم رکھتے ہیں' جس ادارے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہاں گیٹ پر سیکیورٹی کے آدمی تعینات ہیں۔ ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں' موٹر کو آگے پیچھے سے کھول کر دیکھتے ہیں۔ تب اندر جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ آدمی آدمی سے ڈرتا ہے۔ مسلمان مسلمان سے خوفزدہ ہے۔ اور چونکہ مسلمان مسلمان سے خوفزدہ ہے تو عید بقر عید کے موقعوں پر بطور خاص مسجد کے دروازے پر سیکیورٹی کا پورا دستہ تعینات نظر آتا ہے۔ گاڑی کا معائنہ۔ پھر گاڑی والے کا معائنہ۔ تب کہیں مسجد کے اندر داخلہ کی اجازت ملتی ہے۔
مگر جب واردات ہونے کو ہوتی ہے تو یہ ساری احتیاط صفر ہو جاتی ہے۔ کتنی مسجدوں میں' کتنی درگاہوں میں' کتنی امام بارگاہوں میں خود کش حملے ہوئے' گولیاں چلیں' بم پھٹے۔ کتنے نمازی درگاہوں امام بارگاہوں میں سے کتنے عقیدتمند اس قیامت میں دبے گئے۔
ابھی جب کراچی ایئر پورٹ پر یلغار ہوئی تھی تو ایک آواز اٹھی تھی کہ اس میں بیرونی ہاتھ نظر آتا ہے۔ تحقیق کی جائے گی۔ مگر کسی نے اس آواز پر کان ہی نہیں دھرا۔ تحقیق کیا ہونی تھی۔ خود شک ظاہر کرنے والوں کو اس کا ایسا یقین نہیں تھا۔ البتہ جلد ہی اس کے بعد جواب میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔
اور لیجیے۔ ابھی ہماری توجہ آپریشن پر تھی کہ
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
ہم ادھر کامیابی کی لو لگائے بیٹھے تھے
ادھر گیند نیلوفری نے اپنا رنگ شہر میں دکھایا۔ اور اب کے عجب ہوا۔ گولیاں چلیں' لاشیں گریں' موٹروں کے شیشے چکنا چور ہوئے۔ شور و شغب' چیخ پکار' اور بیچ سے کون برآمد ہوا۔ گلو بٹ۔ اس ڈرامے کا ہیرو یا ولن۔ اب جسے دیکھو وہ گلو بٹ کی مردانگی یا بدمعاشی پر رواں ہے۔ جیسے وہی سارے آشوب کا خالق ہے یا اس آشوب سے اس طرح برآمد ہوا ہے کہ مرکزی کردار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اس میں ع
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
آخر میں جس نے نام کمایا وہ تھا گلو بٹ۔ عبرت' عبرت' عبرت۔ یہود و ہنود کی سازش۔ امریکا کا کھیل۔ یہ سب فسانے پس منظر میں چلے گئے۔ اب پیش منظر میں اور ہی کچھ ہے ؎
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
یہ کردار باہر سے آیا ہوا نہیں ہے۔ کہانی کے بطن سے یا کہہ لیجیے کہ معاشرے کے بطن سے برآمد ہوا ہے۔ وہ ایک بڑا آئینہ ہے۔ اس میں معاشرہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔
ایسے کردار باہر سے مستعار نہیں ہوتے۔ معاشرے کے بیچ سے برآمد ہوتے ہیں۔ ابھی ہم جس دلی کا ذکر کر رہے تھے وہاں بھی ایسا کردار کچھ اسی رنگ سے نمودار ہوا تھا۔ اس کا نام تھا گامی بدمعاش۔ اس نے فرنگی فاتحین کی خدمات انجام دے کر بہت نام کمایا ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
ٹوھ لیتا پھرتا تھا کہ کس کس نے فرنگیوں کے خلاف بغاوت میں اعلانیہ یا خفیہ حصہ لیا تھا۔ جس کے نام کی رپورٹ اس نے فرنگی دربار میں داخل کی وہ پھانسی پہ چڑھ گیا۔ نوبت یہ آ گئی کہ دلی کے لوگ فرنگی فاتحین سے زیادہ گامی بدمعاش سے خوف کھانے لگے۔
ایسے پر آشوب زمانوں میں یوں بھی ہوتا ہے۔ دشمن آپ کے اندر سے نمودار ہوتا ہے۔
روز اس شہر میں ایک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے
عجب صورت احوال ہے۔ غالب نے تب اپنے شہر کے احوال کو بیان کرتے ہوئے جو شعر لکھا تھا وہ اب ہمیں اپنے شہر کے سلسلہ میں صحیح نظر آتا ہے۔ روز اس شہر میں کوئی نیا گل کھلتا ہے' کوئی نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے' کوئی نئی قیامت برپا ہوتی ہے۔ کتنے عرصے تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ یہ ساری کارستانی ہمارے دشمنوں کی ہے۔ سو اگر کسی بازار میں یا کسی مسجد میں یا کسی اجتماع میں کوئی بم پھٹتا تھا تو ایسی توجیہہ کرنے والے فوراً باہر کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
کہتے تھے کہ ضرور کسی بیرونی ہاتھ نے ہمارے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے۔ مسلمان تو مسلمان کا خون نہیں بہا سکتا اور پھر مسجد میں جا کر بم پھاڑے یا گولی چلائے بھلا یہ تصور میں آنے والی بات ہے۔ اور بیرونی ہاتھ کی کارستانیوں کی تفصیلات کا قصہ انھوں نے اس طرح مختصر کیا کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے۔ تھوڑے عرصے تک یہ اصطلاح خوب چلی۔ پھر توجہ یہود و ہنود سے گزر کر امریکا کی طرف ہو گئی۔ جو بم پھٹتا' جو خودکش حملہ ہوتا کہا جاتا کہ یہ سب امریکا کا کھیل ہے۔
مگر تابکے۔ بیرونی ہاتھ تو مشکل ہی سے نظر آتا تھا اندرونی ہاتھ تواتر سے نظر آنے لگے۔ ویسے کیا عجب ہے کہ بیرونی ہاتھ یہ دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے ہوں کہ اندرونی ہاتھ ہم سے بڑھ کر ہاتھ دکھا رہے ہیں تو چلو انھیں کو اپنی کارستانی کرنے دو۔
تو اس کے بعد ہم نے یہ دیکھا کہ مسلمان مسلمان سے خوفزدہ ہے۔ اور ایک شاعر نے عجب شعر لکھا ؎
رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان
امت سید لولاک سے خوف آتا ہے
یہ افتخار عارف ہیں۔ ان کی یہ غزل اس طرح شروع ہوتی ہے ؎
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
اس خوف نے شہر میں بلکہ شہروں میں عجب گل کھلایا۔ جس دفتر میں قدم رکھتے ہیں' جس ادارے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہاں گیٹ پر سیکیورٹی کے آدمی تعینات ہیں۔ ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں' موٹر کو آگے پیچھے سے کھول کر دیکھتے ہیں۔ تب اندر جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ آدمی آدمی سے ڈرتا ہے۔ مسلمان مسلمان سے خوفزدہ ہے۔ اور چونکہ مسلمان مسلمان سے خوفزدہ ہے تو عید بقر عید کے موقعوں پر بطور خاص مسجد کے دروازے پر سیکیورٹی کا پورا دستہ تعینات نظر آتا ہے۔ گاڑی کا معائنہ۔ پھر گاڑی والے کا معائنہ۔ تب کہیں مسجد کے اندر داخلہ کی اجازت ملتی ہے۔
مگر جب واردات ہونے کو ہوتی ہے تو یہ ساری احتیاط صفر ہو جاتی ہے۔ کتنی مسجدوں میں' کتنی درگاہوں میں' کتنی امام بارگاہوں میں خود کش حملے ہوئے' گولیاں چلیں' بم پھٹے۔ کتنے نمازی درگاہوں امام بارگاہوں میں سے کتنے عقیدتمند اس قیامت میں دبے گئے۔
ابھی جب کراچی ایئر پورٹ پر یلغار ہوئی تھی تو ایک آواز اٹھی تھی کہ اس میں بیرونی ہاتھ نظر آتا ہے۔ تحقیق کی جائے گی۔ مگر کسی نے اس آواز پر کان ہی نہیں دھرا۔ تحقیق کیا ہونی تھی۔ خود شک ظاہر کرنے والوں کو اس کا ایسا یقین نہیں تھا۔ البتہ جلد ہی اس کے بعد جواب میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔
اور لیجیے۔ ابھی ہماری توجہ آپریشن پر تھی کہ
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
ہم ادھر کامیابی کی لو لگائے بیٹھے تھے
ادھر گیند نیلوفری نے اپنا رنگ شہر میں دکھایا۔ اور اب کے عجب ہوا۔ گولیاں چلیں' لاشیں گریں' موٹروں کے شیشے چکنا چور ہوئے۔ شور و شغب' چیخ پکار' اور بیچ سے کون برآمد ہوا۔ گلو بٹ۔ اس ڈرامے کا ہیرو یا ولن۔ اب جسے دیکھو وہ گلو بٹ کی مردانگی یا بدمعاشی پر رواں ہے۔ جیسے وہی سارے آشوب کا خالق ہے یا اس آشوب سے اس طرح برآمد ہوا ہے کہ مرکزی کردار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اس میں ع
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
آخر میں جس نے نام کمایا وہ تھا گلو بٹ۔ عبرت' عبرت' عبرت۔ یہود و ہنود کی سازش۔ امریکا کا کھیل۔ یہ سب فسانے پس منظر میں چلے گئے۔ اب پیش منظر میں اور ہی کچھ ہے ؎
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
یہ کردار باہر سے آیا ہوا نہیں ہے۔ کہانی کے بطن سے یا کہہ لیجیے کہ معاشرے کے بطن سے برآمد ہوا ہے۔ وہ ایک بڑا آئینہ ہے۔ اس میں معاشرہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔
ایسے کردار باہر سے مستعار نہیں ہوتے۔ معاشرے کے بیچ سے برآمد ہوتے ہیں۔ ابھی ہم جس دلی کا ذکر کر رہے تھے وہاں بھی ایسا کردار کچھ اسی رنگ سے نمودار ہوا تھا۔ اس کا نام تھا گامی بدمعاش۔ اس نے فرنگی فاتحین کی خدمات انجام دے کر بہت نام کمایا ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
ٹوھ لیتا پھرتا تھا کہ کس کس نے فرنگیوں کے خلاف بغاوت میں اعلانیہ یا خفیہ حصہ لیا تھا۔ جس کے نام کی رپورٹ اس نے فرنگی دربار میں داخل کی وہ پھانسی پہ چڑھ گیا۔ نوبت یہ آ گئی کہ دلی کے لوگ فرنگی فاتحین سے زیادہ گامی بدمعاش سے خوف کھانے لگے۔
ایسے پر آشوب زمانوں میں یوں بھی ہوتا ہے۔ دشمن آپ کے اندر سے نمودار ہوتا ہے۔