سیاسی خلفشار اور کشمیری
بلتستان اور آزاد کشمیر کے جارحانہ احتجاج بھی پاکستانی سیاسی خلفشار سے ہی متاثر تھے
کشمیریوں کی آزادی کی تحریک خود کشمیری چلا رہے ہیں، پاکستان اس تحریک کا ایک موثر فریق ہے۔
پاکستان نے کشمیریوں کی مرضی کے مطابق انھیں بھارتی تسلط میں جانے سے بچانے کے لیے اپنی بے سروسامانی کے باوجود بھی 1948 میں بھارتی فوج سے ٹکر لی تاہم ایک حصے کو بچا لیا گیا وہاں کے کشمیری خود کو آزاد شہری کہتے ہیں اور جس حصے پر بھارت قابض ہو گیا، وہاں کے کشمیری خود کو غلام تصور کرتے ہیں، وہ بھارت کی غلامی سے نکلنے کے لیے گزشتہ 74 سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
پنڈت نہرو اس مسئلے کو سلامتی کونسل میں لے جا کر اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے مگر وہاں یہ فیصلہ ہوا کہ کشمیریوں کو حق خود اختیاری کے تحت پاکستان اور بھارت میں کسی ایک ملک کو منتخب کرنے کا حق دیا جائے جس کو بھارت نے تسلیم کر لیا مگر افسوس کہ آج تک کشمیر میں رائے شماری نہیں کرائی گئی کہ آیا کشمیری بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔ یہ عمل دراصل اس لیے اب تک موثر ہے کیونکہ بھارتی رہنماؤں کو اچھی طرح پتا ہے کہ جب بھی کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک ملک کو اپنانے کا موقع دیا گیا تو ان کی چوائس پاکستان ہوگا۔
چنانچہ 1948 سے لے کر آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں کشمیری آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر بھارتی حکومتیں مسلسل فوجی طاقت کے ذریعے ان کے حق خود اختیاری کو کچلتی آ رہی ہیں، چونکہ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے چنانچہ جہاں وہ اپنے ہاں باقاعدگی سے انتخابات منعقد کراتا ہے وہاں مقبوضہ جموں کشمیر میں بھی انتخابی ڈھونگ رچایا جاتا ہے مگر ہر دفعہ یہ ڈھونگ ناکام رہا ہے کیونکہ کشمیریوں نے ان نام نہاد انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ تاہم ناکام انتخابات کے باوجود بھی وہاں نام نہاد صوبائی جمہوری حکومتیں قائم کی گئی ہیں۔
فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خاندان ڈمی الیکشن کے ذریعے حکومتیں بنا کر بھارتی حکومتوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے ہیں اور کشمیریوں سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ ماضی کے انتخابات میں دو فی صد سے بھی کم ووٹنگ ہوتی رہی ہے مگر بھارتی حکومتیں ان ناکام انتخابات کو کامیاب قرار دے کر عالمی برادری کو گمراہ کرتی رہی ہیں۔ گوکہ وہاں سول حکومتیں قائم کی گئیں مگر زیادہ تر وقت وہاں گورنر راج ہی قائم رہا ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اب وہاں امسال 19 اپریل سے 26 مئی تک پارلیمانی انتخابات منعقد کیے گئے۔
یہ لوک سبھا کے الیکشن سری نگر، بارہ مولا، اننت ناگ اور راجوری سے تین پارلیمانی نشستوں کے لیے چار مرحلوں میں منعقد کیے گئے۔ بی بی سی نے ان تمام نشستوں پر ریکارڈ توڑ ووٹنگ کی خبر دی ہے۔ بی بی سی کے تبصرے کے مطابق ماضی میں مسلح شورش، علیحدگی پسندوں کی بائیکاٹ مہم اور ہلاکتوں کے پیش نظر کشمیر کے لوگ کسی بھی الیکشن کو کوئی بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ پہلے ہونے والے انتخابات میں پولنگ بوتھوں پر اِکا دُکا ووٹر ہی نظر آتے تھے۔
ماضی میں بائیکاٹ کا براہ راست فائدہ نیشنل کانفرنس کو ہوتا تھا کیونکہ اکثر اس کے ووٹر ہی الیکشن میں حصہ لیتے تھے ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح اتنی کم ہوتی تھی کہ بھارتی حکومت اصل حقائق کو چھپاتی تھی اور صحافیوں کو بھی حقائق ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی تاہم حکومتی میڈیا انھیں کامیاب قرار دیتا تھا اور بڑے پیمانے پر ووٹنگ ہونے کے جھوٹے اعداد و شمار پیش کرتا تھا تاہم مقبوضہ وادی میں حالیہ منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں بی بی سی نے عوام کی تاریخی شمولیت کی خبر دی۔ اس کے مطابق ان انتخابات میں ہائی ٹرن آؤٹ رہا ہے۔
سری نگر میں 40 فی صد، بارہ مولا میں 60 فی صد اور اننت ناگ کی سیٹ پر 53 فی صد سے زیادہ ووٹنگ ریکارڈ کی گئی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر چار سال سے کامیابی سے سیز فائر جاری ہے۔ علیحدگی پسندوں کی بڑی تعداد جیلوں میں ہے، حریت کانفرنس کے بڑے رہنماؤں کو نظربند رکھا گیا ہے لیکن یہ بھی بتایا ہے کہ جو علیحدگی پسند جیلوں میں یا نظر بند نہیں ہیں انھوں نے اس بار ووٹنگ میں حصہ لیا ہے۔ اس بار یہ بھی عجوبہ ہوا ہے کہ کالعدم جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے عوام کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی ہے۔
اننت ناگ کے جماعت اسلامی کے ضلعی صدر محمد یوسف وانی نے عوام کو ووٹ ڈالنے کی خود ترغیب دی ہے انھوں نے ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ ہماری لیڈر شپ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بار ووٹ ڈالنا ہے اور ہم نے اپنے تمام اراکین کو ہدایت کی ہے کہ وہ سب الیکشن میں بھرپور حصہ لیں۔ جماعت اسلامی ماضی میں ہونے والے ہر الیکشن کا بائیکاٹ کرتی آئی تھی وہ حریت کانفرنس کے ساتھ مل کر الیکشن والے دن پوری وادی میں مکمل ہڑتال کراتی آئی ہے۔
جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس کے رہنما پہلے بھی جیلوں میں بند ہوتے تھے یا گھروں میں نظر بند ہوتے تھے مگر کارکنان کامیاب ہڑتالیں کراتے رہے ہیں، اس مرتبہ ایسا کیا ہوا کہ جماعت اسلامی نے مودی حکومت کی جانب سے منعقدہ الیکشن میں خود بھی حصہ لیا اور عوام کو بھی ترغیب دی ہے۔ آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے وقت اس وقت کی پاکستانی حکومت نے سخت احتجاج ضرور کیا تھا مگر اس کے بعد لگتا ہے کشمیریوں کی آزادی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور انھیں مودی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے معاشی خلفشار اور خاص طور پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان دشمنوں جیسی محاذ آرائی نے دراصل موجودہ حکومت کی توجہ کشمیر کاز سے دور کردی ہے پھر اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں چند دن قبل مہنگائی کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والا احتجاج جو مہنگائی سے زیادہ وفاقی حکومت کے خلاف لگتا تھا اور اس سے بھی پہلے گلگت بلتستان میں حکومت مخالف کئی دنوں تک جاری رہنے والے مظاہروں نے مودی حکومت کو موقع بخشا کہ وہ ان کے ذریعے آزاد کشمیر میں کشمیریوں کی حالت زار کا مقبوضہ کشمیر میں پروپیگنڈا کرکے وہاں کے کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کر سکے۔ بلتستان اور آزاد کشمیر کے جارحانہ احتجاج بھی پاکستانی سیاسی خلفشار سے ہی متاثر تھے۔
پاکستان نے کشمیریوں کی مرضی کے مطابق انھیں بھارتی تسلط میں جانے سے بچانے کے لیے اپنی بے سروسامانی کے باوجود بھی 1948 میں بھارتی فوج سے ٹکر لی تاہم ایک حصے کو بچا لیا گیا وہاں کے کشمیری خود کو آزاد شہری کہتے ہیں اور جس حصے پر بھارت قابض ہو گیا، وہاں کے کشمیری خود کو غلام تصور کرتے ہیں، وہ بھارت کی غلامی سے نکلنے کے لیے گزشتہ 74 سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
پنڈت نہرو اس مسئلے کو سلامتی کونسل میں لے جا کر اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے مگر وہاں یہ فیصلہ ہوا کہ کشمیریوں کو حق خود اختیاری کے تحت پاکستان اور بھارت میں کسی ایک ملک کو منتخب کرنے کا حق دیا جائے جس کو بھارت نے تسلیم کر لیا مگر افسوس کہ آج تک کشمیر میں رائے شماری نہیں کرائی گئی کہ آیا کشمیری بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔ یہ عمل دراصل اس لیے اب تک موثر ہے کیونکہ بھارتی رہنماؤں کو اچھی طرح پتا ہے کہ جب بھی کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک ملک کو اپنانے کا موقع دیا گیا تو ان کی چوائس پاکستان ہوگا۔
چنانچہ 1948 سے لے کر آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں کشمیری آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر بھارتی حکومتیں مسلسل فوجی طاقت کے ذریعے ان کے حق خود اختیاری کو کچلتی آ رہی ہیں، چونکہ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے چنانچہ جہاں وہ اپنے ہاں باقاعدگی سے انتخابات منعقد کراتا ہے وہاں مقبوضہ جموں کشمیر میں بھی انتخابی ڈھونگ رچایا جاتا ہے مگر ہر دفعہ یہ ڈھونگ ناکام رہا ہے کیونکہ کشمیریوں نے ان نام نہاد انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ تاہم ناکام انتخابات کے باوجود بھی وہاں نام نہاد صوبائی جمہوری حکومتیں قائم کی گئی ہیں۔
فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خاندان ڈمی الیکشن کے ذریعے حکومتیں بنا کر بھارتی حکومتوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے ہیں اور کشمیریوں سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ ماضی کے انتخابات میں دو فی صد سے بھی کم ووٹنگ ہوتی رہی ہے مگر بھارتی حکومتیں ان ناکام انتخابات کو کامیاب قرار دے کر عالمی برادری کو گمراہ کرتی رہی ہیں۔ گوکہ وہاں سول حکومتیں قائم کی گئیں مگر زیادہ تر وقت وہاں گورنر راج ہی قائم رہا ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اب وہاں امسال 19 اپریل سے 26 مئی تک پارلیمانی انتخابات منعقد کیے گئے۔
یہ لوک سبھا کے الیکشن سری نگر، بارہ مولا، اننت ناگ اور راجوری سے تین پارلیمانی نشستوں کے لیے چار مرحلوں میں منعقد کیے گئے۔ بی بی سی نے ان تمام نشستوں پر ریکارڈ توڑ ووٹنگ کی خبر دی ہے۔ بی بی سی کے تبصرے کے مطابق ماضی میں مسلح شورش، علیحدگی پسندوں کی بائیکاٹ مہم اور ہلاکتوں کے پیش نظر کشمیر کے لوگ کسی بھی الیکشن کو کوئی بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ پہلے ہونے والے انتخابات میں پولنگ بوتھوں پر اِکا دُکا ووٹر ہی نظر آتے تھے۔
ماضی میں بائیکاٹ کا براہ راست فائدہ نیشنل کانفرنس کو ہوتا تھا کیونکہ اکثر اس کے ووٹر ہی الیکشن میں حصہ لیتے تھے ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح اتنی کم ہوتی تھی کہ بھارتی حکومت اصل حقائق کو چھپاتی تھی اور صحافیوں کو بھی حقائق ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی تاہم حکومتی میڈیا انھیں کامیاب قرار دیتا تھا اور بڑے پیمانے پر ووٹنگ ہونے کے جھوٹے اعداد و شمار پیش کرتا تھا تاہم مقبوضہ وادی میں حالیہ منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں بی بی سی نے عوام کی تاریخی شمولیت کی خبر دی۔ اس کے مطابق ان انتخابات میں ہائی ٹرن آؤٹ رہا ہے۔
سری نگر میں 40 فی صد، بارہ مولا میں 60 فی صد اور اننت ناگ کی سیٹ پر 53 فی صد سے زیادہ ووٹنگ ریکارڈ کی گئی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر چار سال سے کامیابی سے سیز فائر جاری ہے۔ علیحدگی پسندوں کی بڑی تعداد جیلوں میں ہے، حریت کانفرنس کے بڑے رہنماؤں کو نظربند رکھا گیا ہے لیکن یہ بھی بتایا ہے کہ جو علیحدگی پسند جیلوں میں یا نظر بند نہیں ہیں انھوں نے اس بار ووٹنگ میں حصہ لیا ہے۔ اس بار یہ بھی عجوبہ ہوا ہے کہ کالعدم جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے عوام کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی ہے۔
اننت ناگ کے جماعت اسلامی کے ضلعی صدر محمد یوسف وانی نے عوام کو ووٹ ڈالنے کی خود ترغیب دی ہے انھوں نے ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ ہماری لیڈر شپ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بار ووٹ ڈالنا ہے اور ہم نے اپنے تمام اراکین کو ہدایت کی ہے کہ وہ سب الیکشن میں بھرپور حصہ لیں۔ جماعت اسلامی ماضی میں ہونے والے ہر الیکشن کا بائیکاٹ کرتی آئی تھی وہ حریت کانفرنس کے ساتھ مل کر الیکشن والے دن پوری وادی میں مکمل ہڑتال کراتی آئی ہے۔
جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس کے رہنما پہلے بھی جیلوں میں بند ہوتے تھے یا گھروں میں نظر بند ہوتے تھے مگر کارکنان کامیاب ہڑتالیں کراتے رہے ہیں، اس مرتبہ ایسا کیا ہوا کہ جماعت اسلامی نے مودی حکومت کی جانب سے منعقدہ الیکشن میں خود بھی حصہ لیا اور عوام کو بھی ترغیب دی ہے۔ آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے وقت اس وقت کی پاکستانی حکومت نے سخت احتجاج ضرور کیا تھا مگر اس کے بعد لگتا ہے کشمیریوں کی آزادی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور انھیں مودی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے معاشی خلفشار اور خاص طور پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان دشمنوں جیسی محاذ آرائی نے دراصل موجودہ حکومت کی توجہ کشمیر کاز سے دور کردی ہے پھر اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں چند دن قبل مہنگائی کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والا احتجاج جو مہنگائی سے زیادہ وفاقی حکومت کے خلاف لگتا تھا اور اس سے بھی پہلے گلگت بلتستان میں حکومت مخالف کئی دنوں تک جاری رہنے والے مظاہروں نے مودی حکومت کو موقع بخشا کہ وہ ان کے ذریعے آزاد کشمیر میں کشمیریوں کی حالت زار کا مقبوضہ کشمیر میں پروپیگنڈا کرکے وہاں کے کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کر سکے۔ بلتستان اور آزاد کشمیر کے جارحانہ احتجاج بھی پاکستانی سیاسی خلفشار سے ہی متاثر تھے۔