چند قانونی نکات
فالورز ہونے یا سیاسی جماعت کا سربراہ ہونا یا سابق وزیر اعظم ہونا کسی بھی ترجیحی سلوک کی وجہ نہیں ہو سکتی
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس کو لائیو نہ دکھانے کے فیصلے میں اختلافی نوٹ میں یہ تحریر کیا ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کوئی عام قیدی یا مجرم نہیں ہیں، عام انتخابات سے ثابت ہو گیا ہے کہ ان کے لاکھوں سپورٹرز ہیں۔ یہ اختلافی نوٹ جاری ہو چکا ہے اور اب یہ عدالتی فیصلے کے حصے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس پر تبصرہ یا رائے دی جا سکتی ہے۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ ہمارے قانون اور نظام انصاف کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہے کہ امیر کو غریب پر' اہم کو غیر اہم پر 'مقبول کو غیر مقبول پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ قانون اور آئین کی نظر میں سب شہری برابر ہیں۔
اسی لیے نظام انصاف کی نظر میں بھی سب شہری برابر ہیں۔یہ اصول مدنظر رکھا جائے اور پھر اس دلیل پر غور کریں کہ فلاں لیڈریا کوئی اہم شخصیت جیل میں ہے، چونکہ وہ پاپولر ہے لہٰذا وہ عام قیدی نہیں ہے تویہ دلیل آئین اور قانون کے تناظر میں زیادہ وزن نہیں رکھتی۔ میری رائے میں قانون کی نظر میں سب قیدی برابر ہوتے ہیں۔ کسی بھی قیدی کو کسی بھی دوسرے قیدی پر اس لیے ترجیح حاصل نہیںہو سکتی کہ اس کے زیادہ فالورز ہیں۔
قانون کی نظر میں مقبول اور غیر مقبول سب برابر ہیں۔ فالورز ہونے یا سیاسی جماعت کا سربراہ ہونا یا سابق وزیر اعظم ہونا کسی بھی ترجیحی سلوک کی وجہ نہیں ہو سکتی۔ ترجیحی سلوک کے لیے بھی قانون سب کے لیے ایک جیسا ہوگا۔کسی قیدی کو اے کلاس دینی ہے تو یہ قانون ان سب سزا یافتگان پر لاگو ہوگا جو قانون کی نظر میںاے کلاس کے حقدار ہوں گے۔ عام یا خاص قیدی کی اصطلاح نظام انصاف کے بنیادی فلسفے اور یکساں نظام انصاف کے اصول پرپورا نہیں اترتی۔
عدالتوں سے جاری ہونے کے بعد عدالتی فیصلے عوام کی عدالت میں چلے جاتے ہیں۔ عوام کی عدالت کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ حالیہ اختلافی نوٹ میں اٹھائے گئے نکتے پر لوگ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کے فیصلے کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ عوام کی عدالت میں دونوں فیصلوں کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ نیب ترامیم کیس لائیو نہ دکھانے کے فیصلے میں ایک اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جب گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا تھا تو وہ کوئی عام قیدی نہیں تھے۔ بلکہ آئین شکن فوجی آمر کے متاثرہ فریق تھے۔
سپریم کورٹ نے چار دہائیوں کے بعد کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شفاف ٹرائل سے محروم تھے۔ لیکن بھٹو کو جو نقصان پہنچا اس کا مداوا نہیں ہو سکا۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو بھی کوئی عام مجرم نہیں تھے۔ ان دونوں کو بھی ریاستی طاقت کے غلط استعمال کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں رہنما عوامی نمایند ے ہونے کے ناطے لاکھوں فالورز رکھتے تھے۔
دونوں کو ہراساں کیا گیا اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور ان دونوں کے خلاف غیر منتخب لوگوں کی جانب سے بغیر شواہد کرپشن کے مقدمات بنائے گئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک اور سابق وزیر اعظم کے خلاف متعدد ٹرائلز چلائے جا رہے ہیں۔(یہاں بانی تحریک انصاف عمران خان کی بات کی گئی ہے ) جن میں سے کچھ میں انھیں سزا ہو چکی ہے۔ حالیہ انتخابات میں ثابت ہوا ہے کہ بانی تحریک انصاف کے بھی لاکھوں فالورز ہیں۔ وہ کوئی عام قیدی یا مجرم نہیں ہیں۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی نمایندوں کی تضحیک کے معاملے میں عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
اب ایک طرف یہ رائے یا استدلال ہمارے سامنے ہے دوسری طرف ماضی میں کیا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ بھی ہمارے سامنے ہے جس میں نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ جب پیمرا کی جانب سے نواز شریف کی تقاریر کی لائیو ٹیلی کاسٹ پر پابندی عائد کی گئی تھی تو ملک کے سینئر صحافیوں نے اس پابندی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
عدالت نے نواز شریف کی تقاریر پر پابندی ختم نہیں کی تھی بلکہ اس کو قانونی تحفظ دے دیا تھا۔ اس وقت یہ موقف لیا گیا تھا کہ نواز شریف مفرور ہیں اور مفرور کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔اس وقت نواز شریف کی مقبولیت، ان کے لاکھوں فالورز اور انھیں کیوں ملک سے جانا پڑا، جیسے معاملات کو سامنے نہیں رکھا گیا تھا۔ اس وقت عدالت کی نظر میں مفرور ہونے سے نواز شریف کے سارے حقوق ختم ہو گئے۔
عوام کی عدالت نے پھر یہ بھی دیکھا کہ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے متعدد مفرور اور اشتہاری رہنماؤں کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی گئی۔ مفرور اور اشتہاری ہوتے ہوئے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے۔ جب کہ دوسری طرف یہی نظام انصاف نواز شریف کو تقریر لائیو دکھانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھا۔ نواز شریف باقاعدہ ضمانت لے کر اور علاج کے لیے حکومتی اجازت سے باہرگئے تھے۔ جب کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کوئی ضمانت بھی نہیں لی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی حکومتی اجازت تھی۔ پھر بھی ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔
آج دونوں فیصلوں پر بات ہو رہی ہے۔ عمران خان کے بارے میں جو استدلال لیا گیا ہے،میاں نواز شریف کے کیس میں یہ رائے یا استدلال نہیں تھا۔ اس وقت عدالت نواز شریف کو قانون کے ترازو میں برابر نہیں بلکہ سخت تولنے کے حق میں تھی۔ لوگ اس فرق پر بات کر رہے ہیں۔ میں پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فیصلوں پر تبصرہ کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے ۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں لاکھوں فالورز اور عوامی مقبولیت قانون کے لیے کوئی اہم نہیں ہونی چاہیے۔ مقبولیت اور لاکھوں فالورز قانون کی نظر میں ترجیحی سلوک کی کوئی بنیاد نہیں ہو سکتے۔ انصاف اور قانون سب کے لیے برابر ہیں۔ جو قانونی حقوق عمران خان کے ہیں 'وہی میرے ہیں۔ چاہے میرے لاکھوں فالورز نہیں ہیں۔ لوگ مجھے ووٹ نہیں ڈالتے۔ لیکن پاکستان کا آئین و قانون ہر شہری کو برابر قرار دیتا ہے۔
جہاں تک عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کی بات کا تعلق ہے تو آج کل تو باقی سیاسی جماعتوں کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ ججز ایک سیاسی جماعت ا ور ایک لیڈر کے لیے زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔یہ سوال بھی عوام کی عدالت میں موجود ہے۔ ایک کے ساتھ نرمی اور باقیوں کے ساتھ سختی نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو عدم استحکام کا شکار کیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ اگر سیاسی کردار ادا کرتی ہے تو غیر قانونی ہے۔ لیکن نظام عدل کا بھی کوئی سیاسی کردار اور سیاسی جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ ہمارے قانون اور نظام انصاف کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہے کہ امیر کو غریب پر' اہم کو غیر اہم پر 'مقبول کو غیر مقبول پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ قانون اور آئین کی نظر میں سب شہری برابر ہیں۔
اسی لیے نظام انصاف کی نظر میں بھی سب شہری برابر ہیں۔یہ اصول مدنظر رکھا جائے اور پھر اس دلیل پر غور کریں کہ فلاں لیڈریا کوئی اہم شخصیت جیل میں ہے، چونکہ وہ پاپولر ہے لہٰذا وہ عام قیدی نہیں ہے تویہ دلیل آئین اور قانون کے تناظر میں زیادہ وزن نہیں رکھتی۔ میری رائے میں قانون کی نظر میں سب قیدی برابر ہوتے ہیں۔ کسی بھی قیدی کو کسی بھی دوسرے قیدی پر اس لیے ترجیح حاصل نہیںہو سکتی کہ اس کے زیادہ فالورز ہیں۔
قانون کی نظر میں مقبول اور غیر مقبول سب برابر ہیں۔ فالورز ہونے یا سیاسی جماعت کا سربراہ ہونا یا سابق وزیر اعظم ہونا کسی بھی ترجیحی سلوک کی وجہ نہیں ہو سکتی۔ ترجیحی سلوک کے لیے بھی قانون سب کے لیے ایک جیسا ہوگا۔کسی قیدی کو اے کلاس دینی ہے تو یہ قانون ان سب سزا یافتگان پر لاگو ہوگا جو قانون کی نظر میںاے کلاس کے حقدار ہوں گے۔ عام یا خاص قیدی کی اصطلاح نظام انصاف کے بنیادی فلسفے اور یکساں نظام انصاف کے اصول پرپورا نہیں اترتی۔
عدالتوں سے جاری ہونے کے بعد عدالتی فیصلے عوام کی عدالت میں چلے جاتے ہیں۔ عوام کی عدالت کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ حالیہ اختلافی نوٹ میں اٹھائے گئے نکتے پر لوگ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کے فیصلے کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ عوام کی عدالت میں دونوں فیصلوں کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ نیب ترامیم کیس لائیو نہ دکھانے کے فیصلے میں ایک اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جب گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا تھا تو وہ کوئی عام قیدی نہیں تھے۔ بلکہ آئین شکن فوجی آمر کے متاثرہ فریق تھے۔
سپریم کورٹ نے چار دہائیوں کے بعد کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شفاف ٹرائل سے محروم تھے۔ لیکن بھٹو کو جو نقصان پہنچا اس کا مداوا نہیں ہو سکا۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو بھی کوئی عام مجرم نہیں تھے۔ ان دونوں کو بھی ریاستی طاقت کے غلط استعمال کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں رہنما عوامی نمایند ے ہونے کے ناطے لاکھوں فالورز رکھتے تھے۔
دونوں کو ہراساں کیا گیا اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور ان دونوں کے خلاف غیر منتخب لوگوں کی جانب سے بغیر شواہد کرپشن کے مقدمات بنائے گئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک اور سابق وزیر اعظم کے خلاف متعدد ٹرائلز چلائے جا رہے ہیں۔(یہاں بانی تحریک انصاف عمران خان کی بات کی گئی ہے ) جن میں سے کچھ میں انھیں سزا ہو چکی ہے۔ حالیہ انتخابات میں ثابت ہوا ہے کہ بانی تحریک انصاف کے بھی لاکھوں فالورز ہیں۔ وہ کوئی عام قیدی یا مجرم نہیں ہیں۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی نمایندوں کی تضحیک کے معاملے میں عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
اب ایک طرف یہ رائے یا استدلال ہمارے سامنے ہے دوسری طرف ماضی میں کیا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ بھی ہمارے سامنے ہے جس میں نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ جب پیمرا کی جانب سے نواز شریف کی تقاریر کی لائیو ٹیلی کاسٹ پر پابندی عائد کی گئی تھی تو ملک کے سینئر صحافیوں نے اس پابندی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
عدالت نے نواز شریف کی تقاریر پر پابندی ختم نہیں کی تھی بلکہ اس کو قانونی تحفظ دے دیا تھا۔ اس وقت یہ موقف لیا گیا تھا کہ نواز شریف مفرور ہیں اور مفرور کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔اس وقت نواز شریف کی مقبولیت، ان کے لاکھوں فالورز اور انھیں کیوں ملک سے جانا پڑا، جیسے معاملات کو سامنے نہیں رکھا گیا تھا۔ اس وقت عدالت کی نظر میں مفرور ہونے سے نواز شریف کے سارے حقوق ختم ہو گئے۔
عوام کی عدالت نے پھر یہ بھی دیکھا کہ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے متعدد مفرور اور اشتہاری رہنماؤں کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی گئی۔ مفرور اور اشتہاری ہوتے ہوئے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے۔ جب کہ دوسری طرف یہی نظام انصاف نواز شریف کو تقریر لائیو دکھانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھا۔ نواز شریف باقاعدہ ضمانت لے کر اور علاج کے لیے حکومتی اجازت سے باہرگئے تھے۔ جب کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کوئی ضمانت بھی نہیں لی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی حکومتی اجازت تھی۔ پھر بھی ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔
آج دونوں فیصلوں پر بات ہو رہی ہے۔ عمران خان کے بارے میں جو استدلال لیا گیا ہے،میاں نواز شریف کے کیس میں یہ رائے یا استدلال نہیں تھا۔ اس وقت عدالت نواز شریف کو قانون کے ترازو میں برابر نہیں بلکہ سخت تولنے کے حق میں تھی۔ لوگ اس فرق پر بات کر رہے ہیں۔ میں پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فیصلوں پر تبصرہ کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے ۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں لاکھوں فالورز اور عوامی مقبولیت قانون کے لیے کوئی اہم نہیں ہونی چاہیے۔ مقبولیت اور لاکھوں فالورز قانون کی نظر میں ترجیحی سلوک کی کوئی بنیاد نہیں ہو سکتے۔ انصاف اور قانون سب کے لیے برابر ہیں۔ جو قانونی حقوق عمران خان کے ہیں 'وہی میرے ہیں۔ چاہے میرے لاکھوں فالورز نہیں ہیں۔ لوگ مجھے ووٹ نہیں ڈالتے۔ لیکن پاکستان کا آئین و قانون ہر شہری کو برابر قرار دیتا ہے۔
جہاں تک عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کی بات کا تعلق ہے تو آج کل تو باقی سیاسی جماعتوں کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ ججز ایک سیاسی جماعت ا ور ایک لیڈر کے لیے زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔یہ سوال بھی عوام کی عدالت میں موجود ہے۔ ایک کے ساتھ نرمی اور باقیوں کے ساتھ سختی نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو عدم استحکام کا شکار کیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ اگر سیاسی کردار ادا کرتی ہے تو غیر قانونی ہے۔ لیکن نظام عدل کا بھی کوئی سیاسی کردار اور سیاسی جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔