بجلی کے تعطل نے شہریوں کو مالش کا عادی بنادیا

شہری لوڈشیڈنگ کے دوران بجلی کے انتظار کے موقع کو غنیمت جان مالش اور مساج کراکر جسمانی تھکاوٹ دور کرتے ہیں۔

کینٹ اسٹیشن کی فٹ پاتھ پر ایک شخص سر کی مالش کرارہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

انسان روزمرہ معمولات زندگی نمٹانے کے بعد تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے جسم کو توانا رکھنے اور تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ورزش ضروری ہے تاہم بیشتر افراد جسمانی تھکاوٹ اور سستی دور کرنے اور جسم کو توانا رکھنے کے لیے مالش، مساج کراتے ہیں۔

جسم کے اعضا کو خصوصی مہارت سے دباکر تھکاوٹ اور درد دور کرنے والے افراد کو مالشیا کہا جاتا ہے، شہر میں پوش علاقوں میں مساج پارلر کھل چکے ہیں جہاں شہریوں کو یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن متوسط علاقوں اور خاص طور پر سڑکوں پر رات کے وقت مالشی پیدل گھوم کر لوگوں کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، ماہر مالشی یا مساجر کے پاس 50 سے زائد خصوصی تکنیک ہوتی ہیں جس سے وہ جسم کے مختلف اعضا اور حصوں میں موجود درد کو مالش سے دور کرتے ہیں، شہری لوڈشیڈنگ کے دوران بجلی کے انتظار کے موقع کو غنیمت جان مالش اور مساج کراکر جسمانی تھکاوٹ دور کرتے ہیں۔

مالشیوں پر ایکسپریس کے سروے کے دوران مالشی یار محمد نے بتایا کہ شہر میں زیادہ تر مالشی سرائیکی ہیں جو جنوبی پنجاب سے روزگار کے عارضی طور پر کراچی آتے ہیں،شہر میں 70 فیصد مالشی سرائیکی برادری سے ہیں جبکہ 30 فیصد دیگر برادریوں کے افراد ہیں مالش کا کام انتہائی محنت طلب اور مشکل ہے اس کام کیلیے 3 سال استاد سے تربیت لینی پڑتی ہے، ماہر مالشی بننے کے لیے 5 سال درکار ہوتے ہیں، کراچی میں زیادہ تر مالشی گلی گلی گھوم کر مالش کرتے ہیں، ساحل سمندر کے علاقوں، اولڈ سٹی ایریا ، تجارتی مراکز کے باہر اور ٹرک اور بس اڈے مالشیوں کے مراکز ہیں، مغرب کی اذان کے بعد مالشی گھروں سے نکلتے ہیں اور صبح فجر کی اذان تک شہریوں کی مالش کرتے ہیں، سخت محنت کے بعد اہلخانہ کی کفالت کرتے ہیں۔

شہر میں حالات خراب ہونے پر رات کو مالشی مضافاتی علاقوں میں نہیں جاتے ان کی ترجیح قریبی پررونق علاقوں میں کام ہوتی ہے،شہر میں بڑھتی قتل و غارت کے باعث پنجاب سے مالشیوں نے کراچی آنا چھوڑ دیا ہے، اس وقت مالشیوں کی تعداد میں 40 فیصد کمی آگئی ہے، مالشیے ہفتے کے 7 دن کام کرتے ہیں ہماری کوئی چھٹی نہیں ہوتی، ہفتے کی رات کو کام زیادہ ہوتا ہے اتوار کو چھٹی کے باعث شہری کی بڑی تعداد مالش اور مساج کراتی ہے، بس اسٹاپوں، رکشا، ٹیکسی اور ٹرک اسٹینڈوں پر ڈرائیور اور کلینر مساج کراتے ہیں کیونکہ سفر کی وجہ سے ان کو جسمانی تھکاوٹ زیادہ ہوتی ہے، روزانہ مالشیا 500 روپے اور ہفتے کی رات کو 1000 روپے کما لیتا ہے۔


رمضان کے ابتدائی 15 دن تراویح کے باعث ہمارا کام کم و بیش بند ہوجاتا ہے لیکن 16 ویں روزے سے 26 رمضان تک سحری کے وقت ہماری آمدن اچھی ہوجاتی ہے اکثر مالشی عید منانے اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں، گرمیوں میں رات کے وقت بجلی کے طویل تعطل اور لوڈشیڈنگ سے شہریوں کی بڑی تعداد گھروں سے نکل کر سڑکوں پر ہوا کھانے آتی ہے، گلی محلوں میں شہری وقت گزارنے کے لیے ڈبو، کیرم بورڈ ، لوڈو اور تاش کھیلتے ہیں، گلی محلوں میں شہری تھڑوں ، فٹ پاتھوں ،دکانوں کے باہر، گرین بیلٹس اور پارکوں میں بیٹھتے ہیں یہی عوامی مقامات اور رش مالشیوں کی روزی روٹی کا سبب بن جاتے ہیں اکثر شہری بجلی کے انتظار کے موقع کو غنیمت جان مالش اور مساج کراکر جسمانی تھکاوٹ دور کرتے ہیں۔

مالشی جسم کے مساج کے لیے مختلف اقسام کا تیل رکھتے ہیں،تیل کی بوتلوں کو لوہے کے خصوصی رنگ میں رکھا جاتا ہے، یہ رنگ گھنٹر کہلاتا ہے،مالشی گلیوں میں گھومتے ہوئے گھنٹر کو خاص طریقے سے بجاتے ہیں جس سے آواز پیدا ہوتی ہے یہی مالشی کی آمد کی پہچان ہوتی ہے،مالشیوں کے مستقل گاہک انھیں فون کرکے بلواتے ہیں،مکمل جسم کی مالش کے لیے سرسوں کا خالص تیل استعمال ہوتا ہے جو80 روپے پائو ملتا ہے۔

ایک بوتل سے50 افراد کی مالش ہوجاتی ہے بعض افراد کھوپرے کے تیل جبکہ بعض افراد دھنیے کے تیل کی خصوصی مالش کراتے ہیں یہ تیل 300روپے تک ملتا ہے دھنیے کا خصوصی تیل مالشی ملتان سے منگواتے ہیں بادام اور زیتون کے تیل سے بھی مالش کی جاتی ہے، مالشی کے روپ میں جرائم پیشہ افراد کئی شہریوں کو لوٹ چکے ہیں لہٰذا گاہک اب جان پہچان والے مالشی سے ہی مالش کراتے ہیں، خواتین مالش کا کام خواتین سے کراتی ہیں تاہم مالشی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔

یہ مالشی خواتین مالش کرنے والی برادری سے تعلق رکھتی ہیں، زیادہ تر مالشی خواتین مضافاتی علاقوں میں رہتی ہیں اور ان کے خاوند بھی مالش کا کام کرتے ہیں یہ خواتین مخصوص گھروں میں جاکر جوڑوں کے درد میں مبتلا اور حاملہ خواتین کی مالش کرتی ہیں، بہاولپور سے تعلق رکھنے والے پکے مالشی کمر اور مہروں کے درد کے علاوہ فالج کے مریضوں کی خصوصی مالش کرتے ہیں، مالشی زیادہ تر اکھٹے مشترکہ رہائش اختیار کرتے ہیں، ہر مالشی کا علاقہ الگ ہوتا ہے۔

لیاری میں بدامنی کے باعث مالشیوں نے علاقہ کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے،کئی برس قبل لیاری مالشیوں کا مرکز تھا، لیاری میں بڑی تعداد میں فٹبالر، سائیکلسٹ، باڈی بلڈر اور دیگر کھیلوں سے وابستہ افراد اپنا جسم توانا رکھنے اور تھکاوٹ دور کرنے کے لیے جسمانی مالش اور مساج کراتے تھے تاہم اب حالات کی خرابی کے باعث مالشیوں نے لیاری جانا چھوڑ دیا ہے جس سے کھلاڑی پریشان ہیں اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت مساج کرتے ہیں۔
Load Next Story