بھیڑوں کا عالمی احتجاج

بھیڑیوں کے ترجمان نے وضاحت کی کہ لکھاری اور صحافی لکھتے وقت بھیڑ اور بھیڑیا کے فرق کو ضرور ملحوظِ خاطر رکھیں

Warza10@hotmail.com

بھیڑوں کے عالمی کنونشن کے اختتامی اجلاس میں ایک تفصیلی قرارداد کے ذریعے بھیڑوں سے دنیا اور بطور خاص پاک و ہند میں روا انسانی سلوک اور ان کے برتاؤ پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ابتدائیے میں کہا گیا ہے کہ''بات کا بتنگڑ بنانا''اور للچائی ہوئی نظروں سے کسی کی شہرت، دولت اور جاہ و حشم پر نظر رکھنے اور بغیر محنت ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے'' کا انتظار کرنا گویا آج کے انسان نے اپنی سرشت بنا ڈالا ہے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جانوروں کی تشبیہات دے دے کر اپنے سارے سیاہ کرتوت کبھی لومڑ، کبھی بارہ سنگھے، کبھی شیر کبھی بکری، کبھی کتے، کبھی بھیڑیا، کبھی باگڑ بلے اور کبھی بلی پر تھوپ کر،جب کچھ نہیں بن پڑتا تو عالم ارواح میں مردوں کی جاسوسی کرنے پر لگ جاتے ہیں،پھر جب اپنی مطلبی چاپلوسی کے فوائد حاصل کرنے کا وقت آتا ہے تو اس میں بھی خوف زدگی کا عنصر ڈال کر اپنی کھال بچاتے ہوئے ہم جانوروں کی آڑ میں جرات اور حوصلے کا گلا گھونٹ رہے ہوتے ہیں،حالانکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہم جانورکبھی اپنی خصلت انسان کی طرح بدلتے نہیں اور نہ ہی ''سانپ مانند اپنی قینچلی'' تبدیل کرتے ہیں۔

''بھیڑوں کے کنونشن'' کے شرکا نے اپنے ترجمان کے ذریعے ادیب شاعر،لکھاری اور بطور خاص صحافیوں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے تاریخی تناظر میں بھیڑ یا کسی بھی جانور کی خصلت تبدیل کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ''یاد رکھا جائے کہ ہم جانور اپنی خصلتوں کی تبدیلی کو انتہائی مکروہ عمل سمجھتے ہیں کیونکہ ہم خصلتوں اور عادتوں کی تبدیلی کو نسل کی خرابی سے تعبیر کرتے ہیں،لہٰذا ہم اہل دانش اور بطور خاص ان صحافیوں سے مخاطب ہیں جو اپنی انسان کو دی گئی ودیعت جرات،حوصلے اور بلا خوف و خطر سچ کو بھول بیٹھے ہیں اور نئی نسل کو درست سمت ڈالنے کے بجائے،جھوٹ فریب اور چاپلوسی کے ''ڈھرے'' پہ ڈالنے پر تلے بیٹھے ہیں۔

بھیڑیوں کے ترجمان نے وضاحت کی کہ لکھاری اور صحافی لکھتے وقت بھیڑ اور بھیڑیا کے فرق کو ضرور ملحوظِ خاطر رکھیں، کیونکہ اکثر بھیڑ ہی کو بھیڑیا سمجھنے کی غلطی بھیڑ کی خوش فہمی میں انہیں بھیڑیا کا لقمہ اجل بھی بنا سکتی ہے،کیونکہ جانوروں کی نسل میں واحد بھیڑیا نسل ہے جو نڈر،بہادر اور والدین کو آخری سانس تک ان کی تابعدار رہتی ہے اور بیمار والدین کے کھاٹ کو اس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک ''بھیڑ''اپنے والدین کو صحت یاب نہ کرلے،اسی کے ساتھ بھیڑ نسل وہ واحد نسل ہے جو اپنی نسل میں کسی بھی نسل کی آمیزش کو انتہائی گھناونا عمل سمجھتی ہے۔

بھیڑ کو اپنی بیٹی،ماں،بہن،بیٹا اور بھائی کی خوب پہچان ہوتی ہے اور بھیڑحسب مراتب سب کی عزتوں کا پالنہار ہوتا ہے،چونکہ بھیڑ انسان کی طرح طوطا چشم نہیں ہوتا ،لہٰذا خیال رہے کہ کہیں نادان انسان بھیڑ اور بھیڑیا کے فرق کو جانے بنا بھیڑ سے سینگ نہ اڑا لے اور اپنا نقصان کر بیٹھے۔سو ہر خاص و عام کو آگاہ کیا جاتا ہے وہ معصوم بھیڑوں کے دھوکے میں کہیں خونخوار بھیڑیئے کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔


بھیڑوں کے ترجمان نے کہا کہ ہم آگاہ کرتے جائیں کہ ہم دنیا کے صاحب علم،انسانی وقار کے پرتو اور مخلوق کے ساتھ جانوروں سے پیار کرنے والے لکھاری اور صحافیوں سے بھی واقف ہیں،جو کبھی ہمارا حوالہ دے کر انسانی سماج میں انسان کی غلطیوں کو ہمارے کسی عمل کے ذریعے درست کر رہے ہوتے ہیں اور ایک بہتر عمل کی جانب لے جانے کی کوشش کرتے ہیں،وہ سب لکھاری اور صحافی ہمارے لیے قابل قدر ہیں۔

اب آپ برصغیر کے مہان ہدایت کار ست جیت رے کی فلم''پار'' ہی دیکھ لیجیے کہ جس میں نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی نے ہمیں سدھانے کی کوشش کی اور ہماری مثبت جانوری نفسیات کو سمجھا اور فلم کے پیغام سے پار نامی فلم کو 14 ایورڈ دلوائے،اب یہی دیکھ لیں کہ کتنی ذہانت سے ست جیت رے نے فلم کا نام پار رکھا وگرنہ اگر وہ احساس سے عاری ہوتے تو اس فلم کا نام بھیڑ چال بھی رکھ دیتے تو بھلا ہم ان کا کیا کرلیتے،کنونشن کے نزدیک ایسے مثبت سوچ کے ہدایت کار،لکھاری اور صحافی تمام بھیڑوں کے لیے لائق احترام ہیں۔

بھیڑوں کے عالمی کنونشن میں سب سے زیادہ تشویش پاکستان کے بھیڑوں کے ساتھ روا سلوک پر کی گئی،کنونشن میں پاکستان میں بسنے والے بھیڑوں نے نا انصافی کی دہائی دیتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان میں عام آدمی کو انصاف فر اہم نہیں کیا جاتا تو ہماری ایسے نا انصافی والے معاشرے میں گزر بسر ناممکن ہوتا جا رہا ہے ،لہٰذا ہم پاکستانی بھیڑوں کی نقل مکانی کی کوئی ایسی راہ نکالی جائے کہ ہم پاکستان ایسے بے توقیر اور طبقاتی انصاف فراہم کرنے والے منصفوں سے چھٹکارا پائیں اور سکون کی زندگی گزاریں۔

پاکستان کے بھیڑوں کا شکوہ تھا کہ پاکستانی سماج میں منافقت اور جھوٹ کا کاروبار جا بجا ہے،ایسے میں کسی بھی نقصان دینے والے کہ ہماری معصومیت کو داؤ پر لگا کر بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ''ہماری صفوں میں کالی بھیڑیں ہیں''اس موقع پر پاکستانی بھیڑوں نے نوٹ کروایا کہ ہم اپنے اصول اور نسل کی بہتری کے لیے ایک سردار بھیڑ کے پیچھے چلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور سب کو یکجہتی اور اتحاد کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی سماج اپنی فتنہ گری اور بے ڈھنگی چال چلنے میں بھی آئے دن یہ کہہ کر کہ بھیڑ چال ہے ہماری تذلیل کرتے ہیں،بلکہ ہماری نسل قربانی کا جذبہ رکھتے ہوئے سماجی انسان کی تندرستی اور ضرورت پر قربان ہونے کو بھی تیار رہتی ہے مگر مجال کہ پاکستان کا موجودہ ''فتنہ گر'' اور جھوٹ و فریب پر قائم سماج ہماری قربانی کو سمجھے۔

لہٰذا پاکستانی بھیڑوں کا عالمی کنونشن کے شرکا سے مطالبہ ہے کہ وہ پاکستانی ایسے الزام تراش،غیر شعوری،غیر سیاسی اور غیر تہذیبی سماج سے ہماری نجات کا کوئی بندوبست کریں تاکہ بھیڑوں کی نسل سکھ کا سانس لے،ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں سیاسی استحکام نہ ہو،جہاں معاشی ابتری ہو تو بھیڑوں کی نسل کے پروان کی غذا کا کیسے اور کیونکر مناسب انتظام ہو پائے گا، لہٰذا پاکستانی بھیڑوں کے وفد کی درخواست ہے کہ ہمیں پاکستانی فتنہ گری کی سیاست اور بدحال معیشت پر نہ چھوڑیں اور ہمیں کسی مستحکم جگہ کی فراہمی کا بندوبست کریں اور ان انسان نما لومڑ سے ہماری جاں بخشی کروائیں۔
Load Next Story