سیکولر ہندوستان

مجموعی طور پر دنیا میں دائیں بازو کی پاپولر ازم کو شکست کا سامنا ہے

Jvqazi@gmail.com

ایک بیانیہ گاندھی نے بنایا تھا۔ گاندھی صاحب سیکیولر تو تھے مگر مبہم سے، انھوں نے اہنساء (عدم تشدد) کی معرفت مذاہب کے درمیان امن اور بھائی چارہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

سیکیولر ازم کے معنی اور مفہوم جناح صاحب کے پاس بھی وہ ہی تھے، جو ترکی کے بانی کمال اتا ترک کے پاس تھے۔ جناح صاحب جب تک کانگریس کے ممبر رہے، وہ گاندھی کو سمجھاتے رہے کہ سیکیولر ازم کے مبہم تصور سے نکل آئیں۔

ہندوستان کی خوش نصیبی تھی کہ نہرو ان کو تین مرتبہ اپنے ملک کے وزیرِ اعظم کی صورت میں نصیب ہوا اور پاکستان کی یہ بد نصیبی تھی کہ قائد کی زندگی نے ان کو مہلت نہ دی وہ بھی آئین کے اندر سیکیولر ازم نہ لا سکے۔

ہندوستان کے سیکیولرازم کو بی جے پی نے ضرب لگائی لیکن اس کی گنجائش گاندھی اور ولب بھائی پٹیل نے پیدا کی تھی۔ ولب بھائی پٹیل کو مودی صاحب اپنا رہبر مانتے تھے۔ اپنی پہلی پانچ سالہ حکومت میں مودی نے گجرات میں ولب بھائی پٹیل کا قد آور مجسمہ تعمیر کرایا۔

ایڈوانی نے گجرات سے ایودھیا تک کی یاترا کی، بابری مسجد کو مسمارکیا، یوں 1990 کی دہائی میں ہندوستانی سیکیولر ازم کے تصورکی تباہی کا سفر شروع ہوا اور آج جون2024 اس سفر کی رفتار سست ہوتی نظر آرہی ہے جب ہندوستان میں 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مودی صاحب کو اگلی مرتبہ بھاری شکست نصیب ہوگی، جس کی بنیاد اب پڑ چکی ہے۔

کرامت علی ( پائلر) مانی شنکر سے لے کر بہت سے ہندوستانی مہمانوں کو کراچی مدعو کرچکے ہیں، آٹھ سال پہلے ہندوستان کے ایک رکن ِ پارلیمنٹ سے ایک دعوت میں ملاقات ہوئی تھی۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے یہ بتایا کہ ''جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہندوستان میں انتہا پسندی نے تیزی اختیارکی۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا، مذہب کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا۔ بی جے پی کو یہ حربے جنرل ضیاء الحق نے سکھائے۔''

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ انتہا پرست چاہے نظریاتی طور پر الگ الگ ہوں لیکن ان کے مفادات مشترکہ ہوتے ہیں، وہ ایک دوسرے کی انتہا پرستی سے مستفیض ہوتے ہیں۔ ہمارے انتہا پرستی کے بیانیے نے ہندوستان میں انتہا پرست سوچ کو تقویت دی اور ان کی انتہا پرست سوچ نے ہمارے انتہا پرستی کے تصور میں آکسیجن بھری اور دونوں ممالک میں رہ گئی تنازعہ کی ہڈی '' مسئلہ کشمیر '' جو انگریز بہادر ادھورا چھوڑگیا کہ اس خطے میں کبھی امن نہ ہو سکے۔

پچھلے دو انتخابات میں مودی نے کشمیر تنازع پر پاکستان کا راگ الاپا۔ ان زمانوں میں کشمیر میں کشیدگی شدید ہو جاتی تھی اور مودی صاحب ان حالات کوکیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بیانیہ بناتے اور انتہا پرستی کی چنگاری کو ہوا دے کر اپنی جیت کو الیکشن میں یقینی بناتے تھے۔ 2019 کے انتخابات مودی صاحب نے دو تہائی اکثریت سے جیتے۔ دوتہائی اکثریت کی بناء پرآئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 370 کو ہندوستانی آئین سے تحلیل کردیا اور مقبوضہ کشمیرکو ہندوستان کا حصہ بنا دیا۔


آرٹیکل 370 میں جو طریقہ کار اس آرٹیکل کو تحلیل کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے کہ اس آرٹیکل کو آئین سے ختم کرنے کے لیے،کشمیر اسمبلی کی بھی دو تہائی اکثریت سے پاس کردہ قرارداد کا ہونا لازمی ہے۔

کانگریس پارٹی نے اس بات پر اعتراض اٹھایا اور 11 دسمبر 2023 کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ میرے حساب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے طریقہ کارکو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ مودی ہندوستان سے اب بھی کہیں نہیں گئے وہ اب بھی وزیر اعظم بنیں گے لیکن وہ اتحادیوں کی مدد سے اپنی حکومت تشکیل دیں گے۔ سادہ اکثریت نہ حاصل کرنے کی وجہ سے ان کی دہشت مسمار ہوئی ہے، ان کا خوف ختم ہوا ہے اور میڈیا اب کھل کر بول رہا ہے۔

ادھر راہول گاندھی کی شخصیت تیزی سے ابھر رہی ہے۔ اروندھتی رائے کا ہندوستان، ایک سیکیولر ہندوستان بڑی تیزی سے انتہا پرست سوچ پر حاوی ہو رہا ہے۔ ان کاوشوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی عظیم قربانیاں شامل ہیں جن کو مودی سرکار نے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس وقت ہندوستان لوک سبھا میں چھبیس مسلم نشستیں ہیں۔

ہندوستان میں ہندوستانی مسلمانوں کو دوبارہ عزت کا مقام ملا ہے۔ ان مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے سیکیولر ہندو جنھوں نے سیکیولر ہندوستان کے لیے جدوجہد کی۔ مودی نے ایودھیا کو اپنے دھرم کا گڑھ قرار دے کے سیکیولر ہندوستان کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی تھی اور وہیں سے مودی کو شکست نصیب ہوئی۔ مودی صاحب ہندوستان کہ دو بڑی ریاستیں اتر پردیش اور مہاراشٹرا سے ہار چکے ہیں۔

مودی صاحب نے وراناسی شہر سے انتخابات میں حصہ لیا، پچھلے انتخابات میں یہاں سے مودی صاحب پانچ لاکھ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے لیکن اب وہ صرف ڈیڑھ لاکھ ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جن دو نشستوں پر راہول گاندھی کھڑے ہوئے ان دونوں نشستوں پر وہ چار چار لاکھ ووٹ لے کر جیتے ہیں۔ ہندوستانی اسٹاک ایکسچینج کے لیے یہ خبر اچھی نہیں تھی۔ ہندوستانی اسٹاک ایکسچینج مودی کی شکست پر چھ ہزار پوائنٹ گرا ہے، لیکن جو ں ہی یہ خبر پھیلی کہ مودی صاحب ہندوستان کے وزیرِ اعظم اب بھی بن سکتے ہیں تو اسٹاک ایکسچینج میں ایک فیصد کا اضافہ ہوا۔

ہندوستان کے الیکشن کمیشن کی کار کردگی کمال تھی۔ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ان انتخابات کے اخراجات 125ارب ڈالر تھے جو امریکا کے انتخابی اخراجات سے زیادہ تھے۔ نوے کروڑ سے زیادہ کل ووٹر کی تعداد تھی، ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی تقریباً پچھلی الیکشن جیسا تھا یعنی 65% مگر کسی پارٹی نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ سب نے کمیشن پر اعتماد ظاہر کیا۔

پاپولر ازم کی معجون بیچنے والے برازیل کے بولسنارو کو بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا، ترکی کے طیب اردگان کو لوکل باڈی الیکشن میں شکست کا سامنا ہوا ، ترکی میں سیکیولرز کی جیت ہوئی، لیکن یورپ میں رائٹ ونگ پاپولرزم تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکا میں اسی سوچ کے حامی ڈونالڈ ٹرمپ مختلف عدالتی مقدموں کو بھگت رہے ہیں اور سزا یافتہ بھی ہیں بہرحال ان کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔

مجموعی طور پر دنیا میں دائیں بازو کی پاپولر ازم کو شکست کا سامنا ہے۔ خان صاحب کے ٹرمپ سے لے کر مودی تک بڑے اچھے تعلقات تھے۔ جب مودی صاحب کشمیر میں پر انتہا پرستی کے کھیل، کھیل رہے تھے تو عمران خان ان کے لیے دعا گو تھے۔ انھوں نے ٹرمپ کے پاس کشمیر کا سودا کردیا تھا۔ امریکا میں اب ہندو ووٹ ٹرمپ کے حصے میں نہیں ڈالا جائے گا۔

ٹرمپ کو جتوانے کے لیے پچھلی مرتبہ مودی صاحب خود امریکا پہنچے ہوئے تھے۔ اس بار اگر امریکا کے عوام ، ٹرمپ کو شکست دیتے ہیں تو پھر دنیا میں جمہوریت کا ایک نیا سورج طلوع ہوگا اور تین دہائیوں سے دنیا پر حاوی دائیں بازوکی سوچ کو جمہوریت شکست دے گی۔ سیکیولر ازم، بھائی چارے اور دنیا میں امن واپس اپنی جگہ پائے گا۔
Load Next Story