سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم معطل کردیا
کیا ضمانت ہے کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانےدیا گیا تو واپس آکرعدالتوں میں پیش ہوں گے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس
سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لئے سندھ ہائی کورٹ کا حکم معطل کردیا۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے کے خلاف وفاق کی درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈالا گیا ہے، عدالت عظمیٰ نے 3 جولائی 2013 کو جب معاملہ نمٹایا تو عدالت نے 8 اپریل کے فیصلے کو تبدیل نہیں کیااس لئے سپریم کورٹ کا حکم اب بھی برقرار ہے۔
سابق صدر کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عبوری تھا، بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کی والدہ ضعیف العمر ہیں وہ ان کی والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے لئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں، جس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ وہ اپنے موکل کے لئے کیا ریلیف چاہتے ہیں جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ان کے موکل کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ اس موقع پر جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اگر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو پھر یہ حتمی ریلیف کے مترادف ہی ہوگا۔
سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں اور ان میں ضمانت پر ہیں لیکن عدالت عظمیٰ یہ نہیں جانتی کہ انہوں نے عدالتوں کو کیا یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے دیا گیا تو واپس آکر عدالتوں میں پیش ہوں گے۔ جس کے بعد جسٹس ناصر الملک نے اپنے مختصر عبوری فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کے ملتوی کردی۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے کے خلاف وفاق کی درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈالا گیا ہے، عدالت عظمیٰ نے 3 جولائی 2013 کو جب معاملہ نمٹایا تو عدالت نے 8 اپریل کے فیصلے کو تبدیل نہیں کیااس لئے سپریم کورٹ کا حکم اب بھی برقرار ہے۔
سابق صدر کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عبوری تھا، بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کی والدہ ضعیف العمر ہیں وہ ان کی والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے لئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں، جس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ وہ اپنے موکل کے لئے کیا ریلیف چاہتے ہیں جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ان کے موکل کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ اس موقع پر جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اگر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو پھر یہ حتمی ریلیف کے مترادف ہی ہوگا۔
سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں اور ان میں ضمانت پر ہیں لیکن عدالت عظمیٰ یہ نہیں جانتی کہ انہوں نے عدالتوں کو کیا یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے دیا گیا تو واپس آکر عدالتوں میں پیش ہوں گے۔ جس کے بعد جسٹس ناصر الملک نے اپنے مختصر عبوری فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کے ملتوی کردی۔