زحل کے چاند پر ’’پراسرار طلسمی جزیرے‘‘ نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا

سائنس دان اس چاند میں اس لیے بھی دلچسپی لے رہے ہیں کہ زحل کے اس بڑے چاند کی زمین سے بہت مشابہت ہے

زحل کے چاند پرزمین کی طرح بارش ہوتی ہے اور ندی اور نالے وجود میں آتے ہیں۔

کائنات کی کھوج میں لگے سائنس دانوں نے کائنات کے ایک اور راز کو افشاں کردیا اور نظام شمسی کے سیارے زحل کے چاند ٹائٹن پر نظر آنے والے پراسرار 'طلسمی جزیرے' نے سائنس دانوں کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا ہے جب وہ غائب ہونے کے بعد دوبار منظر عام پر آگیا۔

کچھ عرصہ قبل کیسینی نامی خلائی جہاز نے زحل کے اس چاند کے گرد اپنی ایک گردش کے دوران اس جزیرے کی تصویر لی تھی تاہم دوسری گردش میں وہ جزیرہ وہاں سے غائب تھا۔ سائنس دانوں نے کہا ہے کہ یہ برف کا تودہ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے دوسری بار نظر نہ آنے کی وجہ سمندر سے اٹھنے والی لہریں اور گیس کے بلبلے بھی ہو سکتے ہیں۔

سائنس دان اس چاند میں اس لیے بھی زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ زحل کے اس بڑے چاند کی زمین سے بہت مشابہت ہے۔ ٹائٹن کے پہاڑ اور میدان مٹی کے بجائے برف سے بنے ہوئے ہیں جس میں موجود میتھین اور ایتھین ہو بہو وہی کردار ادا کرتے ہیں جو زمین پر، جس طرح زمین پر بارش ہوتی ہے اور پانی میدانی علاقوں میں نالوں کی شکل میں بہتا ہے اسی طرح نو دریافت جزیرے پر بھی موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، بارش ہوتی ہے اور پانی نالوں کی طرح بہتا ہے۔


تحقیق کرنے والے جیسن ہوف گارٹنر کا نو دریافت سیارے کے حوالے سے کہنا ہے کہ اگرچہ اسے طلسمی جزیرہ کہا جاتا ہے لیکن ہمارے خیال سے یہ کوئی جزیرہ نہیں۔ یہ اس قدر جلدی جلدی ابھرتا اور غائب ہوتا ہے کہ یہ آتش فشاں بھی نہیں ہو سکتا۔

درحقیقت ٹائٹین پر جزیرے کا دریارفت ہونا سائنسدانوں کے لیے ایک بہت اہم دریافت ہے، ٹائیٹن زحل کا سب سے بڑا اور نظام شمسی کا دوسرا بڑاچاند ہے اور واحد چاند ہے جس پر زمین کی طرح موسمیاتی سائیکل وجود میں آتی ہے جو دوبارہ بننے میں 30 سال لگاتی ہے۔

واضح رہے کہ ٹائٹن کے قریب سے گزرتے ہوئے کیسینی نے 10 جولائی 2013 میں جس جزیرے کو دیکھا تھا وہ اس کے بعد لی جانے والی تصویروں میں نہیں تھا۔ جب 26 جولائی کو سٹیلائٹ کیسینی ادھر سے گزرا تو وہ پھر وہاں نہیں تھا اور وہ اس کے بعد دو چکروں کے دوران بھی نظر نہیں آیا۔
Load Next Story