بلدیاتی حکومت نے کراچی کے شہریوں پر مزید دو ٹیکس نافذ کردیے
تفصیلا ت کے مطابق سٹی کونسل میں آج دو قراردایں منظور کی گئیں جن میں سے ایک قرارداد ٹول ٹیکس کے نفاذ سے متعلق تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد کراچی ملک پہلا شہر بن گیا جہاں شہری سڑکوں، فلائی اوورز ، انڈرپاسز پر اپنی گاڑیاں چلائیں گے تو ان کو ٹیکس دینا ہو گا۔
سٹی کونسل میں اچانک یہ قرار داد آئی جس پر پورا ایوان حیران ہوگیا ، اس پر شور شرابہ بھی ہوا لیکن قرارداد کو منظور کرا لیا گیا۔ ٹول ٹیکس کا طریقہ اس طرح ہو گا کہ شہری جب اپنی گاڑی رجسٹریشن کرائیں گے تو اس میں کے ایم سی اپنا ٹول ٹیکس وصول کرلے گا جبکہ سالانہ موٹروہیکل ٹیکس ادا کریں گے تواس میں کے ایم سی کا بھی ٹول ٹیکس ہوگا، پورے پاکستان کے کسی شہرمیں یہ ٹیکس نہیں ہے۔
اس ٹیکس پرجماعت اسلامی تحریک انصاف کے اراکین نے شدید احتجاج کیا لیکن اسے منظور کرلیا گیا، مئیرکراچی مرتضی وہاب نے اس کی وضاحت دیتے ہو ئے کہا کہ اس ٹول ٹیکس سے بلد یہ عظمی کراچی کو 70کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی ہو گی۔
اسی طرح متنازعہ میونسپل ٹیکس کو بھی سٹی کونسل سے منظور کرالیا گیا جس کے تحت کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے شہریوں سے میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز وصول کیے جائیں گے۔
اپوزیشن کی جانب سےاس پر بھی شدید احتجاج کرتے ہو ئے کہا گیا کہ کے الیکٹرک ایک چور ادارہ ہے اس کے ذریعے میونسپل ٹیکس وصول نا کیا جا ئے اس کے لیے کوئی اور طریقہ کار اختیار کرے یا ٹاون اور یوسی کی سطح پر اس کو جمع کیا جائے لیکن مئیرکراچی نے دونوں قراردادوں کو فوری طور پر منظور کر لیا جس سے کراچی کے شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کراچی الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے ایم یو سی ٹی جمع کرنے سے کے ایم سی کو 4 ارب روپے کی آمدنی ہوگی جس سے تمام یوسیز میں ترقیاتی کام کرائے جاسکیں گے، یہ نیا ٹیکس نہیں ہے بلکہ 2 جون 2008 سے نافذ ہے، عدالت کے حکم پر ہم نے سٹی کونسل سے قرارداد کو پاس کرایا ہے اور 195 افراد نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم کراچی کے تمام علاقوں میں یکساں طور پر کام کرانا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ آج اس قرارداد کی منظوری سے بہت بڑی کامیابی ملی ہے اور 2024 کی اس کونسل کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ٹیکس لگانا کونسل کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت میں سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل نے ایم یو سی ٹی کے حوالے سے بلاوجہ تنقید نہیں کی تھی اس کے لیے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
مرتضی وہاب نے کہا کہ جن سیاسی جماعتوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے ان کے پارلیمانی لیڈرز کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس اہم قرارداد کو منظور کرایا، انہوں نے کہا کہ ماضی میں اختیارات کا رونا رویا جاتا تھا فائلیں پھینکیں جاتی تھیں اور فنڈز نہ ہونے کا شکوہ کیا جاتا تھا لیکن اب انہی اختیارات میں ہم یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
میئر کراچی نے کہا کہ کئی ادارے جس میں نیشنل ہائی وے بھی شامل ہے ٹول ٹیکس وصول کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ٹیکس نہیں دے سکتا تو وہ صرف کراچی ہے، مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کے ایم سی کی کوئی زمین، کوئی جائیداد کسی کو نہیں دی جا رہی، تمام زمینیں کے ایم سی کی ملکیت رہیں گی لیکن شہر کی بہتری اور ترقی کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کام جاری رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ باغ ابن قاسم کی 10 ایکڑ زمین جو میوزیم آف آرٹ کے لیے فراہم کی جا رہی ہے اس کی ملکیت بھی کے ایم سی ہی کے پاس رہے گی، انہوں نے کہا کہ کراچی کی تاریخ سے آنے والی نسل واقف نہیں ہے اس میوزیم کے ذریعے کراچی کی تاریخ سے واقف کرایا جائے گا۔ دبئی میں ایکسپو میں واضح ہوا کہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اس لئے ہم پاکستان کے ثقافتی ورثے کو اجاگر کریں گے۔
میئر کراچی نے کہا کہ ہم نے ایم یو سی ٹی ٹیکس کو کم سے کم کیا ہے اور 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا، 101 سے 200 یونٹ تک صرف 20 روپے اور 201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں سے 40 روپے وصول کئے جائیں گے اور اسی طرح سے یہ شرح رکھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک ساڑھے سات فیصد جمع ہونے والی رقم سے وصول کرے گا اور باقی تمام رقم کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ تمام رقم جو موصول ہوگی اسے شفافیت کے ساتھ خرچ کریں گے اور ایک ایک روپے کا حساب دیں گے۔
قبل ازیں میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کونسل کے اجلاس کی صدارت کی اور اجلاس میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے اشتراک سے کراچی کی سڑکوں اور پلوں کو استعمال کرنے والی گاڑیوں سے ٹول ٹیکس وصول کرنے کی منظوری، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ادارہ برائے ثقافتی ورثہ میوزیم آف آرٹ کا قیام اور اس مقصد کے لیے باغ ابن قاسم کراچی میں 10 ایکڑ اراضی فراہم کرنے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے منتخب ایوان میں سیکشن 21 کے مطابق کونسل میں اپوزیشن کے لیڈر کے انتخاب سے متعلق قرارداد، بلدیہ عظمیٰ کراچی میں پیش امام کی بھرتی سے متعلق ترمیم کی منظوری اور دیگر قراردادیں منظور کی گئیں۔
کونسل کے اجلاس سے نجمی عالم، قاضی صدر الدین، سیف الدین ایڈوکیٹ، اسد امان، مبشر الحق اور دیگر نے خطاب کیا، قاضی صدر الدین اور مبشر الحق کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے ذریعے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سیف الدین ایڈوکیٹ کا نام لیڈر آف دی اپوزیشن کی حیثیت سے پیش کیا گیا جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
میئر کراچی نے سیف الدین ایڈوکیٹ کو لیڈر آف دی اپوزیشن منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور کہا کہ وہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ایوان کو بہتر طور پر چلانے میں مدد کریں گے، ارشاد علی ایڈوکیٹ اور دل محمد کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد کے ذریعے کے ایم سی اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ گورنمنٹ آف سندھ کے اشتراک سے سڑکوں اور پلوں کو استعمال کرنے والی گاڑیوں سے ٹول ٹیکس وصول کرنے کی منظوری دی گئی۔
جمن دروان اور دل محمد کی ایک قرارداد کے ذریعے بلدیہ عظمیٰ کراچی میں پیش امام کی اسامی کے میں ترمیم سے متعلق قرارداد کو بھی کثرت رائے سے منظور کیا گیا، بعدازاں اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔