منفرد سرجن جو سیکڑوں میل دور بیٹھ کر آپریشن کرتا ہے
ڈاکٹر مہران انواری کینیڈا سے روبوٹ کے ذریعے سیکڑوں میل دور واقع مریض کا آپریشن کر تے ہیں۔
ڈاکٹر مہران انواری عالمی شہرت یافتہ سرجن ہے۔ اس کی شہرت کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے اسپتال میں بیٹھ کر آپریشن سیکڑوں میل دور واقع کسی اور اسپتال میں کرتا ہے۔
جی نہیں! وہ کوئی جادوگر نہیں ہے بلکہ ایک ماہر سرجن ہے جسے جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی گہرا شغف ہے۔ کینیڈا کے شہر ہملٹن میں واقع سینٹ جوزف اسپتال کے ایک خصوصی کمرے میں بیٹھ کر وہ روبوٹ کی مدد سے سیکڑوں میل دور واقع کسی اور اسپتال میں مریض کا آپریشن کررہا ہوتا ہے۔ وہ ایک گیمنگ کنسول جیسی ڈیوائس کی مدد سے دوسرے اسپتال کے آپریشن تھیئٹر میں موجود' روبوٹ سرجن ' کو کنٹرول کرتے ہوئے سرجری انجام دیتاہے۔اب تک وہ اس طریقے سے بیس آپریشن کرچکا ہے جن میں بڑی آنت اور ہرنیے کے آپریشن بھی شامل تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیلی سرجری (طویل فاصلے سے کی جانے والی سرجری) کی تیکنیک اتنی بہتر ہوچکی ہے کہ اسے اب زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مریض اپنے ہی شہر میں رہتے ہوئے دنیا کے بہترین سرجنوں سے آپریشن کرواسکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تیکنیک عام ہوسکتی ہے؟
ٹیلی سرجری کی تیکنیک کو اہمیت اس وقت حاصل ہوئی تھی جب یہ مسئلہ سامنے آیا تھا کہ خلا میں انسانوں کی آمدورفت عام ہوجانے کے بعد بوقت ضرورت ان کو علاج معالجے اور آپریشن کی سہولیات کیسے دست یاب ہوں گی۔ 1970ء کی دہائی میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے تحقیق کاروں کو ' روبوٹ سرجن ' کی تیاری پرکام شروع کرنے کی ہدایت کی تھی جو ہنگامی صورت حال میں خلا میں خلابازوں کا آپریشن کرسکیں۔ اس کے بعد سے ناسا اور امریکی فوج ' روبوٹ سرجنوں' کی تیاری پر کام کرتی رہی ہے جو ٹیلی سرجری میں معاون ثابت ہوسکیں۔
2006ء میں انواری نے پہلی بار ایک روبوٹ کی مدد سے طویل فاصلے پر موجود مریض کے زخموں پرٹانکے لگائے تھے، اور پھر ٹیلی سرجری کی ٹیکنالوجی میں بہتری کے ساتھ ساتھ وہ ٹانکوں سے بہ تدریج مکمل آپریشن تک آگیا۔
انواری کے ' سرجن روبوٹ'کا نام زیوس ہے۔ سیکڑوں میل دوربیٹھ کر روبوٹ کے ذریعے آپریشن کرنے کے بارے میں ڈاکٹر انواری کہتا ہے،'' یہ ایسے ہی ہے جیسے میں خود آپریشن تھیئٹر میںموجود ہوں۔ میرے دونوں ہاتھ اسی انداز سے روبوٹ کوکنٹرول کرنے والے کنسول پر ہوتے ہیں جیسے کہ آپریشن تھیئٹر میں، میں نے آلات جراحی پکڑے ہوئے ہوں۔'' وہ روبوٹ میں نصب کیمرے کے ذریعے اپنے سامنے رکھے ہوئے مانیٹر پر مریض کو دیکھتے ہوئے آپریشن شروع کردیتا ہے۔ بوقت ضرورت آپریشن تھیئٹر میں موجود نرسوں اور جونیئر ڈاکٹر کو ہدایات بھی دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ روبوٹ کے ذریعے سرجری اور خود اپنے ہاتھوں سے اس کے سرجری کرنے میںکوئی فرق نہیں ہے۔ لینڈلائن کے بہتر نیٹ ورک اور طاقت ور انٹرنیٹ کی وجہ سے آج تک دوران آپریشن کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ تاہم اس کا خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے۔ دوران آپریشن رابطے میں خلل واقع ہونے کے سنگین نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیںکیوں کہ روبوٹ کو طیارے کی طرح 'آٹوپائلٹ موڈ' پر سیٹ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خود ہی آپریشن مکمل کرلے۔
جی نہیں! وہ کوئی جادوگر نہیں ہے بلکہ ایک ماہر سرجن ہے جسے جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی گہرا شغف ہے۔ کینیڈا کے شہر ہملٹن میں واقع سینٹ جوزف اسپتال کے ایک خصوصی کمرے میں بیٹھ کر وہ روبوٹ کی مدد سے سیکڑوں میل دور واقع کسی اور اسپتال میں مریض کا آپریشن کررہا ہوتا ہے۔ وہ ایک گیمنگ کنسول جیسی ڈیوائس کی مدد سے دوسرے اسپتال کے آپریشن تھیئٹر میں موجود' روبوٹ سرجن ' کو کنٹرول کرتے ہوئے سرجری انجام دیتاہے۔اب تک وہ اس طریقے سے بیس آپریشن کرچکا ہے جن میں بڑی آنت اور ہرنیے کے آپریشن بھی شامل تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیلی سرجری (طویل فاصلے سے کی جانے والی سرجری) کی تیکنیک اتنی بہتر ہوچکی ہے کہ اسے اب زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مریض اپنے ہی شہر میں رہتے ہوئے دنیا کے بہترین سرجنوں سے آپریشن کرواسکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تیکنیک عام ہوسکتی ہے؟
ٹیلی سرجری کی تیکنیک کو اہمیت اس وقت حاصل ہوئی تھی جب یہ مسئلہ سامنے آیا تھا کہ خلا میں انسانوں کی آمدورفت عام ہوجانے کے بعد بوقت ضرورت ان کو علاج معالجے اور آپریشن کی سہولیات کیسے دست یاب ہوں گی۔ 1970ء کی دہائی میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے تحقیق کاروں کو ' روبوٹ سرجن ' کی تیاری پرکام شروع کرنے کی ہدایت کی تھی جو ہنگامی صورت حال میں خلا میں خلابازوں کا آپریشن کرسکیں۔ اس کے بعد سے ناسا اور امریکی فوج ' روبوٹ سرجنوں' کی تیاری پر کام کرتی رہی ہے جو ٹیلی سرجری میں معاون ثابت ہوسکیں۔
2006ء میں انواری نے پہلی بار ایک روبوٹ کی مدد سے طویل فاصلے پر موجود مریض کے زخموں پرٹانکے لگائے تھے، اور پھر ٹیلی سرجری کی ٹیکنالوجی میں بہتری کے ساتھ ساتھ وہ ٹانکوں سے بہ تدریج مکمل آپریشن تک آگیا۔
انواری کے ' سرجن روبوٹ'کا نام زیوس ہے۔ سیکڑوں میل دوربیٹھ کر روبوٹ کے ذریعے آپریشن کرنے کے بارے میں ڈاکٹر انواری کہتا ہے،'' یہ ایسے ہی ہے جیسے میں خود آپریشن تھیئٹر میںموجود ہوں۔ میرے دونوں ہاتھ اسی انداز سے روبوٹ کوکنٹرول کرنے والے کنسول پر ہوتے ہیں جیسے کہ آپریشن تھیئٹر میں، میں نے آلات جراحی پکڑے ہوئے ہوں۔'' وہ روبوٹ میں نصب کیمرے کے ذریعے اپنے سامنے رکھے ہوئے مانیٹر پر مریض کو دیکھتے ہوئے آپریشن شروع کردیتا ہے۔ بوقت ضرورت آپریشن تھیئٹر میں موجود نرسوں اور جونیئر ڈاکٹر کو ہدایات بھی دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ روبوٹ کے ذریعے سرجری اور خود اپنے ہاتھوں سے اس کے سرجری کرنے میںکوئی فرق نہیں ہے۔ لینڈلائن کے بہتر نیٹ ورک اور طاقت ور انٹرنیٹ کی وجہ سے آج تک دوران آپریشن کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ تاہم اس کا خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے۔ دوران آپریشن رابطے میں خلل واقع ہونے کے سنگین نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیںکیوں کہ روبوٹ کو طیارے کی طرح 'آٹوپائلٹ موڈ' پر سیٹ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خود ہی آپریشن مکمل کرلے۔