بجٹ اور قربانی
الیکشن سے قبل یہ زور دے کرکہا جاتا تھا کہ سارے معاملات اس لیے خراب ہیں اور ہو رہے ہیں اور مزید ہو جائیں گے
پاکستان ان دنوں جس قسم کی معاشی اور مالی مشکلات سے گزر رہا ہے، جسے عرف عام میں حکومت معاشی بحران کا کام دیتی ہے۔ اس بحران کا احساس 1971 کے بعد زیادہ شدت سے ہونے لگا جب کہ 50کی دہائی سے سیاسی بحران نے جنم لے لیا تھا، جسے مشرقی پاکستان کا مقدر قرار دے کر اس سے پہلو تہی اختیارکی گئی، اگر آج دونوں حصے کے معاشی معاملات اکٹھے ہوتے تو 85 کھرب کے خسارے کا بجٹ پیش نہ ہوتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات کا حجم 150 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہوتا۔ حکومت کو اپنے ملک اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے معاشی اور سیاسی مد و جزر کو مدنظر رکھ کر ایسا بجٹ تشکیل دینا چاہیے تھا جس سے ملک کو معاشی استحکام حاصل ہوتا۔ یہاں پر معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام بھی موجود ہو۔
الیکشن سے قبل یہ زور دے کرکہا جاتا تھا کہ سارے معاملات اس لیے خراب ہیں اور ہو رہے ہیں اور مزید ہو جائیں گے کیونکہ الیکشن نہیں ہو رہے ہیں، لہٰذا الیکشن کے بعد نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سیاسی سکون کی فضا میں معاشی بے چینی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ معاملہ برعکس نکلا، لہٰذا حکومت معاشی استحکام کے معاملے میں قابل قدر کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
دوسرا اہم ترین مقصد معاشی ترقی کا حصول ہے جوکہ اہداف کے قریب تک پہنچنے کی صرف توقع کر سکتے ہیں۔ فی الحال حصول کو غیر یقینی صورت حال سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے معاشی فلاح و بہبود۔ لیکن یہ تمام اہداف آیندہ چل کر اس لیے ناکام ہو جائیں گے کیونکہ بجٹ کو چاروں طرف سے آئی ایم ایف نے گھیر رکھا ہے، لہٰذا اس بجٹ 2024-25 کو آئی ایم ایف زدہ بجٹ کہنے کے بجائے آئی ایم ایف کا بجٹ کہا جائے تو وہ بہتر رہے گا۔
18877 ارب روپے کا پاکستان کی معاشی تاریخ کا بلند ترین بجٹ جمعرات کو پیش کردیا گیا ہے جس میں ہر جانب ٹیکس ہی ٹیکس نظر آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تنخواہوں، کاغذ، کتابوں، نیوز پرنٹ، بچوں کا پیک شدہ دودھ، پولٹری فیڈ، ماچس، درآمدی پھل، سبزیاں اور امپورٹڈ گاڑیاں، اسٹیل مصنوعات، امپورٹڈ ادویات، مشروبات، ڈرائی فروٹ، ملبوسات، چمڑے کی مصنوعات اور بہت سی اشیا پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔
بجٹ خسارہ 8500 ارب روپے کا ہے۔ محصولات کا ہدف محض 12970 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ کراچی کے لیے جامع پیکیج، کسان پیکیج کے لیے صرف 5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔پاکستان میں گندم اسکینڈل کے رونما ہونے اور کسانوں میں بددلی اور مایوسی پھیلنے کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ آیندہ کے لیے موسم کے مطابق بہترین فصلوں کے حصول کی خاطر کسان پیکیج کی رقم 5 ارب روپے کے بجائے 50 ارب روپے رکھنے کی ضرورت تھی،کیونکہ اس وقت آئی ایم ایف نے جس طرح صنعتی ماحول کو زوال پذیرکردیا ہے کیونکہ بجلی،گیس کے نرخ بڑھنے سے مصنوعات کی پیداوار اس کی نکاسی اس کی برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ایسے میں صرف زرعی شعبہ ایسا ہے جس میں افزائش کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، لیکن اس کے لیے کاشتکاروں کے لیے وسیع پیمانے پر بلاسود قرض اور سبسڈی اور دیگر مراعات کے علاوہ کئی احتیاطی اقدامات کرنا ہوں گے۔
گریڈ ایک تا سولہ تک کے سرکاری ملازمین کے لیے 25 فی صد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ پنشن میں صرف اور صرف 15 فی صد اضافہ کیا گیا ہے جوکہ ناانصافی پر مبنی ہے کیونکہ پنشن یافتہ افراد نے بھی مکان کا کرایہ دینا ہوتا ہے جوکہ بڑھ کر اب 20 سے 30 ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح نقل و حمل کے اخراجات برداشت کرتے ہیں جیسے دیگر افراد اور ان کے میڈیکل کے اخراجات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بڑھاپے کے باعث ان کی میز اور ساتھ ہی شریک حیات کی بھی سائیڈ ٹیبل ادویات سے بھری رہتی ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اخراجات کا بوجھ اسی طرح برداشت کرتے ہیں جس طرح دوسرے سرکاری ملازمین اخراجات کا بوجھ برداشت کرتے ہیں لہٰذا ان کی پنشن میں گریڈ ایک سے لے کر کم از کم گریڈ 18 تک تمام پنشنرز کی پنشن میں 25 فی صد اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ لاد دیا گیا ہے دیگر باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بجٹ غریب عوام کا بجٹ فیل کرنے والا بجٹ کہلا سکتا ہے اور مہنگائی کا طوفان یکم جولائی سے مزید کروڑوں افراد کو بہا کر غربت کے گڑھے میں ڈال دے گا۔
ماہ عیدالاضحی کے باعث پوش علاقوں میں خوب رونق برپا ہے۔ بروز سوموار عید قرباں کا موقع ہوگا، لوگ کئی کئی بکروں، گایوں، اونٹوں، دنبوں کی قربانی کر رہے ہیں، اس کے ساتھ اکثریت ایسے افراد کی بھی ہے جن کے گھر کوئی قربانی نہیں ہو رہی۔ پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے ڈیپ فریزر نے قربانی کے اہم مقاصد کے حصول کو کم کر دیا ہے، کیونکہ سالم بکرا ڈیپ فریزرکی نذرکر دیا جاتا ہے۔
ابھی قومی اسمبلی سے بجٹ کی منظوری ہونا باقی ہے، لہٰذا اس موقعے پر تمام اراکین اسمبلی بجٹ کا بغور مطالعہ کر کے اس پر بحث کرنے سے پیش کردہ تجاویزکی بہت سی خامیوں کی نشان دہی کرسکتے ہیں۔ اس بات پر توجہ دی جائے کہ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں اور بجٹ کو ایسا بنا کر منظور کیا جائے جس سے بجٹ صنعتی ترقی کا سبب بن جائے۔
جہاں تک کم از کم اجرت 37 ہزارکرنے کی بات ہے، دکانوں،کارخانوں اورکہاں،کہاں کم ازکم اجرت 32 ہزار تھی جو اب 37 ہزار ہو جائے گی؟ بہرحال دل کے بہلاوے کے لیے اعلان اچھا ہے۔ غریب اپنا حق سمجھے گا کہ اسے 37 ہزار ملنا چاہیے لیکن حقیقت میں 20 ہزار یا 25 ہزار جو بھی مل رہے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں اس کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات کا حجم 150 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہوتا۔ حکومت کو اپنے ملک اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے معاشی اور سیاسی مد و جزر کو مدنظر رکھ کر ایسا بجٹ تشکیل دینا چاہیے تھا جس سے ملک کو معاشی استحکام حاصل ہوتا۔ یہاں پر معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام بھی موجود ہو۔
الیکشن سے قبل یہ زور دے کرکہا جاتا تھا کہ سارے معاملات اس لیے خراب ہیں اور ہو رہے ہیں اور مزید ہو جائیں گے کیونکہ الیکشن نہیں ہو رہے ہیں، لہٰذا الیکشن کے بعد نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سیاسی سکون کی فضا میں معاشی بے چینی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ معاملہ برعکس نکلا، لہٰذا حکومت معاشی استحکام کے معاملے میں قابل قدر کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
دوسرا اہم ترین مقصد معاشی ترقی کا حصول ہے جوکہ اہداف کے قریب تک پہنچنے کی صرف توقع کر سکتے ہیں۔ فی الحال حصول کو غیر یقینی صورت حال سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے معاشی فلاح و بہبود۔ لیکن یہ تمام اہداف آیندہ چل کر اس لیے ناکام ہو جائیں گے کیونکہ بجٹ کو چاروں طرف سے آئی ایم ایف نے گھیر رکھا ہے، لہٰذا اس بجٹ 2024-25 کو آئی ایم ایف زدہ بجٹ کہنے کے بجائے آئی ایم ایف کا بجٹ کہا جائے تو وہ بہتر رہے گا۔
18877 ارب روپے کا پاکستان کی معاشی تاریخ کا بلند ترین بجٹ جمعرات کو پیش کردیا گیا ہے جس میں ہر جانب ٹیکس ہی ٹیکس نظر آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تنخواہوں، کاغذ، کتابوں، نیوز پرنٹ، بچوں کا پیک شدہ دودھ، پولٹری فیڈ، ماچس، درآمدی پھل، سبزیاں اور امپورٹڈ گاڑیاں، اسٹیل مصنوعات، امپورٹڈ ادویات، مشروبات، ڈرائی فروٹ، ملبوسات، چمڑے کی مصنوعات اور بہت سی اشیا پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔
بجٹ خسارہ 8500 ارب روپے کا ہے۔ محصولات کا ہدف محض 12970 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ کراچی کے لیے جامع پیکیج، کسان پیکیج کے لیے صرف 5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔پاکستان میں گندم اسکینڈل کے رونما ہونے اور کسانوں میں بددلی اور مایوسی پھیلنے کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ آیندہ کے لیے موسم کے مطابق بہترین فصلوں کے حصول کی خاطر کسان پیکیج کی رقم 5 ارب روپے کے بجائے 50 ارب روپے رکھنے کی ضرورت تھی،کیونکہ اس وقت آئی ایم ایف نے جس طرح صنعتی ماحول کو زوال پذیرکردیا ہے کیونکہ بجلی،گیس کے نرخ بڑھنے سے مصنوعات کی پیداوار اس کی نکاسی اس کی برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ایسے میں صرف زرعی شعبہ ایسا ہے جس میں افزائش کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، لیکن اس کے لیے کاشتکاروں کے لیے وسیع پیمانے پر بلاسود قرض اور سبسڈی اور دیگر مراعات کے علاوہ کئی احتیاطی اقدامات کرنا ہوں گے۔
گریڈ ایک تا سولہ تک کے سرکاری ملازمین کے لیے 25 فی صد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ پنشن میں صرف اور صرف 15 فی صد اضافہ کیا گیا ہے جوکہ ناانصافی پر مبنی ہے کیونکہ پنشن یافتہ افراد نے بھی مکان کا کرایہ دینا ہوتا ہے جوکہ بڑھ کر اب 20 سے 30 ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح نقل و حمل کے اخراجات برداشت کرتے ہیں جیسے دیگر افراد اور ان کے میڈیکل کے اخراجات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بڑھاپے کے باعث ان کی میز اور ساتھ ہی شریک حیات کی بھی سائیڈ ٹیبل ادویات سے بھری رہتی ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اخراجات کا بوجھ اسی طرح برداشت کرتے ہیں جس طرح دوسرے سرکاری ملازمین اخراجات کا بوجھ برداشت کرتے ہیں لہٰذا ان کی پنشن میں گریڈ ایک سے لے کر کم از کم گریڈ 18 تک تمام پنشنرز کی پنشن میں 25 فی صد اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ لاد دیا گیا ہے دیگر باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بجٹ غریب عوام کا بجٹ فیل کرنے والا بجٹ کہلا سکتا ہے اور مہنگائی کا طوفان یکم جولائی سے مزید کروڑوں افراد کو بہا کر غربت کے گڑھے میں ڈال دے گا۔
ماہ عیدالاضحی کے باعث پوش علاقوں میں خوب رونق برپا ہے۔ بروز سوموار عید قرباں کا موقع ہوگا، لوگ کئی کئی بکروں، گایوں، اونٹوں، دنبوں کی قربانی کر رہے ہیں، اس کے ساتھ اکثریت ایسے افراد کی بھی ہے جن کے گھر کوئی قربانی نہیں ہو رہی۔ پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے ڈیپ فریزر نے قربانی کے اہم مقاصد کے حصول کو کم کر دیا ہے، کیونکہ سالم بکرا ڈیپ فریزرکی نذرکر دیا جاتا ہے۔
ابھی قومی اسمبلی سے بجٹ کی منظوری ہونا باقی ہے، لہٰذا اس موقعے پر تمام اراکین اسمبلی بجٹ کا بغور مطالعہ کر کے اس پر بحث کرنے سے پیش کردہ تجاویزکی بہت سی خامیوں کی نشان دہی کرسکتے ہیں۔ اس بات پر توجہ دی جائے کہ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں اور بجٹ کو ایسا بنا کر منظور کیا جائے جس سے بجٹ صنعتی ترقی کا سبب بن جائے۔
جہاں تک کم از کم اجرت 37 ہزارکرنے کی بات ہے، دکانوں،کارخانوں اورکہاں،کہاں کم ازکم اجرت 32 ہزار تھی جو اب 37 ہزار ہو جائے گی؟ بہرحال دل کے بہلاوے کے لیے اعلان اچھا ہے۔ غریب اپنا حق سمجھے گا کہ اسے 37 ہزار ملنا چاہیے لیکن حقیقت میں 20 ہزار یا 25 ہزار جو بھی مل رہے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں اس کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر رہا ہے۔