تمہی بتاؤ کہ یہ اندازِسیاست کیاہے
پاکستانی معاشرے کی ہئیت کا جائزہ لیں تو یہ اپنی سرشت میں گھر سے ریاست تک مطلق العنان۔۔
پہلے بھی کئی بار لکھا ہے۔اب پھر لکھ رہا ہوں۔ جمہوریت سیاستدانوں سے زیادہ قلمکاروں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے مختلف شراکت داروں کی فطری ضرورت ہوتی ہے۔سیاستدان تو دورِآمریت میں بھی کسی نہ کسی طور اقتدار کے مزے لوٹ لیتے ہیںبلکہ پاکستان جیسے معاشروں میں تو ہردو ادوار میں سیاستدان ہی مزے لوٹتے رہے ہیں۔ گویا پانچوں گھی میںاورسرکڑھائی میںلیکن درج بالا شراکت دار خاص طورپر قلم کار، صحافی اورتجزیہ نگار کی تخلیقی صلاحیتیں معاشرے میںجمہوری اقدارکے استحکام اور سماجی تنوع ہی سے مشروط ہوتی ہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ اہل قلم معاشرے کی اصلاح کے لیے نئے نظریات اور افکار ضرور پیش کرتے ہیں مگر انھیں عملی جامہ سیاستدان ہی پہناتے ہیں۔اس لیے جمہوری معاشروں میںسیاستدانوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی طے ہے کہ سول سوسائٹی کے مختلف شراکت دار جمہوریت اور جمہوری حقوق کے لیے صرف پیروی (Advocacy) کر سکتے ہیں لیکن عوام کوان حقوق کے حصول کی جدوجہدپر آمادہ یعنی Mobilization سیاسی جماعتیں ہی کرسکتی ہیں۔دوسرا غور طلب پہلو یہ ہے کہ کسی معاشرے میںجمہوری اقدارکے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ریاست (State)اور سماج(Society)کو جمہوریانے (Democratization) کا عمل ساتھ ساتھ چلے۔جن معاشروں میں یہ توازن بگڑتا ہے، وہاں عوام جمہوریت کے ثمرات سے صحیح طورپر بہرہ مند نہیں ہوپاتے۔
پاکستانی معاشرے کی ہئیت کا جائزہ لیں تو یہ اپنی سرشت میں گھر سے ریاست تک مطلق العنان (Despotic) رویوںکی عکاسی کرتاہے۔ایسے کسی معاشرے میںصرف ریاست کو جمہوریانے کا عمل اکثر وبیشترمنفی نتائج کا حامل بھی ہوجاتا ہے کیونکہ سماج اپنی سرشت میںمطلق العنان ہونے کے باعث جمہوری روایات کو قبول نہیں کرپاتا جس سے دو برائیاں خاص طور پر جنم لیتی ہیں جو جمہوری عمل کے تسلسل کو ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔
اول، شہری اپنے جمہوری حق سے عدم واقفیت کی وجہ سے کہیں قبائلی یا برادری شناخت کے زیراثراور کہیں جاگیردار کے اثرونفوذ کے باعث اپنی رائے کا صحیح استعمال نہیں کرپاتے اور ایسے افرادکو قانون ساز اداروں میں پہنچادیتے ہیں جوان اداروں کی اہمیت اور افادیت سے واقف نہیں ہوتے۔ دوئم، منتخب اراکین کا تعلق بھی چونکہ اسی مطلق العنان معاشرے سے ہوتا ہے، اس لیے منتخب ہو جانے کے بعد ان کی مطلق العنانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ جوہر سطح پر اقتدار واختیار کی مرکزیت اور Power Abuseکی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ جس سے معاشرے میں جمہوریت اور جمہوری طرزِ حکمرانی کے لیے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ آمریت کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی رہاہے کہ یہاں مختلف اوقات میں 32برس تک فوجی آمریتیں رہی ہیں۔ جنہوں نے جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا۔ اس کے علاوہ بیشتر سیاسی جماعتیںخودفوجی آمریتوں کی پیدوار ہیں۔ یوں سیاستدانوں اور سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ریٹائرڈ افسران پر مشتمل ایک ایسا مراعت یافتہ طبقہ وجود میں آگیاہے، جو ہر صورت میں اقتدار و اختیار پر قابض رہنے کی جستجو میں رہتا ہے۔ پاکستان کی ریاست اور سیاست گزشتہ 38 برس سے اسی طبقے کی دسترس میں ہے۔یہی لوگ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے اثرونفوذ کی بنا پرمنتخب بھی ہوجاتے ہیںاسی لیے انھیں Electablesکہاجاتا ہے اور ہر جماعت انھیں ان کے کردارونظریات کا جائزہ لیے بغیر انھیں اپنی صفوں میں شامل کرنے پر بے چین رہتی ہے مگریہ لوگ اس جماعت کا رخ کرتے ہیں جس کے آیندہ انتخابات میںمنتخب ہونے کے قوی امکانات ہوں۔
اگر ماضی بعید کے بجائے حالیہ چند برسوں پر نظر دوڑائیں تو دسمبر2011 کے بعد تحریک انصاف میں ایسے عناصر جوق درجوق شامل ہوئے جنھیں اس جماعت کے فکروفلسفے کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ بیشترسیاسی شخصیات نے مسلم لیگ (ن) کا رخ کیا جنھیںیہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ جماعت اقتدار میں آنے کوہے۔ان میںوہ Electables اور سیاسی رہنماء بھی شامل تھے جو 2002 میںاپنے قائدمیاں نواز شریف سے غداری کرکے پرویز مشرف کے ساتھ گئے تھے اور آٹھ برس تک اقتدار واختیار کے بھر پور اندازمیں مزے لوٹے تھے۔
ان عناصر کو نہ صرف ایک بار پھر نہ مسلم لیگ(ن) کی صفوں میں قبول کرلیاگیا بلکہ قومی اور صوبائی اسبلیوں میں اس جماعت کی نمایندگی بھی کررہے ہیں۔یہ عناصر جو ہوسِ اقتدار میں ہر چند برس بعد اپناقبلہ تبدیل کرتے رہتے ہیں اور اپنے فیوڈل یا برادری کی بنیاد پر اثرونفوذ کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان سے سیاسی وسماجی ڈھانچے میں اصلاحات کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ ان کے لیے جمہوریت کا ہونا یا نہ ہوناکوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ جاری سیاسی ماحول ہی زیادہ موزوںہوتا ہے کیونکہ اس طرح انھیں گل کھلانے کے بیشمار مواقعے مل جاتے ہیں ۔
اس تناظر میںعلامہ طاہر القادری کی زیر قیادت عوامی تحریک کی مہم جوئی اورصاحبِ اقتدار مسلم لیگ(ن) کے سیاسی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو درجِ بالا نکات باآسانی سمجھ میں آجاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ جو اعتراضات علامہ نے اٹھائے ہیں ان میں سے بیشتر کی حقانیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن جو طریقہ کار علامہ موصوف اختیار کررہے ہیں یا کرنے کے خواہشمند ہیں، وہ بہر حال جمہوری نظام کو لپیٹنے اور ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا راستہ ہے جس کی کوئی بھی متوشش شہری کبھی حمایت نہیں کرسکتا مگر دوسری طرف جو طرزِ حکمرانی اور رویہ و روش مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اپنایا ہوا ہے، وہ بھی کسی طور قابلِ قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ جماعت وفاق پر حکمران ہے مگر اپنے رویوں اور روش کے اعتبار سے بلدیاتی سطح کی جماعت بنی ہوئی ہے،جس کی سوچ ضلع کی سطح سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ جس میںایک ہی خاندان یعنی جماعت کے سربراہ کے اپنے خاندان کے 19 افراد اعلیٰ ترین پوزیشنز پر فائز ہیں۔ اس کے بعدمعتبر ہونے کے لیے کشمیری نژاد اور لاہور سے تعلق دوسری بڑی شرط ہے۔ یہ اندازِ حکمرانی عوام کو صوبائی بنیادوں ہی پر نہیں،بلکہ ضلع کی سطح پر تقسیم کرنے کے خطرناک رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔
ہمارے سامنے بابائے قوم کی مثال ہے، جنہوں نے کراچی سے چٹاگانگ تک اور بولان سے راس کماری تک ہر رنگ، نسل، قومیت ،لسان اور مسلک کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرودیاتھا۔وہ عوام کی Lingua Francaیعنی اردو سے نابلد تھے مگر لوگ ان کے انگریزی خطاب سے بھی متاثر ہوتے اور ان کی سچائی پر یقین کرتے۔دوسری شخصیت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ہے جنہوں نے 20دسمبر1971 کو جب اقتدار سنبھالا تو اپنی نشری تقریر میں انتہائی عاجزانہ اندازمیں اپنے کزن ممتاز بھٹو کو اقتدار میں شامل کرنے کی عوام سے اجازت مانگی۔
اس کے علاوہ ان کے خاندان کا کوئی فرد ان کی زندگی میںکسی منفعت بخش عہدے پر فائز نہیں ہوا حالانکہ بھٹو خاندان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کوئی کمی نہیں تھی۔کسی کو اچھا لگے یا برا تیسری مثال ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ہے جن کے کسی بھائی، بھتیجے یا قریبی عزیز کووزیریا سفیر تو دور کی بات آج تک قومی وصوبائی اسمبلیوں کے علاوہ کونسلر تک کا ٹکٹ نہیں دیا گیالیکن لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے لیے یہ حوالے بے معنی ہیںکیونکہ وہ اپنے خول سے باہر نکلنے پر کسی طور آمادہ نہیں ہے۔
ہمارا بھی عجب معاملہ ہوگیا ہے،ہم نے جمہوریت کو کانچ کا گلاس سمجھ لیا ہے جس کے ذرا سی لغزش سے چکناچور ہو جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔یاپھروہ نرم ونازک شاخ گل سمجھ بیٹھے ہیں جو ہوا کے معمولی سے جھونکے سے دہری ہوجاتی ہے۔ ہمارے مزاج کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ ہم دو انتہائوں پر بیٹھ کر سوچنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ درمیانی راہ یعنی گرے ایریامیںبیٹھ کر جائزہ لیناہماری سرشت کا حصہ نہیں ہے۔ Issue to Issueسیاسی جماعتوںکی کارکردگی کا جائزہ لینے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کو الگ الگ بیان کرنے کی روایت تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے جس سے مخالفت برائے مخالفت اور غیر منطقی حمایت کاکلچر فروغ پارہاہے۔ یہ رویے عام شہریوں میں تو شاید چل جائیں، مگر کم ازکم صحافت میں قابل قبول نہیں ہوسکتے۔
یہ بھی طے ہے کہ سول سوسائٹی کے مختلف شراکت دار جمہوریت اور جمہوری حقوق کے لیے صرف پیروی (Advocacy) کر سکتے ہیں لیکن عوام کوان حقوق کے حصول کی جدوجہدپر آمادہ یعنی Mobilization سیاسی جماعتیں ہی کرسکتی ہیں۔دوسرا غور طلب پہلو یہ ہے کہ کسی معاشرے میںجمہوری اقدارکے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ریاست (State)اور سماج(Society)کو جمہوریانے (Democratization) کا عمل ساتھ ساتھ چلے۔جن معاشروں میں یہ توازن بگڑتا ہے، وہاں عوام جمہوریت کے ثمرات سے صحیح طورپر بہرہ مند نہیں ہوپاتے۔
پاکستانی معاشرے کی ہئیت کا جائزہ لیں تو یہ اپنی سرشت میں گھر سے ریاست تک مطلق العنان (Despotic) رویوںکی عکاسی کرتاہے۔ایسے کسی معاشرے میںصرف ریاست کو جمہوریانے کا عمل اکثر وبیشترمنفی نتائج کا حامل بھی ہوجاتا ہے کیونکہ سماج اپنی سرشت میںمطلق العنان ہونے کے باعث جمہوری روایات کو قبول نہیں کرپاتا جس سے دو برائیاں خاص طور پر جنم لیتی ہیں جو جمہوری عمل کے تسلسل کو ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔
اول، شہری اپنے جمہوری حق سے عدم واقفیت کی وجہ سے کہیں قبائلی یا برادری شناخت کے زیراثراور کہیں جاگیردار کے اثرونفوذ کے باعث اپنی رائے کا صحیح استعمال نہیں کرپاتے اور ایسے افرادکو قانون ساز اداروں میں پہنچادیتے ہیں جوان اداروں کی اہمیت اور افادیت سے واقف نہیں ہوتے۔ دوئم، منتخب اراکین کا تعلق بھی چونکہ اسی مطلق العنان معاشرے سے ہوتا ہے، اس لیے منتخب ہو جانے کے بعد ان کی مطلق العنانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ جوہر سطح پر اقتدار واختیار کی مرکزیت اور Power Abuseکی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ جس سے معاشرے میں جمہوریت اور جمہوری طرزِ حکمرانی کے لیے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ آمریت کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی رہاہے کہ یہاں مختلف اوقات میں 32برس تک فوجی آمریتیں رہی ہیں۔ جنہوں نے جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا۔ اس کے علاوہ بیشتر سیاسی جماعتیںخودفوجی آمریتوں کی پیدوار ہیں۔ یوں سیاستدانوں اور سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ریٹائرڈ افسران پر مشتمل ایک ایسا مراعت یافتہ طبقہ وجود میں آگیاہے، جو ہر صورت میں اقتدار و اختیار پر قابض رہنے کی جستجو میں رہتا ہے۔ پاکستان کی ریاست اور سیاست گزشتہ 38 برس سے اسی طبقے کی دسترس میں ہے۔یہی لوگ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے اثرونفوذ کی بنا پرمنتخب بھی ہوجاتے ہیںاسی لیے انھیں Electablesکہاجاتا ہے اور ہر جماعت انھیں ان کے کردارونظریات کا جائزہ لیے بغیر انھیں اپنی صفوں میں شامل کرنے پر بے چین رہتی ہے مگریہ لوگ اس جماعت کا رخ کرتے ہیں جس کے آیندہ انتخابات میںمنتخب ہونے کے قوی امکانات ہوں۔
اگر ماضی بعید کے بجائے حالیہ چند برسوں پر نظر دوڑائیں تو دسمبر2011 کے بعد تحریک انصاف میں ایسے عناصر جوق درجوق شامل ہوئے جنھیں اس جماعت کے فکروفلسفے کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ بیشترسیاسی شخصیات نے مسلم لیگ (ن) کا رخ کیا جنھیںیہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ جماعت اقتدار میں آنے کوہے۔ان میںوہ Electables اور سیاسی رہنماء بھی شامل تھے جو 2002 میںاپنے قائدمیاں نواز شریف سے غداری کرکے پرویز مشرف کے ساتھ گئے تھے اور آٹھ برس تک اقتدار واختیار کے بھر پور اندازمیں مزے لوٹے تھے۔
ان عناصر کو نہ صرف ایک بار پھر نہ مسلم لیگ(ن) کی صفوں میں قبول کرلیاگیا بلکہ قومی اور صوبائی اسبلیوں میں اس جماعت کی نمایندگی بھی کررہے ہیں۔یہ عناصر جو ہوسِ اقتدار میں ہر چند برس بعد اپناقبلہ تبدیل کرتے رہتے ہیں اور اپنے فیوڈل یا برادری کی بنیاد پر اثرونفوذ کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان سے سیاسی وسماجی ڈھانچے میں اصلاحات کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ ان کے لیے جمہوریت کا ہونا یا نہ ہوناکوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ جاری سیاسی ماحول ہی زیادہ موزوںہوتا ہے کیونکہ اس طرح انھیں گل کھلانے کے بیشمار مواقعے مل جاتے ہیں ۔
اس تناظر میںعلامہ طاہر القادری کی زیر قیادت عوامی تحریک کی مہم جوئی اورصاحبِ اقتدار مسلم لیگ(ن) کے سیاسی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو درجِ بالا نکات باآسانی سمجھ میں آجاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ جو اعتراضات علامہ نے اٹھائے ہیں ان میں سے بیشتر کی حقانیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن جو طریقہ کار علامہ موصوف اختیار کررہے ہیں یا کرنے کے خواہشمند ہیں، وہ بہر حال جمہوری نظام کو لپیٹنے اور ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا راستہ ہے جس کی کوئی بھی متوشش شہری کبھی حمایت نہیں کرسکتا مگر دوسری طرف جو طرزِ حکمرانی اور رویہ و روش مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اپنایا ہوا ہے، وہ بھی کسی طور قابلِ قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ جماعت وفاق پر حکمران ہے مگر اپنے رویوں اور روش کے اعتبار سے بلدیاتی سطح کی جماعت بنی ہوئی ہے،جس کی سوچ ضلع کی سطح سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ جس میںایک ہی خاندان یعنی جماعت کے سربراہ کے اپنے خاندان کے 19 افراد اعلیٰ ترین پوزیشنز پر فائز ہیں۔ اس کے بعدمعتبر ہونے کے لیے کشمیری نژاد اور لاہور سے تعلق دوسری بڑی شرط ہے۔ یہ اندازِ حکمرانی عوام کو صوبائی بنیادوں ہی پر نہیں،بلکہ ضلع کی سطح پر تقسیم کرنے کے خطرناک رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔
ہمارے سامنے بابائے قوم کی مثال ہے، جنہوں نے کراچی سے چٹاگانگ تک اور بولان سے راس کماری تک ہر رنگ، نسل، قومیت ،لسان اور مسلک کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرودیاتھا۔وہ عوام کی Lingua Francaیعنی اردو سے نابلد تھے مگر لوگ ان کے انگریزی خطاب سے بھی متاثر ہوتے اور ان کی سچائی پر یقین کرتے۔دوسری شخصیت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ہے جنہوں نے 20دسمبر1971 کو جب اقتدار سنبھالا تو اپنی نشری تقریر میں انتہائی عاجزانہ اندازمیں اپنے کزن ممتاز بھٹو کو اقتدار میں شامل کرنے کی عوام سے اجازت مانگی۔
اس کے علاوہ ان کے خاندان کا کوئی فرد ان کی زندگی میںکسی منفعت بخش عہدے پر فائز نہیں ہوا حالانکہ بھٹو خاندان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کوئی کمی نہیں تھی۔کسی کو اچھا لگے یا برا تیسری مثال ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ہے جن کے کسی بھائی، بھتیجے یا قریبی عزیز کووزیریا سفیر تو دور کی بات آج تک قومی وصوبائی اسمبلیوں کے علاوہ کونسلر تک کا ٹکٹ نہیں دیا گیالیکن لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے لیے یہ حوالے بے معنی ہیںکیونکہ وہ اپنے خول سے باہر نکلنے پر کسی طور آمادہ نہیں ہے۔
ہمارا بھی عجب معاملہ ہوگیا ہے،ہم نے جمہوریت کو کانچ کا گلاس سمجھ لیا ہے جس کے ذرا سی لغزش سے چکناچور ہو جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔یاپھروہ نرم ونازک شاخ گل سمجھ بیٹھے ہیں جو ہوا کے معمولی سے جھونکے سے دہری ہوجاتی ہے۔ ہمارے مزاج کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ ہم دو انتہائوں پر بیٹھ کر سوچنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ درمیانی راہ یعنی گرے ایریامیںبیٹھ کر جائزہ لیناہماری سرشت کا حصہ نہیں ہے۔ Issue to Issueسیاسی جماعتوںکی کارکردگی کا جائزہ لینے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کو الگ الگ بیان کرنے کی روایت تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے جس سے مخالفت برائے مخالفت اور غیر منطقی حمایت کاکلچر فروغ پارہاہے۔ یہ رویے عام شہریوں میں تو شاید چل جائیں، مگر کم ازکم صحافت میں قابل قبول نہیں ہوسکتے۔