احتیاط کی ضرورت
پنجاب پولیس اس سے قبل بھی سانحہ لاہور جیسے شرمناک واقعات میں ماضی میں پیش پیش رہی ہے
لاہور:
مسلم لیگ (ق) کے صدر اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ سانحہ لاہور میں پولیس بربریت کے بعد اگر علامہ طاہر القادری چاہتے تو ملک میں آگ لگا سکتے تھے مگر انھوں نے احتیاط کا مظاہرہ کیا اور صرف تین روزہ پر امن سوگ کا اعلان کیا۔ چوہدری شجاعت کا یہ بیان کہاں تک موثر اور درست ہے وہ اپنی جگہ مگر ہمارے سیاسی رہنماؤں نے سانحہ لاہور پر حکومت اور خصوصاً شریف برادران کے خلاف جو بیانات دیے وہ سیاسی طور پر ٹھیک تھے مگر بعض بیانات میں اشتعال اس قدر زیادہ تھا کہ ملک میں نہ سہی لاہور میں ضرور آگ لگ سکتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور پولیس نے اپنی جس بے حسی کا کردار ادا کیا وہ انتہائی شرمناک اور ناقابل معافی ہے مگر پولیس کے کردار کو بنیاد بنا کر عمران خان، چوہدری پرویز الٰہی اور موقعے سے فائدہ اٹھانے والوں نے بے حد سخت بیانات دیے ہیں۔ عمران خان نے لاہور پولیس میں مسلم لیگ (ن) کا ونگ تلاش کر لیا اور پرویز الٰہی نے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو نریندر مودی قرار دے دیا اور میاں برادران کے مخالفین نے بھی اشتعال پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پنجاب پولیس اس سے قبل بھی سانحہ لاہور جیسے شرمناک واقعات میں ماضی میں پیش پیش رہی ہے اور روزنامہ ایکسپریس کے مطابق ایسے سانحات کے بعد چند پولیس افسروں کی قربانی دے کر اصل حقائق منظر عام پر آنے سے روک دیے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد معطل افسروں کو بحال کر دیا جاتا ہے یا دکھاوے کی سزائیں دے دی جاتی ہیں مگر بے گناہوں کے قتل کے ذمے داروں کا تعین ہوتا ہے نہ ہلاکتوں کے ذمے داروں کو عام لوگوں کو دی جانے والی کڑی سزائیں ملتی ہیں اور معاملہ خودبخود کچھ دنوں بعد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
پاک فوج میں تو یہ ریکارڈ موجود ہے کہ بے گناہوں کی ہلاکت ثابت ہونے پر فوجی افسروں اور اہلکاروں کو سخت سزائیں فوجی عدالتوں سے نہ صرف ملیں بلکہ ان پر عمل بھی ہوا مگر ملک میں پولیس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ عوام پر بے جا فائرنگ، تشدد، بے رحمانہ لاٹھی چارج اور سب سے بڑھ کر خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کی شرمناک تذلیل پر بھی پولیس کے خلاف کبھی کہیں بھی ایسی کارروائی نہیں ہوئی جو دوسروں کے لیے عبرت یا مثال بنتی۔
مسلم لیگ (ن) ہی نہیں ماضی میں مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور فوجی حکومتوں میں بھی پولیس کی طرف سے عوام دشمنی اور بربریت کے انتہائی شرمناک مظاہرے ہوئے مگر کبھی کسی صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیر اعلیٰ تو کیا متعلقہ وزیر تک نے استعفیٰ نہیں دیا یہ بھی شاید پہلی بار ہوا ہے کہ کسی وزیر اعلیٰ نے کہا ہو کہ اگر سانحے کا ذمے دار ثابت ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا اور جو چاہے میرے خلاف مقدمہ درج کرا سکتا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی دن رات کی محنت اور سخت رویے کا بہت ذکر ہوتا ہے اور وہ افسروں کو معطل کرنے کی بھی شہرت رکھتے ہیں مگر وہ پنجاب پولیس کو سدھارنے میں مکمل ناکام اور سیاسی مصلحت کا شکار رہے اور ان کی پہلی بار چھ سال سے جاری وزارت اعلیٰ میں پنجاب پولیس کی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور چھ سالوں میں پولیس کے سلسلے میں اگر بہتری کے لیے کوئی عملی اقدام کیا جاتا تو لاہور میں 17 جون جیسا شرمنا ک سانحہ ہوتا نہ پولیس گردی کی انتہا ہوتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ہر دور حکومت میں پولیس کو سرکاری وسائل پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا گیا ہو اور اقتدار میں رہتے ہوئے پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کو ذاتی ملازم نہ سمجھا گیا ہو۔ اقتدار میں آ کر سیاسی بنیاد پر جو بھرتیاں ہوئیں اس کے نتیجے میں پورے ملک کی پولیس سیاسی ہو چکی ہے پولیس میں ایسے لوگوں کی اکثریت انھیں بھرتی کرانے والی سیاسی جماعتوں کی وفادار ہے اور انھیں اپنے محکمے کی عزت کا کوئی خیال نہیں وہ عوام کو بھی بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں اور قانون سے بالاتر ہو کر عوام کے دشمن کا روپ دھار لیتے ہیں اور وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کا انھیں قانونی اختیار نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کی پشت پر بااثر سیاسی قوتیں موجود ہیں جو انھیں برطرفیوں، معطلیوں، تنزلی اور قانون کے شکنجے سے بچا لیں گی اور انھیں بچایا بھی جاتا ہے۔
آج ملک بھر میں جہاں بھی پولیس گردی اور بے گناہوں پر پولیس کے مظالم دیکھنے میں آ رہے ہیں اس کے ذمے دار آج کے تمام سیاستدان اور سابق سیاسی و فوجی حکومتیں ہیں۔ انھوں نے اگر احتیاط کا مظاہرہ کیا ہوتا اور پولیس بھرتیوں میں مداخلت، من مانی، اقربا پروری اور میرٹ کا قتل نہ کرایا ہوتا تو آج ہماری پولیس ایسی نہ ہوتی جس کے کردار کی ملک بھر میں مذمت ہو رہی ہو اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی پولیس گردی پر افسوس کا اظہار کرنا پڑگیا ہے۔
لاہور پولیس کا کردار اور پولیس گردی اپنی جگہ مگر اس کو جواز بنا کر ہمارے سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین خصوصاً وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عمران خان کو حیرت ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اب تک مستعفی نہیں ہوئے۔ لگتا ہے کہ اس ملک کو اب کسی سانحے کی عدالتی تحقیقات کے بغیر ہی ہر صوبے کے وزیر اعلیٰ کو مجرم گردانہ جائے گا اور سیاسی رہنما کسی عدالتی فیصلے کے بغیر ہی اپنے مخالف حکمرانوں سے استعفیٰ طلب کریں گے۔
جو سیاسی رہنما ایسے مطالبات کر رہے ہیں وہ ماضی کی حکومتوں کا زیادہ تر حصہ رہے ہیں اور ان کے دور میں بھی پولیس گردی اور ایسے سانحات پیش آئے مگر کسی نے بھی ذمے داری قبول کر کے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ سندھ میں بھی بعض واقعات پر وزیر اعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا مگر کوئی مستعفی نہیں ہوتا اور اپنی ذمے داریوں میں ناکامی میں اقتدار چھوڑ دینے کا کوئی عالمی اصول ہمارے یہاں رائج ہی نہیں ہے بلکہ سانحہ لاہور جیسے واقعات پر جلتی پر تیل ضرور چھڑکا جاتا ہے اور بھڑکتی آگ کو بجھانے کی بجائے سیاسی بیانات کے ذریعے عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کراچی میں 12 مئی کے سانحے پر وزیر اعلیٰ مستعفی ہوا تھا نہ ہزارہ تحریک میں مرنے والوں پر اے این پی کے وزیر اعلیٰ نے اقتدار چھوڑا تھا نہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل ٹوٹنے پر موجودہ وزیر اعلیٰ مستعفی ہوئے تھے اور نہ شہباز شریف استعفیٰ دیں گے اور یہ سلسلہ اور سیاسی مطالبے جاری رہیں گے اس لیے سیاسی رہنماؤں کو سیاسی مفاد کے لیے سیاسی بیانات میں احتیاط لازمی مدنظر رکھنا ہو گی۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ سانحہ لاہور میں پولیس بربریت کے بعد اگر علامہ طاہر القادری چاہتے تو ملک میں آگ لگا سکتے تھے مگر انھوں نے احتیاط کا مظاہرہ کیا اور صرف تین روزہ پر امن سوگ کا اعلان کیا۔ چوہدری شجاعت کا یہ بیان کہاں تک موثر اور درست ہے وہ اپنی جگہ مگر ہمارے سیاسی رہنماؤں نے سانحہ لاہور پر حکومت اور خصوصاً شریف برادران کے خلاف جو بیانات دیے وہ سیاسی طور پر ٹھیک تھے مگر بعض بیانات میں اشتعال اس قدر زیادہ تھا کہ ملک میں نہ سہی لاہور میں ضرور آگ لگ سکتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور پولیس نے اپنی جس بے حسی کا کردار ادا کیا وہ انتہائی شرمناک اور ناقابل معافی ہے مگر پولیس کے کردار کو بنیاد بنا کر عمران خان، چوہدری پرویز الٰہی اور موقعے سے فائدہ اٹھانے والوں نے بے حد سخت بیانات دیے ہیں۔ عمران خان نے لاہور پولیس میں مسلم لیگ (ن) کا ونگ تلاش کر لیا اور پرویز الٰہی نے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو نریندر مودی قرار دے دیا اور میاں برادران کے مخالفین نے بھی اشتعال پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پنجاب پولیس اس سے قبل بھی سانحہ لاہور جیسے شرمناک واقعات میں ماضی میں پیش پیش رہی ہے اور روزنامہ ایکسپریس کے مطابق ایسے سانحات کے بعد چند پولیس افسروں کی قربانی دے کر اصل حقائق منظر عام پر آنے سے روک دیے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد معطل افسروں کو بحال کر دیا جاتا ہے یا دکھاوے کی سزائیں دے دی جاتی ہیں مگر بے گناہوں کے قتل کے ذمے داروں کا تعین ہوتا ہے نہ ہلاکتوں کے ذمے داروں کو عام لوگوں کو دی جانے والی کڑی سزائیں ملتی ہیں اور معاملہ خودبخود کچھ دنوں بعد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
پاک فوج میں تو یہ ریکارڈ موجود ہے کہ بے گناہوں کی ہلاکت ثابت ہونے پر فوجی افسروں اور اہلکاروں کو سخت سزائیں فوجی عدالتوں سے نہ صرف ملیں بلکہ ان پر عمل بھی ہوا مگر ملک میں پولیس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ عوام پر بے جا فائرنگ، تشدد، بے رحمانہ لاٹھی چارج اور سب سے بڑھ کر خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کی شرمناک تذلیل پر بھی پولیس کے خلاف کبھی کہیں بھی ایسی کارروائی نہیں ہوئی جو دوسروں کے لیے عبرت یا مثال بنتی۔
مسلم لیگ (ن) ہی نہیں ماضی میں مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور فوجی حکومتوں میں بھی پولیس کی طرف سے عوام دشمنی اور بربریت کے انتہائی شرمناک مظاہرے ہوئے مگر کبھی کسی صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیر اعلیٰ تو کیا متعلقہ وزیر تک نے استعفیٰ نہیں دیا یہ بھی شاید پہلی بار ہوا ہے کہ کسی وزیر اعلیٰ نے کہا ہو کہ اگر سانحے کا ذمے دار ثابت ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا اور جو چاہے میرے خلاف مقدمہ درج کرا سکتا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی دن رات کی محنت اور سخت رویے کا بہت ذکر ہوتا ہے اور وہ افسروں کو معطل کرنے کی بھی شہرت رکھتے ہیں مگر وہ پنجاب پولیس کو سدھارنے میں مکمل ناکام اور سیاسی مصلحت کا شکار رہے اور ان کی پہلی بار چھ سال سے جاری وزارت اعلیٰ میں پنجاب پولیس کی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور چھ سالوں میں پولیس کے سلسلے میں اگر بہتری کے لیے کوئی عملی اقدام کیا جاتا تو لاہور میں 17 جون جیسا شرمنا ک سانحہ ہوتا نہ پولیس گردی کی انتہا ہوتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ہر دور حکومت میں پولیس کو سرکاری وسائل پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا گیا ہو اور اقتدار میں رہتے ہوئے پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کو ذاتی ملازم نہ سمجھا گیا ہو۔ اقتدار میں آ کر سیاسی بنیاد پر جو بھرتیاں ہوئیں اس کے نتیجے میں پورے ملک کی پولیس سیاسی ہو چکی ہے پولیس میں ایسے لوگوں کی اکثریت انھیں بھرتی کرانے والی سیاسی جماعتوں کی وفادار ہے اور انھیں اپنے محکمے کی عزت کا کوئی خیال نہیں وہ عوام کو بھی بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں اور قانون سے بالاتر ہو کر عوام کے دشمن کا روپ دھار لیتے ہیں اور وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کا انھیں قانونی اختیار نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کی پشت پر بااثر سیاسی قوتیں موجود ہیں جو انھیں برطرفیوں، معطلیوں، تنزلی اور قانون کے شکنجے سے بچا لیں گی اور انھیں بچایا بھی جاتا ہے۔
آج ملک بھر میں جہاں بھی پولیس گردی اور بے گناہوں پر پولیس کے مظالم دیکھنے میں آ رہے ہیں اس کے ذمے دار آج کے تمام سیاستدان اور سابق سیاسی و فوجی حکومتیں ہیں۔ انھوں نے اگر احتیاط کا مظاہرہ کیا ہوتا اور پولیس بھرتیوں میں مداخلت، من مانی، اقربا پروری اور میرٹ کا قتل نہ کرایا ہوتا تو آج ہماری پولیس ایسی نہ ہوتی جس کے کردار کی ملک بھر میں مذمت ہو رہی ہو اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی پولیس گردی پر افسوس کا اظہار کرنا پڑگیا ہے۔
لاہور پولیس کا کردار اور پولیس گردی اپنی جگہ مگر اس کو جواز بنا کر ہمارے سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین خصوصاً وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عمران خان کو حیرت ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اب تک مستعفی نہیں ہوئے۔ لگتا ہے کہ اس ملک کو اب کسی سانحے کی عدالتی تحقیقات کے بغیر ہی ہر صوبے کے وزیر اعلیٰ کو مجرم گردانہ جائے گا اور سیاسی رہنما کسی عدالتی فیصلے کے بغیر ہی اپنے مخالف حکمرانوں سے استعفیٰ طلب کریں گے۔
جو سیاسی رہنما ایسے مطالبات کر رہے ہیں وہ ماضی کی حکومتوں کا زیادہ تر حصہ رہے ہیں اور ان کے دور میں بھی پولیس گردی اور ایسے سانحات پیش آئے مگر کسی نے بھی ذمے داری قبول کر کے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ سندھ میں بھی بعض واقعات پر وزیر اعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا مگر کوئی مستعفی نہیں ہوتا اور اپنی ذمے داریوں میں ناکامی میں اقتدار چھوڑ دینے کا کوئی عالمی اصول ہمارے یہاں رائج ہی نہیں ہے بلکہ سانحہ لاہور جیسے واقعات پر جلتی پر تیل ضرور چھڑکا جاتا ہے اور بھڑکتی آگ کو بجھانے کی بجائے سیاسی بیانات کے ذریعے عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کراچی میں 12 مئی کے سانحے پر وزیر اعلیٰ مستعفی ہوا تھا نہ ہزارہ تحریک میں مرنے والوں پر اے این پی کے وزیر اعلیٰ نے اقتدار چھوڑا تھا نہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل ٹوٹنے پر موجودہ وزیر اعلیٰ مستعفی ہوئے تھے اور نہ شہباز شریف استعفیٰ دیں گے اور یہ سلسلہ اور سیاسی مطالبے جاری رہیں گے اس لیے سیاسی رہنماؤں کو سیاسی مفاد کے لیے سیاسی بیانات میں احتیاط لازمی مدنظر رکھنا ہو گی۔