متاعِ لوح و قلم چھیننے والو‘ سنو…
ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب لاہور میں پولیس کو طاہر القادری کے کارکنوں کو بیدردی سے مارتے دیکھا۔۔۔
LOS ANGELES:
اور آج ایک بار پھر صریرِ خامہ پر قدغن لگا دی گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے افق پر اڑان بھرنے والے طائروں کے پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ سچ کہنا گناہ اور حق کی بات کی کرنا جرم بن گیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ اس مملکتِ خداداد کو جمہوریت راس ہی نہ آئی کہ یہاں کوئی بھی تو اس قابل نہیں جو وطن پاک کو صحیح سمت لے جائے کبھی ''ایکسپریس'' پر حملہ کبھی میڈیا پر دھاوا ، سمجھ میں نہیں آتا کہ ان صاحبِ اقتدار افراد سے کون سی زبان میں بات کی جائے، اہل صحافت کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی چند مثالیں ماضی میں ملتی ہیں لیکن جب ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو ظالموں کا وجود مٹ جاتا ہے۔
ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب لاہور میں پولیس کو طاہر القادری کے کارکنوں کو بیدردی سے مارتے دیکھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک خونچکاں واقعہ تھا۔ یہ دلدوز مناظر چینلز نے من و عن دکھائے، گلو بٹ کو لمحہ بھر میں وہ شہرت مل گئی جو اس سے پہلے اس کے نصیب میں نہیں تھی اس کا گاڑیوں پر ڈنڈے برسا کر شیشے توڑنا، فاتحانہ انداز میں رقص کرنا اور پھر ایک اعلیٰ پولیس افسر کی آشیر باد لینا یہ سب حیرت انگیز تھا یہ احکامات اس قدر ظالمانہ تھے کہ دوخواتین کو بھی گولی ماری گئی اور برزگوں کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا شاید اس اقدام سے ارباب اختیار کو تسلی ہو گئی ہو لیکن یہ مگر مچھ کے آنسو تھے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ''وہ'' اپنی کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیتے لیکن جب انسان کرسی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو انسانوں سے محبت اس کا شیوہ نہیں رہتا اس جابرانہ واقعہ سے ہم اہل وطن کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ زخموں سے چُور چُور متاثرین اور ان کے متعلقین کی بددعائیں حکمرانوں کا پیچھا کریں گی مگر وہ مظلوم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ان کے خون کا حساب کون دے گا؟
اس موقعے پر میں اپنی ایک نظم نذرِ قارئین کرتی ہوں ؎
ایوانِ بالا میں بسنے والو...تمہاری تخلیق میں چھپی ہے...ہزار صدیوں کی وہ سیاہی...تمہارے چہروں سے جو اُتر کر...تمہارے دل تک پہنچ گئی ہے...ایوانِ بالا میں بسنے والو...تم ایسے رہزن ہو جس کا چہرہ ...ہزار چہرے بدل رہا ہے...تم ایک ایسے قاتل ہو جس کے ہاتھوں...میں کوئی تلوار بھی نہیں ہے...مگر ہمیں تو وہ سب خبر ہے...تمہارے چہرے پہ جو لکھا ہے...تمہارے چہر ے پہ جھوٹ اپنا...مہیب سایہ بچھا رہا ہے...تمہاری اقدار وہ صلیبیں ہیں...جن پہ انصاف مر رہا ہے...تم ہی بتائو وہ کب ڈریں گے...جو زندہ مصلوب ہو گئے ہیں...وہ کب اندھیروں کا ساتھ دیں گے...جو روشنیوں کی جستجو میں...سکون کی نیند سو گئے ہیں...شعور بیدار جب بھی ہو گا...تو بوجھ ہو گے تم زمیں کا...جو چپ رہے گی زبانِ خنجر...لہو پکارے گا آستیں کا۔
یہ دنیا کے کس قانون میں درج ہے کہ آپ نہتے لوگوں پر گولیاں برسائیں اگر آپ حقیقی معنوں میں عوامی نمایندے ہوتے تو ان پر امن اجتماع کرنے والے لوگوں کے درمیان ہوتے اور کسی لیڈر کی آمد سے خوفزہ نہ ہوتے مگر آپ تو وی وی آئی پی ہیں۔ آپ کے ساتھ تو پورا کانوائے چلتا ہے۔ آپ کی پراڈو، لینڈ کروزور اور بلٹ پروف گاڑیاں پورے شہر کا ٹریفک پامال کرتے ہوئے شان دلبری سے آگے بڑھتی ہیں۔ ہوٹر کے شور میں ایمبولینس میں زخمی دم توڑ دیتے ہیں ۔ مگر آئے دن کے اس قتل کے بدلے بالادستوں کو جائے مقررہ پر فُل پروٹوکول ملتا ہے۔
پوری قوم کی تقدیر سے کھیلا جا رہا ہے اور آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نئی نسل کو تسخیر کر لیا ہے مگر یہاں تو ہر سمت انتشار ہے، بے چینی اور خوف، یہ وہ وقت ہے جب اہل ہنر اس سر زمینِ پاک کو خدا حافظ کہنے کو تیار ہیں ۔ بتائیے ان بیریئرز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اشرافیہ کے بنگلوں کے اطراف میں لگے ہوئے ہیں اگر آپ بھاری مینڈیٹ سے آئے ہیں عوام کے محبوب ہیں تو ہٹا دیجیے ان رکاوٹوں کو کم از کم پنجاب اور اہلِ پنجاب تو بقول آپ کے ، آپ کے اپنے ہیں پھر اپنوںسے خوف کیسا ؟
خون دل میں ڈوبنے والی انگلیاں تو پھر تحریر رقم کرتی رہیں گی اور ہونٹوں پر مہرِ خاموشی لگے گی تو آنکھیں بولیں گی۔ اور اگر آپ اپنے مظالم کو دیکھنے والی آنکھیں پھوڑ دیں گے تو تاریخ آپ کا نام ظالموں ، لٹیروں، منافقوں اور اقتدار کے بھوکے لوگوں میں ہمیشہ کے لیے شامل کر لے گی تو کیا آپ تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے پھر کسی گلو بٹ کو تلاش کریں گے۔ ؟
آپ ایسی حکومت کو کیا کہیں گے جو قائدِ عوامی تحریک کی آمد کے موقعے پر جہاز کا رُخ موڑ دیتی ہے، بظاہر اس لیے کہ ان کی سیکیورٹی مفقود تھی یا یوں کہیے کہ وہ خوفزد ہ تھی ایک نہتے آدمی سے ایسے موقعے پر حکومت کے کارندوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس تحریک سے وابستہ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیں مگر ان کی کارفرمائیاں دیکھنے کے لیے میڈیا بھی موجود تھا اور حکومتِ وقت اس وقت طاہر القادری اور میڈیا سے خوفزدہ ہے۔
صاحبِ اقتدار یہ نہیں جانتے کہ جب قلم پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں اور صحافت کا گلہ گھونٹا جاتا ہے تو بڑی سے بڑی حکومت کا تختہ الٹ جاتا ہے آج اپنے ہی افسونِ خدوخال میں گم اور طاقت کے نشے میں چُور بعض سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ اخبارات اور چینلز کو بند کر کے وہ شتر مرغ بن جائیں گے وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ گیدڑ وں کو پنجاب کے سوا تینوں صوبوں کے شہری کس شان سے خوش آمدید کہیں گے اس کا اندازہ شاید آنے والوں دنوں میں ہو جائے گا ۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
اور آج ایک بار پھر صریرِ خامہ پر قدغن لگا دی گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے افق پر اڑان بھرنے والے طائروں کے پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ سچ کہنا گناہ اور حق کی بات کی کرنا جرم بن گیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ اس مملکتِ خداداد کو جمہوریت راس ہی نہ آئی کہ یہاں کوئی بھی تو اس قابل نہیں جو وطن پاک کو صحیح سمت لے جائے کبھی ''ایکسپریس'' پر حملہ کبھی میڈیا پر دھاوا ، سمجھ میں نہیں آتا کہ ان صاحبِ اقتدار افراد سے کون سی زبان میں بات کی جائے، اہل صحافت کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی چند مثالیں ماضی میں ملتی ہیں لیکن جب ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو ظالموں کا وجود مٹ جاتا ہے۔
ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب لاہور میں پولیس کو طاہر القادری کے کارکنوں کو بیدردی سے مارتے دیکھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک خونچکاں واقعہ تھا۔ یہ دلدوز مناظر چینلز نے من و عن دکھائے، گلو بٹ کو لمحہ بھر میں وہ شہرت مل گئی جو اس سے پہلے اس کے نصیب میں نہیں تھی اس کا گاڑیوں پر ڈنڈے برسا کر شیشے توڑنا، فاتحانہ انداز میں رقص کرنا اور پھر ایک اعلیٰ پولیس افسر کی آشیر باد لینا یہ سب حیرت انگیز تھا یہ احکامات اس قدر ظالمانہ تھے کہ دوخواتین کو بھی گولی ماری گئی اور برزگوں کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا شاید اس اقدام سے ارباب اختیار کو تسلی ہو گئی ہو لیکن یہ مگر مچھ کے آنسو تھے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ''وہ'' اپنی کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیتے لیکن جب انسان کرسی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو انسانوں سے محبت اس کا شیوہ نہیں رہتا اس جابرانہ واقعہ سے ہم اہل وطن کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ زخموں سے چُور چُور متاثرین اور ان کے متعلقین کی بددعائیں حکمرانوں کا پیچھا کریں گی مگر وہ مظلوم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ان کے خون کا حساب کون دے گا؟
اس موقعے پر میں اپنی ایک نظم نذرِ قارئین کرتی ہوں ؎
ایوانِ بالا میں بسنے والو...تمہاری تخلیق میں چھپی ہے...ہزار صدیوں کی وہ سیاہی...تمہارے چہروں سے جو اُتر کر...تمہارے دل تک پہنچ گئی ہے...ایوانِ بالا میں بسنے والو...تم ایسے رہزن ہو جس کا چہرہ ...ہزار چہرے بدل رہا ہے...تم ایک ایسے قاتل ہو جس کے ہاتھوں...میں کوئی تلوار بھی نہیں ہے...مگر ہمیں تو وہ سب خبر ہے...تمہارے چہرے پہ جو لکھا ہے...تمہارے چہر ے پہ جھوٹ اپنا...مہیب سایہ بچھا رہا ہے...تمہاری اقدار وہ صلیبیں ہیں...جن پہ انصاف مر رہا ہے...تم ہی بتائو وہ کب ڈریں گے...جو زندہ مصلوب ہو گئے ہیں...وہ کب اندھیروں کا ساتھ دیں گے...جو روشنیوں کی جستجو میں...سکون کی نیند سو گئے ہیں...شعور بیدار جب بھی ہو گا...تو بوجھ ہو گے تم زمیں کا...جو چپ رہے گی زبانِ خنجر...لہو پکارے گا آستیں کا۔
یہ دنیا کے کس قانون میں درج ہے کہ آپ نہتے لوگوں پر گولیاں برسائیں اگر آپ حقیقی معنوں میں عوامی نمایندے ہوتے تو ان پر امن اجتماع کرنے والے لوگوں کے درمیان ہوتے اور کسی لیڈر کی آمد سے خوفزہ نہ ہوتے مگر آپ تو وی وی آئی پی ہیں۔ آپ کے ساتھ تو پورا کانوائے چلتا ہے۔ آپ کی پراڈو، لینڈ کروزور اور بلٹ پروف گاڑیاں پورے شہر کا ٹریفک پامال کرتے ہوئے شان دلبری سے آگے بڑھتی ہیں۔ ہوٹر کے شور میں ایمبولینس میں زخمی دم توڑ دیتے ہیں ۔ مگر آئے دن کے اس قتل کے بدلے بالادستوں کو جائے مقررہ پر فُل پروٹوکول ملتا ہے۔
پوری قوم کی تقدیر سے کھیلا جا رہا ہے اور آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نئی نسل کو تسخیر کر لیا ہے مگر یہاں تو ہر سمت انتشار ہے، بے چینی اور خوف، یہ وہ وقت ہے جب اہل ہنر اس سر زمینِ پاک کو خدا حافظ کہنے کو تیار ہیں ۔ بتائیے ان بیریئرز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اشرافیہ کے بنگلوں کے اطراف میں لگے ہوئے ہیں اگر آپ بھاری مینڈیٹ سے آئے ہیں عوام کے محبوب ہیں تو ہٹا دیجیے ان رکاوٹوں کو کم از کم پنجاب اور اہلِ پنجاب تو بقول آپ کے ، آپ کے اپنے ہیں پھر اپنوںسے خوف کیسا ؟
خون دل میں ڈوبنے والی انگلیاں تو پھر تحریر رقم کرتی رہیں گی اور ہونٹوں پر مہرِ خاموشی لگے گی تو آنکھیں بولیں گی۔ اور اگر آپ اپنے مظالم کو دیکھنے والی آنکھیں پھوڑ دیں گے تو تاریخ آپ کا نام ظالموں ، لٹیروں، منافقوں اور اقتدار کے بھوکے لوگوں میں ہمیشہ کے لیے شامل کر لے گی تو کیا آپ تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے پھر کسی گلو بٹ کو تلاش کریں گے۔ ؟
آپ ایسی حکومت کو کیا کہیں گے جو قائدِ عوامی تحریک کی آمد کے موقعے پر جہاز کا رُخ موڑ دیتی ہے، بظاہر اس لیے کہ ان کی سیکیورٹی مفقود تھی یا یوں کہیے کہ وہ خوفزد ہ تھی ایک نہتے آدمی سے ایسے موقعے پر حکومت کے کارندوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس تحریک سے وابستہ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیں مگر ان کی کارفرمائیاں دیکھنے کے لیے میڈیا بھی موجود تھا اور حکومتِ وقت اس وقت طاہر القادری اور میڈیا سے خوفزدہ ہے۔
صاحبِ اقتدار یہ نہیں جانتے کہ جب قلم پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں اور صحافت کا گلہ گھونٹا جاتا ہے تو بڑی سے بڑی حکومت کا تختہ الٹ جاتا ہے آج اپنے ہی افسونِ خدوخال میں گم اور طاقت کے نشے میں چُور بعض سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ اخبارات اور چینلز کو بند کر کے وہ شتر مرغ بن جائیں گے وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ گیدڑ وں کو پنجاب کے سوا تینوں صوبوں کے شہری کس شان سے خوش آمدید کہیں گے اس کا اندازہ شاید آنے والوں دنوں میں ہو جائے گا ۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟