بھارتی پاور سیکٹر کے نقصانات 27 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچنے کا خدشہ
فی کس بجلی کھپت انتہائی کم، چوری، لیکیج اور دیگر مسائل کا سامنا ہے، ورلڈ بینک
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ بھارت کے ناقص پاورسیکٹر میں حکومت نے بڑھتی ہوئی طلب کے باوجود اصلاحات متعارف نہیں کرائیں تو اس کے نقصانات 2017 میں بڑھ کر 27ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائیں گے۔
گزشتہ روز جاری تحقیقی رپورٹ کے مطابق بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جہاں فی کس بجلی کی کھپت 3044 کلوواٹ سالانہ کی عالمی اوسط کے ایک تہائی سے بھی کم یعنی اوسطا ایک شخص سالانہ انتہائی کم بجلی استعمال کرتا ہے تاہم ملک میں صنعتکاری کے فروغ اور 2028 تک آبادی 1.45ارب تک پہنچنے کے امکان پر اس فرق میں تیزی سے اضافے کا امکان ہے۔ بھارت کے پاور سیکٹر کے نقائص جولائی 2012 میں اس وقت سب کے سامنے آئے تھے جب ایک بڑے بلیک آئوٹ کے باعث شمال اور مشرق میں ملک کے 30 کروڑ افراد بجلی سے محروم ہو گئے تھے۔
ورلڈ بینک کے انڈیا ڈائریکٹر اونو روہل کا کہنا ہے کہ غیرموثر اور نقصان میں جانے والا ڈسٹری بیوشن سیگمنٹ اور نامناسب و ناقابل اعتبار پاور سپلائی بھارت کی ترقی کی خواہش میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ 2011 میں بھارتی پاور سیکٹر نے 12 سے 13ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا جو ٹیرف میں سالانہ 6 فیصد اضافے کی صورت میں ورلڈ بینک کے مطابق 2017 میں 27ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق مسائل سرکاری ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے پیدا ہو رہے ہیں جس میں لیکیج، چوری، بلوں کی وصولی میں ناکامی اور بجلی کی کم قیمت ہے۔
ورلڈ بینک کے پاورسیکٹر میں سبسڈیزپر بھی شدید تنقید کی جو امیروں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں جبکہ مقروض ڈسٹری بیوشن کمپنیاں انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ رواں ماہ سخت گرمی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ بھارت کے نئے وزیر بجلی پیوش گویال نے لوڈشیڈنگ کا الزام سپلائی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے فقدان پر ڈال دیا ہے۔
گزشتہ روز جاری تحقیقی رپورٹ کے مطابق بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جہاں فی کس بجلی کی کھپت 3044 کلوواٹ سالانہ کی عالمی اوسط کے ایک تہائی سے بھی کم یعنی اوسطا ایک شخص سالانہ انتہائی کم بجلی استعمال کرتا ہے تاہم ملک میں صنعتکاری کے فروغ اور 2028 تک آبادی 1.45ارب تک پہنچنے کے امکان پر اس فرق میں تیزی سے اضافے کا امکان ہے۔ بھارت کے پاور سیکٹر کے نقائص جولائی 2012 میں اس وقت سب کے سامنے آئے تھے جب ایک بڑے بلیک آئوٹ کے باعث شمال اور مشرق میں ملک کے 30 کروڑ افراد بجلی سے محروم ہو گئے تھے۔
ورلڈ بینک کے انڈیا ڈائریکٹر اونو روہل کا کہنا ہے کہ غیرموثر اور نقصان میں جانے والا ڈسٹری بیوشن سیگمنٹ اور نامناسب و ناقابل اعتبار پاور سپلائی بھارت کی ترقی کی خواہش میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ 2011 میں بھارتی پاور سیکٹر نے 12 سے 13ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا جو ٹیرف میں سالانہ 6 فیصد اضافے کی صورت میں ورلڈ بینک کے مطابق 2017 میں 27ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق مسائل سرکاری ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے پیدا ہو رہے ہیں جس میں لیکیج، چوری، بلوں کی وصولی میں ناکامی اور بجلی کی کم قیمت ہے۔
ورلڈ بینک کے پاورسیکٹر میں سبسڈیزپر بھی شدید تنقید کی جو امیروں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں جبکہ مقروض ڈسٹری بیوشن کمپنیاں انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ رواں ماہ سخت گرمی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ بھارت کے نئے وزیر بجلی پیوش گویال نے لوڈشیڈنگ کا الزام سپلائی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے فقدان پر ڈال دیا ہے۔