کیا ڈالر اپنی برتری برقرار رکھ سکے گا
بہت سی امریکی ریاستوں میں تیل کی راشن بندی کر کے تیل کی کھپت میں کمی لائی گئی
1973 کا سال پاکستان اور عرب دنیا،دونوں کے لیے انتہائی اہم سال تھا۔اس سال پاکستان میں آئین منظور ہو کر نافذ ہوا جو ہماری قومیتوں کے مابین ایک نیا لیکن بہت حد تک پائیدار سوشل کنٹریکٹ ثابت ہوا۔اسی سال مون سون کے موسم میں لگاتار موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں خوفناک سیلاب آئے جن سے بہت بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بیوروکریسی مشکل حالات سے عہدہ برآہونے کے قابل نہیں اس لیے بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو اصلاحات کی جائیں۔یوں اسی خطاب کے دوران 1973کی ایڈ منسٹریٹو اصلاحات کر دی گئیں ۔
بہر حال آئین کا نفاذ بہت بڑی پیش رفت تھی۔1973کے اکتوبر کے مہینے کی6تاریخ کو جب یہودی دنیا یومِ کپور منا رہی تھی اور مسلمان رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوںسے جی بھر کر فیض یاب ہو رہے تھے،مصر اور شام کی افواج نے جون 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی جنگ بندی لائن عبور کی۔جنگ کے ابتدائی تین دنوں میں مصر،اور شام کو چند اہم کامیابیاں ملیں۔مصر نے نہر سویز کو کامیابی سے عبور کرتے ہوئے صحرائے سینا میںکافی اندر تک پیش قدمی کی لیکن امریکا نے اپنے سیٹیلائٹ امیجز کی مدد سے اسرائیل کو اس مقام کی نشان دہی کر دی جہاں سے اسرائیلی افواج نہرِ سویز کو عبور کر کے سویز شہر پر حملہ آور ہو سکتی تھیں۔
اسرائیل نے اس اہم اطلاع سے خوب فائدہ اٹھایا اور مصری افواج کو سرپرائز دیتے ہوئے سویز شہر کو گھیرے میں لے لیا جہاں سے مصری دارالحکومت قاہرہ صرف ایک سو کلومیٹر کی دوری پر تھا۔شام نے بھی ابتدا میں گولان کی پہاڑیوں کی طرف پیش قدمی کی لیکن پھر اسرائیلی حملے کے خلاف ڈھیر ہو گیا یہاں تک کہ اسرائیلی افواج دمشق سے صرف 32کلومیٹر دور رہ گئیں۔اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے 22اکتوبر کوپہلی اور 24اکتوبر کو دوسری جنگ بندی ہوئی اور آخر کار 25اکتوبر کو جنگ رک گئی۔
اس جنگ کے دوران1960میں قائم ہونے والی اوپیک تنظیم نے اپنے ایک غیر معمولی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اوپیک تنظیم کے ممالک اپنی تیل کی پیداوار کم کر دیں گے اور اسرائیل کی ایکٹو حمایت کرنے والے ممالک کو تیل نہیں بیچیں گے۔اس وقت اوپیک میں وینزویلا کے علاوہ باقی چار ممالک ایران،سعودی عرب،عراق اور کویت مسلمان ممالک تھے۔اس فیصلے نے مغربی ممالک خاص کر امریکا کو بڑے صدمے سے دوچار کر دیا۔
بہت سی امریکی ریاستوں میں تیل کی راشن بندی کر کے تیل کی کھپت میں کمی لائی گئی۔اس صورتحال کے تناظر میں امریکی صدر نکسن نے اپنے وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کو سعودی عرب روانہ کیا۔یہ ملاقات ایک امریکی بحری جنگی جہاز پر ہوئی۔دورانِ ملاقات عربوں کے سامنے کئی مطالبات رکھے گئے،اور باور کرایا گیا کہ معاملات طے نہ ہوئے تو امریکا مجبور ہو گا کہ عرب ملکوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر لے۔اس دھمکی کا خاطر خواہ اثر ہوا اور طے پایا کہ سعودی عرب تیل کی قیمت صرف اور صرف امریکی ڈالر میں وصول کرے گا۔یہ بھی طے پایا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات کو صرف امریکی کمپنیاں ڈویلپ کریں گی۔
سعودی عرب کے ضروری جاری اخراجات کے علاوہ تیل سے ہونے والی زائد آمدن کو امریکی ٹریژری بانڈز میں انویسٹ کیا جائے گا۔ امریکا اس ڈیل کے عوض سعودی شاہی خاندان کی حفاظت اور مملکت کے دفاع کا ضامن ہو گا۔اس ڈیل کے نتیجے میں امریکی کرنسی ڈالر دنیا بھر کی سب سے اہم یعنی ریزرو کرنسی بن گئی کیونکہ اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب ہر ملک کو تیل ڈالروں کے عوض خریدنا پڑ گیا۔ڈالر کی اہمیت اور مانگ میں یک دم بے پناہ اضافہ ہو گیا۔دنیا کی بیشتر تجارت اب ڈالر میں ہونے لگی۔اس ڈیل کو پٹرو ڈالر کا نام دیا گیا۔اس سے امریکی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گئی کیونکہ اب سونا نہیں بلکہ ڈالر ریزرو کرنسی بن گئی۔سعودی عرب کو اس ڈیل سے کوئی بڑا فائدہ نہ ہوا کیونکہ امریکا نے ٹریژری بانڈز پر منافع کی شرح بہت کم رکھی۔
امریکا اور سعودی عرب کے مابین یہ ڈیل 8جون1974کو ہوئی۔اس سے امریکا اور یورپ کو عرب دنیا سے تیل کی سپلائی یقینی بنا دی گئی۔سعودی عرب کے دفاع کا ضامن ہونے کی وجہ سے امریکا کو سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں بہت مراعات ملیں۔سعودی عرب میں دفاع اور انٹیلی جنس کے حوالے سے امریکی افواج اور ایجنسیوں کو Operate کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔آپ کو یاد ہو گا کہ جب صدام حسین کی عراقی افواج نے کویت پر حملہ کیا تو امریکی افواج،سعودی عرب سے اجازت لیے بغیر وہاں اترنی اور اڈے بنانے لگیں۔
امریکی افواج کے اعلیٰ افسران کسی اجازت کے بغیر وہاں آنے جانے لگے۔ NasDaq کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مشہور اکانومسٹ پال ہافمین نے اپنے ایک مضمون میں اس ڈیل کا جائزہ لیا ہے۔اس کے مطابق ڈیل سے مغربی اقوام خاص کر امریکا کو بہت فائدہ ہوا ہے جب کہ اس سے سعودی عرب کو برائے نام ہی فائدہ ہوا۔پال ہاف مین کے مطابق اس ڈیل سے دنیا میں ایک نیا معاشی نظام قائم ہوا،ڈالر کی بے مثال برتری قائم ہوئی جس سے ہر دانگِ عالم امریکی مفادات کو تحفظ ملا۔ڈیل سے امریکا ایک ایسا معاشی نظام قائم کرنے کے قابل ہوا جس میں نیویارک دنیا کے معاشی اور سیاسی نظام کا گھنٹہ گھر بن گیا۔اب ہر بین الاقوامی ٹرانزکشن امریکی ڈالر میں ہونے لگی۔
روس،یوکرین جنگ شروع ہونے پر مغرب نے روس پر کڑی پابندیاں لگا دیں تو روس نے اپنا تیل ڈالر کے بجائے بارٹر ٹریڈ کی بنیاد پر فروخت کرنا شروع کر دیا اس فیصلے سے ڈالر رجیم کو ضعف پہنچا۔صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے روس سے دھڑا دھڑ تیل خرید کر اپنی ریفائنریوں میں صاف کیا اور یورپ کو بیچ کر اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو خوب بڑھایا۔پچھلے ساٹھ سالوں میں اوپیک ممبران ممالک کی تعداد 5سے تجاوز کرتی ہوئی12ہو چکی ہے۔اس عرصے میں دنیا کا انحصار تیل پر قدرے کم ہوا ہے۔توانائی کے متبادل ذرائع دریافت ہو چکے ہیں۔
امریکا تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکا ہے۔اب سعودی عرب کے تیل کا بہت بڑا حصہ ایشیائی و افریقی ممالک کو جاتاہے،صرف دس فیصد تیل یورپ کو جاتا ہے۔اس وقت تیل کی بڑی کھپت امریکا،چین،جاپان ،برازیل اور بھارت میں ہو رہی ہے البتہ امریکا اپنا تیل خود پیدا کر رہا ہے،ہاں اپنے تیل کے ذخائر کو بچانے کے لیے یومیہ صرف ایک ملین بیرل سے کچھ اوپر تیل سعودیہ سے منگواتا ہے۔
8جون1974کو ہونے والی امریکا،سعودی عرب ڈیل 8جون 2024 کو اپنی مدت مکمل کر کے زائدالمیعادExpireہو چکی ہے۔مختلف اطلاعاتی ایجنسیاں یہ رپورٹ کر رہی ہیں کہ سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان اس ڈیل کو Renewکرنے کے حق میں نہیں۔اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو اس سے دنیا کا موجودہ معاشی نظام قائم نہیں رہ سکے گا کیونکہ اس نظام کی بنیاد پٹروڈالر پر کھڑی کی گئی ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو اب تیل،گیس،سونے اور چاندی کو بین الاقوامی مارکیٹ سے خریدنے کے لیے امریکی ڈالر میں ادائیگی ضروری نہیں ہو گی۔
اب یہ ٹرانزکشنز چین، جاپان، روسی،یورپی ، برطانوی اور ڈیجیٹل کرنسیوں میں ہو سکیں گی۔ڈالر کی ساکھ اب قائم نہیں رہ سکے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی سخت لہجے میں انتباہ کیا ہے کہ وہ ڈالر کی برتری کے خلاف کیے گئے اقدامات کو برداشت نہیں کریں گے اور ان ممالک کو سخت سزا دیں گے جو ایسا کریں گے۔
ڈی ڈالارئیزیشن سے جہاں موجودہ معاشی نظام درہم برہم ہو گا وہیں 63کے قریب امریکی بینک دیوالیہ ہو سکتے ہیں اور امریکی ڈالر ذخائر گر سکتے ہیں۔لوگوں کی امریکا اور بیرونِ ملک بینکوں میں پڑی فارن کرنسی رقوم ڈوب سکتی ہیں۔ امریکا اب تک اپنی معاشی اور فوجی قوت کے بل پر تمام طوفانوں سے بچ نکلتا آیا ہے لیکن یہ طوفان بہت طاقتور ہے۔پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کو آتے اس طوفان سے آگاہ ہونا ہوگا اور امریکا کی نظر میں نہ آتے ہوئے اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات ابھی سے اٹھانے ہوں گے۔
بہر حال آئین کا نفاذ بہت بڑی پیش رفت تھی۔1973کے اکتوبر کے مہینے کی6تاریخ کو جب یہودی دنیا یومِ کپور منا رہی تھی اور مسلمان رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوںسے جی بھر کر فیض یاب ہو رہے تھے،مصر اور شام کی افواج نے جون 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی جنگ بندی لائن عبور کی۔جنگ کے ابتدائی تین دنوں میں مصر،اور شام کو چند اہم کامیابیاں ملیں۔مصر نے نہر سویز کو کامیابی سے عبور کرتے ہوئے صحرائے سینا میںکافی اندر تک پیش قدمی کی لیکن امریکا نے اپنے سیٹیلائٹ امیجز کی مدد سے اسرائیل کو اس مقام کی نشان دہی کر دی جہاں سے اسرائیلی افواج نہرِ سویز کو عبور کر کے سویز شہر پر حملہ آور ہو سکتی تھیں۔
اسرائیل نے اس اہم اطلاع سے خوب فائدہ اٹھایا اور مصری افواج کو سرپرائز دیتے ہوئے سویز شہر کو گھیرے میں لے لیا جہاں سے مصری دارالحکومت قاہرہ صرف ایک سو کلومیٹر کی دوری پر تھا۔شام نے بھی ابتدا میں گولان کی پہاڑیوں کی طرف پیش قدمی کی لیکن پھر اسرائیلی حملے کے خلاف ڈھیر ہو گیا یہاں تک کہ اسرائیلی افواج دمشق سے صرف 32کلومیٹر دور رہ گئیں۔اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے 22اکتوبر کوپہلی اور 24اکتوبر کو دوسری جنگ بندی ہوئی اور آخر کار 25اکتوبر کو جنگ رک گئی۔
اس جنگ کے دوران1960میں قائم ہونے والی اوپیک تنظیم نے اپنے ایک غیر معمولی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اوپیک تنظیم کے ممالک اپنی تیل کی پیداوار کم کر دیں گے اور اسرائیل کی ایکٹو حمایت کرنے والے ممالک کو تیل نہیں بیچیں گے۔اس وقت اوپیک میں وینزویلا کے علاوہ باقی چار ممالک ایران،سعودی عرب،عراق اور کویت مسلمان ممالک تھے۔اس فیصلے نے مغربی ممالک خاص کر امریکا کو بڑے صدمے سے دوچار کر دیا۔
بہت سی امریکی ریاستوں میں تیل کی راشن بندی کر کے تیل کی کھپت میں کمی لائی گئی۔اس صورتحال کے تناظر میں امریکی صدر نکسن نے اپنے وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کو سعودی عرب روانہ کیا۔یہ ملاقات ایک امریکی بحری جنگی جہاز پر ہوئی۔دورانِ ملاقات عربوں کے سامنے کئی مطالبات رکھے گئے،اور باور کرایا گیا کہ معاملات طے نہ ہوئے تو امریکا مجبور ہو گا کہ عرب ملکوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر لے۔اس دھمکی کا خاطر خواہ اثر ہوا اور طے پایا کہ سعودی عرب تیل کی قیمت صرف اور صرف امریکی ڈالر میں وصول کرے گا۔یہ بھی طے پایا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات کو صرف امریکی کمپنیاں ڈویلپ کریں گی۔
سعودی عرب کے ضروری جاری اخراجات کے علاوہ تیل سے ہونے والی زائد آمدن کو امریکی ٹریژری بانڈز میں انویسٹ کیا جائے گا۔ امریکا اس ڈیل کے عوض سعودی شاہی خاندان کی حفاظت اور مملکت کے دفاع کا ضامن ہو گا۔اس ڈیل کے نتیجے میں امریکی کرنسی ڈالر دنیا بھر کی سب سے اہم یعنی ریزرو کرنسی بن گئی کیونکہ اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب ہر ملک کو تیل ڈالروں کے عوض خریدنا پڑ گیا۔ڈالر کی اہمیت اور مانگ میں یک دم بے پناہ اضافہ ہو گیا۔دنیا کی بیشتر تجارت اب ڈالر میں ہونے لگی۔اس ڈیل کو پٹرو ڈالر کا نام دیا گیا۔اس سے امریکی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گئی کیونکہ اب سونا نہیں بلکہ ڈالر ریزرو کرنسی بن گئی۔سعودی عرب کو اس ڈیل سے کوئی بڑا فائدہ نہ ہوا کیونکہ امریکا نے ٹریژری بانڈز پر منافع کی شرح بہت کم رکھی۔
امریکا اور سعودی عرب کے مابین یہ ڈیل 8جون1974کو ہوئی۔اس سے امریکا اور یورپ کو عرب دنیا سے تیل کی سپلائی یقینی بنا دی گئی۔سعودی عرب کے دفاع کا ضامن ہونے کی وجہ سے امریکا کو سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں بہت مراعات ملیں۔سعودی عرب میں دفاع اور انٹیلی جنس کے حوالے سے امریکی افواج اور ایجنسیوں کو Operate کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔آپ کو یاد ہو گا کہ جب صدام حسین کی عراقی افواج نے کویت پر حملہ کیا تو امریکی افواج،سعودی عرب سے اجازت لیے بغیر وہاں اترنی اور اڈے بنانے لگیں۔
امریکی افواج کے اعلیٰ افسران کسی اجازت کے بغیر وہاں آنے جانے لگے۔ NasDaq کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مشہور اکانومسٹ پال ہافمین نے اپنے ایک مضمون میں اس ڈیل کا جائزہ لیا ہے۔اس کے مطابق ڈیل سے مغربی اقوام خاص کر امریکا کو بہت فائدہ ہوا ہے جب کہ اس سے سعودی عرب کو برائے نام ہی فائدہ ہوا۔پال ہاف مین کے مطابق اس ڈیل سے دنیا میں ایک نیا معاشی نظام قائم ہوا،ڈالر کی بے مثال برتری قائم ہوئی جس سے ہر دانگِ عالم امریکی مفادات کو تحفظ ملا۔ڈیل سے امریکا ایک ایسا معاشی نظام قائم کرنے کے قابل ہوا جس میں نیویارک دنیا کے معاشی اور سیاسی نظام کا گھنٹہ گھر بن گیا۔اب ہر بین الاقوامی ٹرانزکشن امریکی ڈالر میں ہونے لگی۔
روس،یوکرین جنگ شروع ہونے پر مغرب نے روس پر کڑی پابندیاں لگا دیں تو روس نے اپنا تیل ڈالر کے بجائے بارٹر ٹریڈ کی بنیاد پر فروخت کرنا شروع کر دیا اس فیصلے سے ڈالر رجیم کو ضعف پہنچا۔صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے روس سے دھڑا دھڑ تیل خرید کر اپنی ریفائنریوں میں صاف کیا اور یورپ کو بیچ کر اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو خوب بڑھایا۔پچھلے ساٹھ سالوں میں اوپیک ممبران ممالک کی تعداد 5سے تجاوز کرتی ہوئی12ہو چکی ہے۔اس عرصے میں دنیا کا انحصار تیل پر قدرے کم ہوا ہے۔توانائی کے متبادل ذرائع دریافت ہو چکے ہیں۔
امریکا تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکا ہے۔اب سعودی عرب کے تیل کا بہت بڑا حصہ ایشیائی و افریقی ممالک کو جاتاہے،صرف دس فیصد تیل یورپ کو جاتا ہے۔اس وقت تیل کی بڑی کھپت امریکا،چین،جاپان ،برازیل اور بھارت میں ہو رہی ہے البتہ امریکا اپنا تیل خود پیدا کر رہا ہے،ہاں اپنے تیل کے ذخائر کو بچانے کے لیے یومیہ صرف ایک ملین بیرل سے کچھ اوپر تیل سعودیہ سے منگواتا ہے۔
8جون1974کو ہونے والی امریکا،سعودی عرب ڈیل 8جون 2024 کو اپنی مدت مکمل کر کے زائدالمیعادExpireہو چکی ہے۔مختلف اطلاعاتی ایجنسیاں یہ رپورٹ کر رہی ہیں کہ سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان اس ڈیل کو Renewکرنے کے حق میں نہیں۔اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو اس سے دنیا کا موجودہ معاشی نظام قائم نہیں رہ سکے گا کیونکہ اس نظام کی بنیاد پٹروڈالر پر کھڑی کی گئی ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو اب تیل،گیس،سونے اور چاندی کو بین الاقوامی مارکیٹ سے خریدنے کے لیے امریکی ڈالر میں ادائیگی ضروری نہیں ہو گی۔
اب یہ ٹرانزکشنز چین، جاپان، روسی،یورپی ، برطانوی اور ڈیجیٹل کرنسیوں میں ہو سکیں گی۔ڈالر کی ساکھ اب قائم نہیں رہ سکے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی سخت لہجے میں انتباہ کیا ہے کہ وہ ڈالر کی برتری کے خلاف کیے گئے اقدامات کو برداشت نہیں کریں گے اور ان ممالک کو سخت سزا دیں گے جو ایسا کریں گے۔
ڈی ڈالارئیزیشن سے جہاں موجودہ معاشی نظام درہم برہم ہو گا وہیں 63کے قریب امریکی بینک دیوالیہ ہو سکتے ہیں اور امریکی ڈالر ذخائر گر سکتے ہیں۔لوگوں کی امریکا اور بیرونِ ملک بینکوں میں پڑی فارن کرنسی رقوم ڈوب سکتی ہیں۔ امریکا اب تک اپنی معاشی اور فوجی قوت کے بل پر تمام طوفانوں سے بچ نکلتا آیا ہے لیکن یہ طوفان بہت طاقتور ہے۔پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کو آتے اس طوفان سے آگاہ ہونا ہوگا اور امریکا کی نظر میں نہ آتے ہوئے اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات ابھی سے اٹھانے ہوں گے۔