بات کچھ اِدھر اُدھر کی ریویو ہمشکلز
یہ فلم فیملی کے ساتھ دیکھنے کے لئے ہرگز موزوں نہیں اور دوستوں سے ساتھ دیکھنے سے شاید آپ بھی سر پیٹنا شروع ہوجائیں.
KARACHI:
انڈین فلم ہم شکل ویسے تو مزاحیہ فلم ہے ۔ لیکن میرے خیال میں ساجد خان کا یہ تجربہ بڑے پردے کے لحاظ سے کچھ خاص قابل ستائش نہیں ہے۔قارئین فلم کے پہلے منظر کو دیکھیں یا آخری دونوں یکساں ہی لگیں گے۔
فلم کے آغازمیں اشوک ( سیف علی خان) لطیفے سناتے یک ہوٹل کے اسٹیج پر دکھائی دئی ہیں۔ عجیب و غریب مزاحیہ انداز کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے کی ناکام کوشش کرنے والے اشوک کے ساتھ اسٹیج کے پیچھے ایک اور کردار کمار (رتیش دیش مکھ) دکھائی دیتے ہیں۔ جن کی شکل اور حرکات اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ اس کامیڈی کا معیار کتنا گرا ہوا ہے۔ یہی حال کچھ ہوٹل میں بیٹھے لوگوں کا ہے جو ایک ایک کر کے ہوٹل چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اگر اس کردار کو کمار ادا کرتے تو شاید یہ سین بہتر ہوسکتا تھا۔
اگلے سین میںانہیں ایک ٹوسیٹر پر سوار ہوتے دکھائی دئیے ۔ جو انہیں اشوک کے پرائیوٹ ہیلی پیڈ پر لے جاتا ہے۔ یہاں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ اشوک دراصل لندن کے کروڑ پتی باپ کا بیٹا ہے،جیسے ایک عالیشان محل میں پہنچایا جاتا ہے، جہاں نوکروں کی خاصی بڑی تعداد ان کی منتظر دکھائی دیتی ہے۔ محل میں پہنچنے کا مقصد اپنے باپ کی تیمارداری کرنا ہوتی ہے جو 6سال سے قومہ کی حالت میں ہوتا ہے۔
دراصل کہانی اسی کروڑ پتی اشوک کی ہے جسکا باپ بستر مرگ پر ہے اور اسکے ماما جی (رام کپور) اشوک کو کاروبار سے دور کر کے جائیداد پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ اسی چکر میں وہ اپنے ایک دوست ڈاکٹر خان (نواب شاہ) سے ایک ایسی دوائی (ڈرگ) بنواتے ہیں، جس کو پینے کے بعد انسان کتا ہوجاتا ہے۔ اس کا پہلا پریکٹیکل وہ اپنے دوست کمار پر کرتے ہیں۔ اس ڈرگ کو پانی میں ملا کروہ اپنے دوست کمار کو پلاتے ہیں اور وہ کتے کی طرح بھونکنے اور حرکتیں کرنے لگتا ہے۔یہی ڈرگ اشوک اور کما ر کو آفس مٹینگ کے دوران پانی میں ملا کر دی جاتی ہے۔
جس کے بعد دونوں کردار مٹینگ کے درمیان میں عجیب و غریب کتوں والی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ اور پھر ان دونوںکو ماما جی پاگلوں کے اسپتال میں داخل کروادیتے ہیں۔ لیکن ماما جی نہیں جانتے کہ اسی اسپتال میں اشوک اور کمار دونوں دوستو ں کے ہمشکل بھی موجودہیں ۔ یہ دونوں جوڑیاںایک ساتھ مکس ہوجاتی ہیں اور پھر عجیب و غریب قسم کے واقعات کا وہ سلسلہ چل نکلتا ہے جن کا تعلق بظاہر نہ ہی فلم سے ہے اور نہ ہی کہانی سے لگتا ہے۔
مزاح کو اس فلم میں کوٹ کوٹ کر بھرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ فلم فیملی کے ساتھ دیکھنے کے لئے ہرگز موزوں نہیں اور دوستوں سے ساتھ دیکھنے سے شاید آپ بھی سر پیٹنا شروع ہوجائیں۔جب انسان نما کتوں یا (کتے نما انسانوں) ، ہٹلر نما وارڈن، ہم جنس پرستوں اور او سی ڈی کے مریض سے کام نہ چلا تو مردوں کو خواتین کے میک اپ اور لباس پہنا کر اسکرین پر لے آئے۔ پھر بھی دال ہضم نہیں ہوئی تو ٹرپلیٹ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے تین ہمشکلوں کو اسکرین پر جلوا گر کر دیا۔
اتنے جدید دور میں اس فلم میں ایک سین یہ بھی دکھایا گیا کہ ایک سائنسدان ایسی دوائی تیار کرتا ہے کہ جس کو کھا کر انسان کتے والی حرکتیں
شروع کر دیتا ہے۔ اگر ساجد خان صاحب لکھتے وقت تھوڑا سا دماغ استعمال کر لیتے تو کیا ہی بات ہوتی۔ میرے اندازے کے مطابق ساجد خان کا ہمشکلز کو ایک مزاحیہ فلم بنانے کا تجربہ بے سود رہا ۔ یہ بھی عین ممکن کہ یہ فلم بری طرح فلاپ ہوجائے۔
ہدایت کار : ساجد خان
پروڈیوسر : واشو بھنگانی
تحریر : ساجد خان
فنکار : سیف علی خان ، رتیش دیش مکھ ، تمنا بھاتیا ،عیشا گُپتا، بپاشا باسو اور رام کپور
میوزک : ہمیش ریشمیا
پیش کردہ کمپنی : فوکس اسٹار اسٹڈیوز
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
انڈین فلم ہم شکل ویسے تو مزاحیہ فلم ہے ۔ لیکن میرے خیال میں ساجد خان کا یہ تجربہ بڑے پردے کے لحاظ سے کچھ خاص قابل ستائش نہیں ہے۔قارئین فلم کے پہلے منظر کو دیکھیں یا آخری دونوں یکساں ہی لگیں گے۔
فلم کے آغازمیں اشوک ( سیف علی خان) لطیفے سناتے یک ہوٹل کے اسٹیج پر دکھائی دئی ہیں۔ عجیب و غریب مزاحیہ انداز کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے کی ناکام کوشش کرنے والے اشوک کے ساتھ اسٹیج کے پیچھے ایک اور کردار کمار (رتیش دیش مکھ) دکھائی دیتے ہیں۔ جن کی شکل اور حرکات اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ اس کامیڈی کا معیار کتنا گرا ہوا ہے۔ یہی حال کچھ ہوٹل میں بیٹھے لوگوں کا ہے جو ایک ایک کر کے ہوٹل چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اگر اس کردار کو کمار ادا کرتے تو شاید یہ سین بہتر ہوسکتا تھا۔
اگلے سین میںانہیں ایک ٹوسیٹر پر سوار ہوتے دکھائی دئیے ۔ جو انہیں اشوک کے پرائیوٹ ہیلی پیڈ پر لے جاتا ہے۔ یہاں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ اشوک دراصل لندن کے کروڑ پتی باپ کا بیٹا ہے،جیسے ایک عالیشان محل میں پہنچایا جاتا ہے، جہاں نوکروں کی خاصی بڑی تعداد ان کی منتظر دکھائی دیتی ہے۔ محل میں پہنچنے کا مقصد اپنے باپ کی تیمارداری کرنا ہوتی ہے جو 6سال سے قومہ کی حالت میں ہوتا ہے۔
دراصل کہانی اسی کروڑ پتی اشوک کی ہے جسکا باپ بستر مرگ پر ہے اور اسکے ماما جی (رام کپور) اشوک کو کاروبار سے دور کر کے جائیداد پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ اسی چکر میں وہ اپنے ایک دوست ڈاکٹر خان (نواب شاہ) سے ایک ایسی دوائی (ڈرگ) بنواتے ہیں، جس کو پینے کے بعد انسان کتا ہوجاتا ہے۔ اس کا پہلا پریکٹیکل وہ اپنے دوست کمار پر کرتے ہیں۔ اس ڈرگ کو پانی میں ملا کروہ اپنے دوست کمار کو پلاتے ہیں اور وہ کتے کی طرح بھونکنے اور حرکتیں کرنے لگتا ہے۔یہی ڈرگ اشوک اور کما ر کو آفس مٹینگ کے دوران پانی میں ملا کر دی جاتی ہے۔
جس کے بعد دونوں کردار مٹینگ کے درمیان میں عجیب و غریب کتوں والی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ اور پھر ان دونوںکو ماما جی پاگلوں کے اسپتال میں داخل کروادیتے ہیں۔ لیکن ماما جی نہیں جانتے کہ اسی اسپتال میں اشوک اور کمار دونوں دوستو ں کے ہمشکل بھی موجودہیں ۔ یہ دونوں جوڑیاںایک ساتھ مکس ہوجاتی ہیں اور پھر عجیب و غریب قسم کے واقعات کا وہ سلسلہ چل نکلتا ہے جن کا تعلق بظاہر نہ ہی فلم سے ہے اور نہ ہی کہانی سے لگتا ہے۔
مزاح کو اس فلم میں کوٹ کوٹ کر بھرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ فلم فیملی کے ساتھ دیکھنے کے لئے ہرگز موزوں نہیں اور دوستوں سے ساتھ دیکھنے سے شاید آپ بھی سر پیٹنا شروع ہوجائیں۔جب انسان نما کتوں یا (کتے نما انسانوں) ، ہٹلر نما وارڈن، ہم جنس پرستوں اور او سی ڈی کے مریض سے کام نہ چلا تو مردوں کو خواتین کے میک اپ اور لباس پہنا کر اسکرین پر لے آئے۔ پھر بھی دال ہضم نہیں ہوئی تو ٹرپلیٹ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے تین ہمشکلوں کو اسکرین پر جلوا گر کر دیا۔
اتنے جدید دور میں اس فلم میں ایک سین یہ بھی دکھایا گیا کہ ایک سائنسدان ایسی دوائی تیار کرتا ہے کہ جس کو کھا کر انسان کتے والی حرکتیں
شروع کر دیتا ہے۔ اگر ساجد خان صاحب لکھتے وقت تھوڑا سا دماغ استعمال کر لیتے تو کیا ہی بات ہوتی۔ میرے اندازے کے مطابق ساجد خان کا ہمشکلز کو ایک مزاحیہ فلم بنانے کا تجربہ بے سود رہا ۔ یہ بھی عین ممکن کہ یہ فلم بری طرح فلاپ ہوجائے۔
ہدایت کار : ساجد خان
پروڈیوسر : واشو بھنگانی
تحریر : ساجد خان
فنکار : سیف علی خان ، رتیش دیش مکھ ، تمنا بھاتیا ،عیشا گُپتا، بپاشا باسو اور رام کپور
میوزک : ہمیش ریشمیا
پیش کردہ کمپنی : فوکس اسٹار اسٹڈیوز
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔